آج کل پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس اور پی ایم ایس افسران کے درمیان شدید تنائو کا ماحول ہے۔پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران جیسے آسمانی مخلوق ہیں کہ ساری اہم سیٹوں پر صرف انہی کا استحقاق ہے۔سی ایس ایس اورپی ایم ایس دونوں کے امتحانات ہر لحاظ سے یکساں اور برابر ہیں۔سی ایس ایس افسران کی ترقی کا سفر تو ہوا کی سپیڈ سے بھی زیادہ تیزی سے اپنی منازل طے کرتا ہے جبکہ پی ایم ایس افسران سمیت دیگر سرکاری ملازمین کی ترقی کے سامنے نہ صرف سوالیہ نشان موجود ہے بلکہ بڑا سا ’’فل سٹاپ‘‘ لگا دیا جاتا ہے۔ چئیرمین پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ اور سنئیر ممبر بورڈ آف ریونیو کی اہم ترین سیٹ پر لازماً اور خالصتاً پی ایم ایس افسران کا استحقاق ہونا چاہئے لیکن چیف سیکرٹری، ایڈشنل چیف سیکرٹری، سیکرٹری سروسز ،چئیرمین پی اینڈ ڈی،سیکرٹری ٹو سی ایم،سیکرٹری ٹو گورنر اور سنئیر ممبر بورڈ آف ریونیو جیسی اہم سیٹوںپر پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران اتنے عرصے سے قابض ہیں کہ پی ایم ایس افسران بھی اس کو خدائی فیصلہ مان بیٹھے ہیں کہ یہاں پر ان کو کبھی پوسٹنگ نہیں مل سکتی جبکہ پنجاب کی صوبائی سیکرٹریزکی دیگر42سیٹوںمیں سے بھی 6/7سیکرٹریز کی سیٹیں بمشکل پی ایم ایس افسران کو دی جاتی ہیں، وہ بھی غیر اہم سے محکمہ جات۔پنجاب کے 41میں سے صرف 16اضلاع میں صوبائی سروس کے ڈپٹی کمشنر ہیں جبکہ باقی تمام اہم اضلاع میں پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے زیادہ تر جونئیر افسران تعینات ہیں۔ ورلڈ بنک سمیت انٹرنیشنل فنڈنگ والی تمام سیٹوں پر بھی برسہا برس سے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کا قبضہ ہے اور وہ وہاں سیا و سفید کے مالک ہیں۔سی ایس ایس افسران کی صوبائی روٹیشن پالیسی پر بھی عمل نہیں کیا جارہا۔ سینئر افسران دہائیوں سے پنجاب چھوڑنے کو تیار نہیں۔پنجاب کو سونے کی چڑیا سمجھنے والے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کی ساری لاقانونیت کا مرکز پنجاب ہی ہے۔دوسرے صوبوں میں پنجاب کی نسبت صوبائی افسران کو نہ صرف ترقی کے یکساں مواقع موجود ہیں بلکہ اہم پوسٹوں پر بھی تعینات ہیں۔ وفاق اور دیگر صوبوں میں افسران کو پانچ سال سروس کے بعد گریڈ اٹھارہ میں ترقی دے دی جاتی ہے جبکہ لاقانونیت اور زورزبردستی کی سب سے بڑی مثال ہے کہ پنجاب میں سخت مقابلہ جاتی امتحان پاس کرکے آنے والے پی ایم ایس افسران کی گریڈ اٹھارہ میں ترقی کو ٹریننگ سے مشروط کردیاجاتا ہے۔’’ نہ نومن تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی‘‘ کے مصداق مہینوں ٹریننگ لیٹ کی جاتی ہے ،پھر ڈرامائی انداز میں ٹریننگ کیلئے چھوٹے بیچ بنائے جاتے ہیں۔ ان سارے تاخیری حربوں کے باوجود ٹریننگ میں کامیاب ہونے والوں کو پروموشن بورڈ میں غیر ضروری تاخیر کرکے کہ لامتناہی انتظار کی سولی پرلٹکا دیا جاتاہے۔ ڈی ایم جی گروپ(موجودہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس) نے 1993 کی عبوری حکومت کے دور میں ایک غیر قانونی سیٹ شیئرنگ فارمولا طے کروایا جس کے تحت صوبے کی تمام اہم آسامیوں پر براجمان ہو گئے اور صوبائی افسران کی ترقی کا راستہ روک دیا۔اس کے خلاف قانونی چارہ جوئی کیلئے پی ایم ایسوسی ایشن نے عدالت میں کیس بھی دائر کر رکھا ہے۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران تمام اہم آسامیوں پر قابض ہو جاتے ہیں اور اس طرح حکومت کی باگ ڈور اصل میں ان کے ہاتھ میں ہوتی ہے اور یہ اپنی کلاس کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔مضحکہ خیز طور پر گریڈ بڑھنے کے ساتھ ساتھ پی ایم ایس کا شیئر کم ہوتے ہوتے صفر ہو جاتا ہے۔صوبوں کے درمیان کیسا معاہدہ ہے جہاں تمام صوبوں کے پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے چیف سیکرٹریز پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے ہی سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ میٹنگ کرکے پوسٹیں تقسیم کر دیتے ہیں۔اس تقسیم کی جانبداری کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میٹنگ میں صوبائی سول سروس کا کوئی نمائندہ نہیں بلایا جاتا۔ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کی طرح پی ایس پی افسران نے محکمہ پولیس میں اپنی اجارہ اداری قائم کر رکھی ہے اور صوبائی پولیس افسران کا استحصال کررہے ہیں۔ریٹائرمنٹ کا وقت آن پہنچتا ہے لیکن اے ایس آئی اور سب انسپکٹر بھرتی ہونے والوں کی اکثریت انسپکٹر اور ڈی ایس پی سے آگے نہیں جاپاتے۔ رینکرزپولیس افسران میں سے اگر دوچار پرموٹ ہو بھی جائیں تو ان کو ساری زندگی اچھی پوسٹنگ نہیں ملتی۔پی ایس پی افسران جونئیر ایس پی گریڈ 18کے باوجود گریڈ انیس کی سیٹ پر بطور ڈی پی او براجمان ہوتے ہیں جبکہ رینکر ایس ایس پی گریڈ 19میں ہو کر بھی اس سیٹ کیلئے اہل نہیں سمجھا جاتا۔ ستم ضریفی دیکھئے کہ صوبائی سروس کے ایک تہائی افسران کو او ایس ڈی کرکے ذہنی اذیت سے دوچار کیا جارہا ہے جبکہ پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس کے افسران کو دوسرے محکموں کے بھی اضافی اختیارات سے نوازا جارہا ہے۔ سیکرٹری فوڈ،سیکرٹری ماحولیات ،سیکرٹری ہائر ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ ،سیکرٹری ہیلتھ اور ڈی جی ایل ڈی اے سمیت درجنوں محکمے اضافی چارج پرچل رہے ہیں ۔اسی طرح2015 میں گریڈ انیس میں سیکرٹری ہیلتھ رہنے والے علی جان2023میں گریڈ اکیس میں بھی بار بار سیکرٹری ہیلتھ آنا ہی کیوں پسند کرتے ہیں۔؟ نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اس وقت چیف سیکرٹری پنجاب زاہد اختر زمان کے ہاتھوں یرغمال ہوچکے ہیں ۔پنجاب کی تاریخ کا سب سے منفرد فیصلہ دیکھیے کہ نارووال میں خاتون سے زیادتی کیس میں صوبائی سروس کے انتہائی قابل آفیسر کو ڈپٹی کمشنر کے عہدے سے ہٹا دیا گیا جبکہ معمولی سمجھ بوجھ والا عام شہری بھی یہ جانتا ہے کہ جرائم کنٹرول کرنا ڈی سی کی نہیں پولیس کی ذمہ داری ہے لیکن ڈی پی او تو آئی جی کے احکامات کی روشنی میں ٹک ٹاک ویڈیوز بنانے اور سوشل میڈیا کمپین میں مصروف ہونگے۔پنجاب کی امن و امان کی صورتحال انتہائی خراب ہے۔ رپورٹڈ کرائم ریٹ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔چیف سیکرٹری صوبائی انتظامی سربراہ ہوتا ہے لیکن وہ ناصرف پنجاب کو پاکستان ایڈمنسٹریٹو سروس مقبوضہ صوبہ بنائے ہوئے ہیں اس کے ساتھ ساتھ میٹروپولیٹن کارپوریشن لاہور فتح کرنے کی سرد جنگ کا ہراول دستہ ہیں۔ آج جس صورتحال سے صوبہ دوچار ہے اور جس چیلنج کا حکومت کو سامنا ہے، اس کے تقاضے کچھ اور ہیں ،وزیراعلیٰ محسن نقوی کو چاہئے کہ پنجاب کی صوبائی بیوروکریسی میں آئے روز اکھاڑ پچھاڑ کی بجائے بنیادی مسئلے کو سمجھا جائے ،انصاف کا ترازواس بات کا متقاضی ہے کہ سب کو مساوی مواقع فراہم کیے جائیں ۔