ملک منیر کا تعلق ننکانہ سے ہے۔ 1980 میں محنت مزدوری کی غرض سے اوسلو گئے تو وہیں کے ہو کے رہ گئے۔ اُس وقت ان کی عمر 26 برس تھی۔اس عمر میں نوجوانوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے کہ زیادہ سے زیادہ دولت جمع کریں ، پاکستان اور بیرون ملک جائیدادیں بنائیں اوراپنی نسلوں کی تقدیر بدل دیں۔ ملک منیر مگر مختلف آدمی نکلے۔ نو عمری میں ایک تصور نے ان کو زندگی کی نئی راہ عطا کی۔پوسٹ آفس میں نوکری شروع کی تو دوسرے پاکستانیوں کی طرح زیادہ پیسہ کمانے کے لیے اوور ٹائم لگانے لگے۔لیکن پہلے ہی دن سے طے کیا کہ اوور ٹائم سے حاصل ہونے والی آمدنی راہ خدا میں خرچ کریں گے۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا ،گھومنے پھرنے اور نائٹ کلبوں میں شامیں گزارنے والا وقت وہ اوور ٹائم کی نذر کرنے لگے۔ اور اس سے حاصل ہونے والی آمدن کو کسی فلاحی تنظیم کے لیے وقف کر دیتے۔ کچھ عرصے بعد شادی ہوئی تو بھی معمولات میں تبدیلی نہ ہوئی۔ بیوی بچوں کو دینے والے ٹائم میں وہ اضافی کام کرتے اور اوور ٹائم سے حاصل ہونے والے آمدنی خلق خدا کی فلاح کے لیے خرچ کر دیتے۔ 1989 میں انہوں نے فلاح کے لیے انفرادی طور پر کام کرنے والے چھوٹے چھوٹے گروپس کو جمع کیا اور ’’رحمہ اسلامک ریلیف فنڈ‘‘ کے نام سے ایک تنظیم کی بنیاد رکھ ڈالی۔ تبھی اس تنظیم نے باقاعدہ طور پر فنڈ ریزنگ کا آغاز کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ تنظیم کے قیام کے بعد بھی ملک منیر نے ذاتی حیثیت میں حصہ ڈالنے کے لیے اضافی نوکری کو ترک نہ کیا اور اپنے معمول کو جاری رکھا۔ آج ’’رحمہ اسلامک ریلیف فنڈ ‘‘ایک انٹرنیشنل آرگنازئزیشن کے طور پہ پانچ ممالک میں ریلیف کا کام کر رہی ہے اور آج بھی ملک منیر بستہ کاندھے پر ڈال کے اوورسیز پاکستانیوں سے پاکستان کے سیلاب متاثرین کے لیے چندہ جمع کر رہے ہیں ۔ رحمہ کی جانب سے جنوبی پنجاب میں سو خاندانوں کے لیے دو بیڈ ایک کچن اور ایک واش روم پر مشتمل سو گھروں کی تعمیر کا عمل شروع کیا گیا ہے۔اس کے لیے تنظیم کو کروڑوں روپوں کی ضرورت تھی۔ اسی سلسلے میں اوسلو میں ایک بڑی تقریب منعقد کی گئی جس میں اوورسیز پاکستانیوں نے دل کھول کے حصہ لیا۔ مجھے بھی بطور مہمان اس تقریب میں شرکت کا موقع ملا۔ میں اوورسیز پاکستانیوں کا جذبہ خدمت خلق دیکھ کر حیران رہ گیا۔ تقریب کے منتظمین ہدف کے قریب پہنچ گئے لیکن سو گھروں کی تعمیر کے لیے ابھی مزید رقم کی ضرورت ہے۔ ملک منیر کہتے ہیں انہیں اس سلسے میں گھر گھر جا کر بھی خیرات مانگنا پڑی تو وہ پیچھے نہیں ہٹیں گے اور اپنا ہدف مکمل کریں گے۔ جب میں ملک منیر سے ان کی زندگی کے بارے میں معلومات حاصل کر رہا تھا اور انہیں بتایا کہ میں اس پر کالم لکھنے کا ارادہ رکھتا ہوں تو انہوں نے درخواست کی کہ ان کا نام نہ لکھا جائے صرف پانچ ملکوں میں جاری رحمہ کے خدمت خلق منصوبہ جات کے بارے میں ہی تفصیل بیان کی جائے۔لیکن نام لکھنے اور شخصی تعریف میں حرج ہی کیا ہے، آخر اس سے دوسروں کو ترغیب بھی تو دی جا سکتی ہے۔ رحمہ اسلامک ریلیف فنڈ کے ساتھ کام کرنے والے دوسرے احباب بھی شاندار ہیں۔ خاص طور پر میں گجرات کے حسنین شاہ ، نعمان اور اعجاز کا ذکر ضرور کرنا چاہوں گا۔ حسنین شاہ تو صاحب ثروت ہیں ، عمر بھر محنت اور ایمانداری سے کاروبار کیا۔ اللہ نے خوب برکت ڈالی،اب ان کا کاروبار ان کے بچے دیکھتے ہیں اور خود کو انہوں نے فلاحی سرگرمیوں کے لیے وقف کر دیا ہے۔ پچھلے دنوں پاکستان میں زمین خرید کر خطیر سرمایہ پاکستان منتقل کرکے کاروبار شروع کرنے کا ارادہ کیا۔ نیت تھی کہ بچے ناروے میں کاروبار کر کے گھر چلائیں گے اور وہ پاکستان میں کاروبار سے حاصل ہونے والی پوری کی پوری آمدن پاکستانیوں کی فلاح کے منصوبوں میں لگائیںگے۔ زمین انہوں نے خرید لی مگر پچھلے چھ مہینے میں پاکستان کے حالات سے اتنے افسردہ ہیں کہ تمام منصوبہ ہی موخر کر دیا ہے۔دیکھیے اب حالات کیا کروٹ لیتے ہیں۔ نعمان اور اعجاز البتہ نوکری پیشہ ہیں اورنوکری سے جو ٹائم ملتا ہے اس میں سے کچھ نہ کچھ وقت کمیونٹی سینٹر اور فلاحی کاموں کو ضرور دیتے ہیں ۔ انہی میں حافظ آباد کا ایک نوجوان علی فراز بھی ہے،نہایت متحرک اور دیانتدار ۔ایسے کئی نوجوان ہیں جو مستقبل میں ملک منیر کے مشن کا بیڑا اپنے کاندھوں پر اٹھانے کے لیے ہر وقت تیار نظر آتے ہیں ۔ بیشک اوورسیز پاکستانیوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ جہاں ایک طرف وہ ہر وقت پاکستان کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنا چاہتے ہیں وہیں دوسری طرف وہ موجودہ حالات پر متفکر بھی دکھائی دیتے ہیں ۔بیرون ملک مقیم ہر پاکستانی پاکستان سے آنے والوں سے ایک ہی سوال کرتا دکھائی دیتا ہے کہ کیا بنے گا۔ حالات کب ٹھیک ہوں گے، پاکستان ڈیفالٹ تو نہیں کر جائے گا۔ الیکشن کب ہوں گے، حکومت کون بنائے گا۔وغیرہ وغیرہ۔حالات کی خرابی کے باعث بہت سے لوگوں نے پاکستان میں انویسٹمنٹ کے عمل کو روک رکھا ہے اور وہ بہتری کی خبر سننے کے انتظار میں رہتے ہیں ۔ اوسلو کے ٹرپ میں ہمارے ساتھ پروفیسر ڈاکٹر جاوید اقبال بھی تھے۔ درد سے بھرا ایک جملہ انہوں نے کہا، کہنے لگے ’’ایسا نہیں کہ پاکستان مغرب سے بہت پیچھے ہے، بلکہ پاکستان تو ان ملکوں کی دوڑ میں شامل ہی نہیں ہے‘‘۔ واقعی ان ملکوں میں جا کر احساس ہوتا ہے کہ ہم ایک سر زمین کو ایک اچھا نظام نہ دے سکے ، ہمارے پاکستانی اُس نظام کا حصہ بن کے وہاں کی ترقی میں بھرپور کردار ادا کر رہے ہیں ہم مگر ان کی صلاحیتوں کی قدر نہ کر سکے اور افسوس یہ ہے اب بھی ہم کہیں کھڑے ہوئے نہیں ہیں۔ اس کے باوجود ملک منیر اور ان جیسے کئی درد دل رکھنے والے پاکستانی ہر وقت اپنے ہم وطنوں کے غم بانٹنے کے لیے تیار رہتے ہیں ۔