صدا بادشاہی اللہ کی ہے، طاقت کے زعم میں کئی آئے کئی چل دیئے، کیا موجودہ حکمران اتحاد صدا قائم رہے گا؟ رہے بادشاہی اللہ کی! اگر اس بات کو کوئی حکمران پا لے تو شائد رعایا پر ظلم نہ ہو، اور خلق خدا کی خدمت اول و آخر فریضہ ٹھہرایا جائے مگر اقتدار کی چاہ ایسی شے ہے کہ بڑے بڑوں کو تکبر کا شکار کر ڈالا، تاریخ کے صفحات ایسے واقعات سے اٹے پڑے ہیں، کوئی سبق لینے کو تیار نہیں، اصلاح کی جستجو نہیں، آخرت یاد نہیں، لہذا نظریات کو فقط نعروں میں تبدیل کر کے خلقت کو گمراہ کرنے کے سوا کوئی ایجنڈا میدان میں موجود نہ رہا، عوام سیاست اور سیاستدانوں سے بیزار ہونے لگے، نظریات کا پرچار الگ اور اسکا ڈھونگ الگ بات ہے، ڈھونگ میں جذبات کی حقیقی آمیزش نہیں ہوتی، اک چنگاری ہوتی ہے اور وہ بھی گھسے پٹے روایتی رٹے رٹائے جملوں کی صورت میں۔ سو عوام ایسے نعروں کو 90 کے عشرے کے آخر میں یکسر مسترد کرنے لگے ہیں ایسی سرد مہری معاشرے کے وجود پر تے در تے نظر آنے لگی کہ بازار سیاست سنسان ہوگیا۔ رعایا کی محرومی کا فائدہ اٹھا کر کرائے پر مجمع اکٹھا کیا جانے لگا۔ سرمایہ دار مفادات کی غرض سے لیڈروں کے جلسوں میں اپنے ورکرز کو بھیجنے لگے لیکن اس سارے کھیل میں مادر وطن کا نوجوان طبقہ، پڑھا لکھا طبقہ، مڈل کلاس اور مزدور طبقہ سیاست سے بیزار ہوتا ہوتا اس مقام پر آن پہنچا جہاں انھیں معاملات سیاست بیکار لگنے لگے اور قوم کی سیاسی معاملات میں سرد مہری وطن عزیز کا بڑا المیہ بن گیا۔ لوگوں کا عام خیال ہوتا کہ ان کے ووٹ سے کوئی حکومت نہیں بنتی، سیاستدان اور وزراء عوام کے حق میں نہیں ہوتے اور محض قوم کو اپنی چکنی چوپڑی باتوں سے بیوقوف بناتے ہیں۔ چند فیصد کارکنوں اور جیالوں کے علاوہ قوم کا مجموعی ردعمل اس سے مختلف نہ تھا، پھر پرویز مشرف دور میں الیکڑانک میڈیا کی ریل پیل شروع ہوگئی، ٹاک شوز میں سیاستدان، ارکان اسمبلی اور وزرا کی کراس ٹاکس لوگوں کے دلوں کو شروع شروع میں لبھانے لگیں مگر یہ تمام کردار کھل کر لوگوں کے سامنے آنے لگے، اخبار نویسوں کی صورت میں جو خبریں عوام تک پہنچتی تھیں، وہ براہ راست قوم لائیو کوریج کی صورت میں دیکھنے لگے، سیاسی محاذ آرائیاں، لڑائی جھگڑے براہ راست عوام کے روبرو آنے لگے، عوام کا سیاسی معاملات پر ایک منفرد موقف قائم ہونے لگا، نیوز چینلز کی ریٹنگز انٹرٹینمنٹ چینلز سے زیادہ ہونے لگی، بیشتر ایسے موضوعات مثلا ہماری تاریخ اور تجزیہ نگاری کے بیشتر پہلو جو ہر کوئی مطالعہ کی صورت میں نہیں جان پاتا تھا، وہ ٹی سکرینز پر دیکھنے لگا، ملک میں سیاسی حمایت اور مخالفت کے رجحانات ہوٹلوں، کیفوں اور سیاسی ڈیروں سے گھروں، تعلیمی اداروں اور دیگر مقامات زندگی میں منتقل ہونے لگے لیکن زیر تعلیم یا پڑھے لکھے نوجوانوں میں یہ تمام اثرات اس شدت سے داخل نہ ہوسکے جس طرح دوسرے طبقے تک منتقل ہوئے۔ اس بیج 2011ء سے سوشل میڈیا کی جدت نے اپنے پنچے گاڑنے شروع کردئیے، ویسے تو مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فورمز 2005 ء کے بعد یا اس سے کچھ پہلے متعارف ہو چکے تھے مگر سہی معنوں میں جدت 2011ء میں آئی اور اس طرح جو عوام سیاسی معاملات میں دلچسپی لینے لگے تھے، عوام نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے خیالات کے اظہار کا سلسلہ شروع کردیا۔ معاشرے میں سیاسی پسند نہ پسند کے اظہار شروع ہوگئے مگر نوجوانوں، مڈل کلاس اور پڑھے لکھے طبقے کی اس ساری کہانی میں دلچسپی مستقبل کے سہانے خوابوں اور ترقی یافتہ دنیا کی مانند پاکستان کی ترقی کی جستجو کی صورت میں پیدا ہونی شروع ہوئی، تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کی باتیں ان کے دلوں میں سرائیت کرنے لگیں، جس پر روایت پسند سیاستدانوں نے زمین و آسمان ایک کردیا لیکن صرف دو سال بعد 2013 ء کے عام انتخابات میں اصل مقابلہ ن لیگ اور تحریک انصاف کے درمیان تھا جبکہ 2013ء کے بعد 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیاب ہوگئی، اب پاکستان جیسے پیچیدہ جمہوری ملک میں مڈل کلاس، نوجوان اور پڑھے لکھے طبقے کی سیاست اور سیاسی معاملات میں دلچسپی اور مداخلت بذات خود ایک بڑا مسئلہ بن گئی، اس کی سب سے بڑی وجہ ہے کہ یہ طبقات سیاسی مداخلت کے ذریعے حکومت سے اس ترقی کے خواہاں ہیں جو ترقی یافتہ ممالک میں ہے، انھیں کرپشن پر حساب چائیے، یہ سڑکوں پر اپنا حق مانگنے کیلئے احتجاج کا راستہ بھی اختیار کرنے لگے ہیں، انھیں کرپشن کے الزامات پر حکمرانوں سے حساب مانگنے کی عادت بھی پڑ چکی ہے، اوپر سے ان کی اکثریت عمران خان کی حامی ہے، جو روایت پسند سیاستدانوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے، یہ صورتحال پی ڈی ایم میں شامل تمام جماعتوں کو قابل قبول نہیں جس کا حل ان کی نظر میں صرف اور صرف عمران خان کو کارزارِ سیاست سے باہر کرنا ہے لیکن ایسا کرنے سے بھی انھیں کچھ حاصل نہیں ہوگا، ویسے بھی اس ضمن میں طاقت کے استعمال کے جس عمل کو اپنایا گیا، وہ معاشرے کی فکری سمعتوں حتی کہ آئینی و قانونی دائروں میں ظاہری و خاموش رد عمل کو تبدیل کر دے گا، مثال کے طور پر قابل مذمت واقعات کے حامل 9 مئی کے روز پر ہونا تو چاہئے تھا کہ ہر ممکن طریقوں سے اصل محرکات کی جانچ پڑتال ہوتی اور پھر ذمہ داران کیخلاف کاروائیوں کو عمل میں لایا جاتا لیکن حکومت نے موقع کو غنیمت جان کر سیاسی انتقام کی بھٹی کو جلا دیا ہے، روزانہ پی ٹی آئی کو خیر باد کہنے والوں کی کمی نہیں، گرفتاریاں رکنے کا نام نہیں لے رہیں، کیا صحافی کیا شہری؟ پی ٹی آئی کو چھوڑنے والوں کی آنکھیں، چہرے کے تاثرات اور جملے اک الگ ہی داستان بیان کرتے ہیں، تاہم سوال ہے کہ جس طبقے کو سیاسی معاملات میں مداخلت کی سزا دی جا رہی ہے، اس کا تحریک انصاف کو کوئی نقصان ہے یا بحیثیت مجموعی ملک و قوم کو؟ اس ایک سوال کے جواب میں حالیہ پوری پہیلی کا حل موجود ہے، عوام کیا چاہتے ہیں اور حکمران کیا چاہتے ہیں؟ ساری لڑائی اس بیچ ہے، اگر عوام ہار گئے تو کس کی ہار ہوگی؟ ہر شعبہ زندگی میں آخر اپنے آپ کو پیش کر کے عوام نے ہی شراکت دار بننا ہوتا ہے پھر سیاست میں کیوں نہیں؟