دل یہ بات کسی طرح بھی ماننے کو تیار نہیں کہ موجودہ صورتحال کا حقائق سے کوئی تعلق ہے یہ جانتے ہوئے بھی کہ ملک معاشی مسائل کی دلدل میں پھنستا جا رہا ہے کوئی اپنا رویہ بدلنے کیلئے تیار نہیں اداروں میں تصادم وتقسیم کی فضا پیدا کی جارہی ہے۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کو اپنی ذاتیات کی بھینٹ چڑھایا جا رہا ہے۔ موجودہ حکومت کی ٹیم نہ صرف'' تجربہ کار'' ہے بلکہ اسے تقریبا ملک کی اہم جماعتوں کا اعتماد حاصل ہے پھر اسٹیبلشمنٹ بھی اس کی مکمل پشت پناہی کر رہی ہے لیکن مسائل حل نہیں ہو رہے الجھے مسائل کی گتھی کو سلجھانے کا بڑا سادہ نسخہ انا کی قربانی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان بارے موجودہ حکومت( سابق اپوزیشن ) کی ہمیشہ یہ رائے ہوتی تھی کہ وہ کسی کو ساتھ چلانے کیلئے تیار نہیں لیکن اب موجودہ حکومت عمران خان کو ساتھ چلانے کیلئے تیار نہیں۔ ہماری لیڈر شپ کے قول و فعل میں تضاد نے نئی نسل کو سمندر میں ڈو بنے پر مجبور کردیا ہے آفرین ہے ہماری لیڈر شپ پرکہ پھر بھی کوئی اپنی انا کی قربانی د ینے کیلئے تیار نہیں۔ آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر قرض لینے کیلئے ہم ہر طرح کے جتن کر رہے ہیں آئی ایم ایف کی عائد کردہ ہر شرط پوری کردی گئی ہے اور بھی بہت کچھ کرنے کو تیار ہیں مستزاد یہ کہ ہم نے کوئی عالمی فورم نہیں چھوڑا جس کو آئی ایم ایف سے قرض لینے کیلئے کردار ادا کرنے کیلئے نہ کہا ہو اور بات اب سفراء تک پہنچ چکی ہے چند روز قبل وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اسلام آباد میں متعین امریکی و برطانیوی سفیر سے درخواست کی کہ وہ ملکی ڈوبتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے آئی ایم ایف کو ایک ارب ڈالر فنڈز ریلیز کرنے بارے سفارش کریں لیکن دونوں سفراء نے سفارتی آداب کا مکمل خیال رکھتے ہوئے واضح کردیا کہ وہ اس بارے کسی بھی قسم کا کوئی کردار ادا کرنے سے قاصر ہیں کیونکہ آئی ایم ایف ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے اور اپنی پالیسیز کے مطابق کام کرتا ہے آخری اطلاعات تک کسی طرف سے بھی کو ئی مثبت اشارہ نہیں دیا گیا۔ ہماری حکومت اپنی سر توڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے اس بارے وزیر اعظم شہباز شریف خوب محنت کر رہے ہیں ہو سکتا ہے کہ کسی جگہ'' مینگو ڈپلومیسی''کام آجائے لیکن وہاں بھی بات ابھی تک مسکراہٹوں کے تبادلے تک ہی بات محدود ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ اسحاق ڈار'' منجھے ہوئے معیشت دان'' ہیں لیکن اس بار ان کی پھرتیاں بھی کام نہیں آرہی، انہیں نہ صرف شریف خاندان کے دیرینہ رفیق کار ہونے کا اعزاز حاصل ہے بلکہ وہ اس خاندان کے قریبی رشتہ دار بھی ہیں بے پناہ اعتماد کی وجہ ان کا دامے درمے سخنے شریف خاندان کے کام آنا ہے انہیں نواز شریف و شہباز شریف کے انتہائی قریبی ساتھیوں میں شمار کیا جاتا ہے مریم نواز بھی اسحاق ڈار کی مہارت اور محنت کی معترف ہیں تاہم ان دنوں اسحاق ڈار خاصے پریشان دکھائی دے رہے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ کے سوال پر وہ سیخ پا ہو جاتے ہیں اور اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے پہلے بات صرف الفاظ تک محدود تھی لیکن اب نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ چکی ہے آخر وجہ کیا ہے؟ ان کی پریشانی سمجھ میں آنے والی حقیقت ہے۔آئی ایم ایف سے معاہدہ کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں چند روز باقی ہے اور بیل مونڈھے چڑھتی ہوئی دکھائی نہیں دے رہی ناکامی کی صورت میں وہی کچھ ہو گا جس کا اسحاق ڈار صاحب لند ن میں بیٹھ کر عندیہ دیا کرتے تھے کہ ملک خدانخواستہ ڈیفالٹ کرجائے گا۔ پاکستان آئی ایم ایف کا دسمبر 1958ء سے کلائنٹ ہے اور اس کی لون ریٹرن ہسٹری بڑی سائونڈ ہے پاکستان نے ہمیشہ آئی ایم ایف کا سارا قرض سود سمیت وقت پر ادا کیا ہے پاکستان اور آئی ایم ایف کی تاریخ میں پہلی بار پاکستان نے مسلم لیگ (ن) کے سابق دور حکومت معاہدہ کی خلاف ورزی کی، ستمبر 2013ء نواز شریف کے دور حکومت میں اسحاق ڈار نے وزیر خزانہ کی حیثیت سے آئی ایم ایف کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس میں 4ارب ڈالر سے زائد قرض کی سہولت حاصل کی گئی لیکن اس قرض کو معاہدہ کے مطابق ادا نہیں کیا گیا اسحاق ڈار2017ء نواز شریف حکومت کی برطرفی تک وزیر خزانہ رہے جبکہ 2018ء تک مسلم لیگ (ن) کی حکومت رہی لیکن آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے کا کسی کو کوئی خیال نہ آیا ۔اگست 2018ء میں عمران خان برسراقتدار آئے انہوں نے جولائی2019ء میں آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن عالمی مالیاتی ادارے کے ساتھ ان کے تعلقات میں بھی سرد مہری رہی۔ شہباز شریف دور حکومت کے آغاز سے ہی ملکی معیشت کو سہارا دینے کی ضرورت تھی وزیر خزانہ کی حیثیت سے مفتاح اسماعیل نے حقائق کا ادارک کرتے ہوئے ایسے اقدامات اٹھائے جو کہ آئی ایم ایف کے فریم ورک کے عین مطابق تھے لیکن ان کے اقدامات نے عوام کی چیخیں نکال دیں جس کی وجہ سے مفتاح اسماعیل کو وزارت خزانہ کا قلم دان چھوڑنا پڑا۔ اسحاق ڈار کی آمد سے قبل ان کے خوب چرچے ہوئے اور بالآخر وزارت خزانہ کا قلم دان ان کو سونپ دیا گیا لیکن وہ ملکی معیشت اورڈالر کو قابو کر نے میں ناکام رہے اوروہ اس ناکامی کو کسی صورت ماننے کو تیار نہیں ان کے بارے ایک ماہر معیشت کا تجزیہ ہے کہ اسحاق ڈار اپنے آپ کو معیشت کا گرو سمجھتے ہیں اور شریف خاندان کے اعتماد کی وجہ وہ کسی سے مشورہ لیتے ہیں اور نہ کسی کا مشورہ مانتے ہیں جس کا خمیازہ ملکی عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے۔ آج حکومت تمام سیاسی جماعتوں سے میثاق معیشت کی بات کی بات کرنا چاہتی ہے جبکہ صورتحال یہ کہ کیا حکمران اتحاد اور مسلم لیگ (ن) میں اپنے اندر بھی میثاق معیشت نام کی کوئی چیز نظر نہیں آرہی۔ ٭٭٭٭٭