ہمارے ایک دوست ع غ ہیں۔بہت کامیاب آدمی ہیں۔ان کے استاد شہر کے معروف حکیم ہوتے تھے مگر اب صرف کردار سازی پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔ع غ اپنے استاد کو قبلہ بزرگوار کہہ کر بلاتے ہیں۔ ان کی کرامات دیکھ کر ہمارے دوست نے ہم سے پوچھا کہ وہ قبلہ بزرگوار کے ساتھ کچھ اور لاحقہ بھی لگانے چاہتے ہیں تو ہم نے ازراہ محبت قبلہ کو کافی کہا۔وہ ناک بھوں چڑھانے لگے جیسے کہہ رہے ہوں بندر کیا جانے ادرک کا سواد۔چونکہ ہمیں ع غ سے دلی لگاؤ ہے تو بغیر کسی توقف کے عفی عنہ تجویز کیا۔ع غ بہت خوش ہوئے۔ع غ کا کہنا ہے کہ قبلہ بزرگوار کے نقش قدم پر چل کر ہی ساری نعمتیں ان کے قدموں میں ڈھیر ہو رہی ہیں۔ع غ بھی قبلہ بزرگوار کی طرح تعلیم سے کوسوں دور ہیں بلکہ وہ تعلیم کو وقت کا عین ضیاع سمجھتے ہیں۔ع غ قبلہ بزرگوار کی طرح درسی تعلیم کے کٹڑ مخالف ہیں۔اللہ ان کو اپنی مساعی جلیلہ میں کامیاب فرمائے۔آپ آمین ذرا اونچی آواز میں بھی کہہ سکتے ہیں۔ویسے بھی ع غ دعا سے زیادہ عمل کے قائل ہیں۔ان کی کردارسازی کی اہمیت کا عالم دیکھیے کہ آج تک کسی سکول، مدرسے یا یونیورسٹی نہیں گئے۔ان کا کہنا ہے کہ ان سکولوں مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں کردار سازی پر توجہ نہیں دی جاتی۔اسی وجہ سے انہوں نے کسی استاد کے آگے زانوئے تلمذ تہہ نہیں کیا۔وہ زانو کو تہہ نہ کرنے کے قائل ہیں۔ان کے ارشاد کے مطابق یہ اساتذہ تعلیم دیتے ہیں مگر کردار سازی کو چنداں اہمیت دینے کے قائل نہیں ہیں۔نوجوان نسل کی عجیب و حرکات کے ذمہ دار یہ استاد نہیں تو اور کون ہیں۔ان استادوں کا فرض تھا کہ وہ قوم کے نونہالوں کی ذہنی تربیت کرتے اور ان کی کردار سازی کی طرف توجہ دیتے۔ایسے لگتا ہے کہ وہ اس کام سے قطعی غافل ہیں۔یونیورسٹیوں میں تعلیم کا کوئی معیار ہی نہیں ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ یونیورسٹیاں نام کی یونیورسٹیاں ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ایسی نامعقول جگہوں کی طرف رخ کرنا وقت کا ضیاع ہے۔ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ توبہ کے دروازے ہمہ وقت کھلے ہیں۔اب بھی وقت ہے کہ قوم ان کی آواز پر لبیک کہے اور سکولوں، مدرسوں اور جامعات کو ہمیشہ کے لیے خیرباد کہہ دیں۔اس سلسلے میں وہ گھر سے کردار سازی کی اہمیت کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کی کامیابی میں ان کے استاد کا ایسا رول ہے جس کو ہر استاد کو اختیار کرنا چاہیے تاکہ یہ نوجوان نسل اپنے زورِ بازو پر آگے بڑھے۔وہ اپنے استاد کو سر وغیرہ نہیں کہتے بلکہ انہیں قبلہ بزرگوار کہہ کر بلاتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ ان کے قبلہ بزرگوار جامع الصفات شخصیت ہیں۔ان کی شخصیت میں تعلیم اور کردار سازی کی دونوں صفات جمع ہو گئی ہیں۔اگر ان کے ملفوظات کو ایک طرف بھی رکھ دیا جائے تو ان کی شخصیت ہی ایک پورا ادارہ ہے۔اصل میں وہ اپنے قبلہ بزرگوار کو ایک انجمن کا درجہ دیتے ہیں۔ہمارے ع غ صاحب صبح سویرے اٹھ کر قبلہ بزرگوار کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوتے ہیں اور تازہ ارشادات کے منتظر ہوتے ہیں۔عموماً قبلہ بزرگوار ناشتہ ایک سیاسی شخصیت کے ساتھ کرتے ہیں۔قبلہ بزرگوار کا خیال ہے کہ وہ سیاسی شخصیت اصل میں ایک فرشتہ ہیں اور صرف نقصِ امن کی خاطر خود کو پوشیدہ رکھے ہوئے ہیں کہ وہ اس عالمِ آب و گل کی پیداوار نہیں ہیں۔یہ قبلہ بزرگوار کی تعلیم کا پہلا نکتہ ہے کہ آج کل بھی انسانوں کے روپ میں فرشتے اس دنیا میں پھر رہے ہیں۔عمومًا وہ بڑی بڑی کوٹھیوں میں رہتے ہیں تا کہ وہ عام لوگوں کی آنکھوں سے اوجھل رہیں۔ویسے بھی فیض رسانی کے لیے سامنے آنا یا ظہور کرنا چنداں ضروری نہیں ہے۔قبلہ بزرگوار ناشتے کے لیے جاتے ہوئے ع غ صاحب کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں تا کہ وہ بھی زمانے کی رفتار اور تقاضوں کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکے۔وہ ع غ صاحب کو ایمان بالغیب پر یقین کا درس دیتے ہیں کہ دیکھو روزی کا فرشتہ ہمارے آس پاس ہی ہوتا ہے بس قناعت اور یقین کی دولت ہاتھ میں ہونی چاہیے۔ع غ کا کہنا ہے چونکہ قبلہ بزرگوار خاندانی حکیم ہیں لہذا ان کا ہاتھ ان لوگوں کی نبض پر ہوتا ہے جو معاشرے کی ترقی اور فلاح کے لیے ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں۔قبلہ پنجاب پولیس کی طرح اڑتی چڑیا کے پر گن لیتے ہیں اور جان لیتے ہیں کہ فلاح اصل میں وہ ہے جو ان کی فلاح ہو اور ترقی بھی وہ ہے جو ان کی ترقی ہو۔ع غ کا کہنا ہے کہ قبلہ بزرگوار پر جو لوگ الزام لگاتے ہیں وہ ان کی صفات سے آگاہ ہی نہیں ہیں۔ویسے تو قبلہ بزرگوار دنیا کو فانی سمجھتے ہیں اور اسے ایک بھٹیارن کی سرائے سے تشبیہ دیتے ہیں۔زندگی کو سانس لینے کی مشقت ہی جانتے ہیں۔لیکن جب تک سانس تب تک آس کے مطابق اس گئی گزری عمر میں بھی کسی سرکاری ادارے کی سربراہی قبول کرنا عار نہیں سمجھتے۔جب ہم نے اپنے دوست ع غ سے استفسار کیا کہ قبلہ بزگوار کوسمجھائیں کہ اب اللہ اللہ کریں اور ایسی سربراہی کے لیے کسی نوجوان امیدوار کو سامنے آنے دیں۔ تو کہنے لگے فکر نہ کرو وہ اپنے لیے نہیں اب میرے لیے کوشاں ہیں۔ہم نے عرض گزاری اے ع غ یہ کیا؟۔ کہنے لگے قبلہ بزرگوار کا کہنا ہے دنیا چار دن کی چاندنی ہے لہذا وہ چاہتے ہیں کہ اس سرکاری ادارے کی سربراہی نسل در نسل چلا کر رب کے حضور حاضر ہونا چاہتے ہیں۔اب کوئی دن جاتا ہے سربراہی کا قرعہ تمہارے دوست ع غ کے نام نکلنے والا ہے۔ہم نے کہا میاں ع غ یہ تو انصاف نہ ہوا۔خشمگیں آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور کہا کیا مطلب؟۔ہم نے کہا تھوک لیجیے اور غصہ تھوک دیجیے ہمارا کچھ حق بنتا ہے۔فورًا غصہ تھوکا کہنے لگے مگر تمہیں اپنا نام تبدیل کر کے ذرا ادبی کرنا پڑے گا، جیسے میرا ع غ ہے ہم نے کہا ہم کیا نام رکھیں؟وہ کہنے لگے تم ادبی نام ک گ رکھ لو کیسا رہے گا۔ہم آگے بڑھے تو ع غ کہنے لگے ک گ ہمیں ماتھے پہ بوسہ دو۔