اہل پاکستان اورپاکستان کے حکمران کشمیرکے حوالے سے اگرچہ ایک ہی موقف رکھتے ہیں لیکن دونوں سطحوں پر اپروچ یکسر الگ الگ ہے۔ پاکستان کے 22کروڑ عوام اسلامیان جموں وکشمیرکے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں اوراسلامیان کشمیرکو لگے ہرگھائوکادرد اپنے سینے میں محسوس کرتے ہیں ۔ گزشتہ 31 برسوں کے دوران یہ بات کھل کرسامنے آئی کہ پاکستان کا ہر حکمران’’کشمیرکاز ‘‘پرگومگوں کی کیفیت میں رہا ہے ۔ آج بھی ملک کی حکمران جماعت اور اپوزیشن کشمیرکاز پرکندھے سے کندھا ملا کرکھڑی نظر نہیںآتیں۔جو ملت اسلامیہ کشمیرکے لئے کسی بڑے صدمے سے کم نہیں۔ اس صورتحال سے ہرایک صاحب دانش سمجھتا ہے کہ 5 فروری کو یوم یکجہتی کشمیرمنانا ایک روایتی سلسلہ جاری رکھنے کے مترادف ہے۔جبکہ کشمیری نوجوانوں کامسلسل کٹ مرنااپنے بڑے بھائی پاکستان سے بہت کچھ تقاضا اور مطالبہ کررہا ہے ۔ جہاد کشمیرعروج پرتھا مجاہدین کے ہاتھوںروز قابض بھارتی فوجی جہنم واصل ہورہے تھے لیکن اسی دوران فوجی آمر مشرف نے کشمیرکاز پر پاکستان کی قومی پالیسی پرکروٹ بدلی اور25 نومبر2003ء میںکشمیرکو جبری طور پرتقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر مستقل طورپرآہنی باڑلگانے پر سہولت کاری فراہم کی۔ بھارت یہی چاہتا تھا تاکہ وہ دنیاکو باور کراسکے کہ پاکستان نے تقسیم کشمیرکو عملی طور پرقبول کرلیا۔ جب آپ متنازعہ اراضی پرجبری قابض کو یہ اجازت دیتے ہیں کہ وہ اپنے ہتھائے ہوئے حصے پر باڑ لگالے تو اس کامطلب ہوتا ہے کہ آپ خاموشی سے دستبرداری اختیارکررہے ہیں ۔ جبری طور پرنقسیم کرنے والی کنٹرول لائن پر بھارت کو باڑ لگانے کی اجازت دے کر25نومبر 2003ء کو باضابطہ طور پرمشرف نے بھارت کے ساتھ سیزفائر کے نفاذکا اعلان کیا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مشرف کے اس غیرحقیقت پسندانہ اقدام کے خلاف پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے کوئی آواز بلند نہ ہوسکی ۔ ملت اسلامیہ کشمیر کو یہ پیغام دیاگیاکہ ہم نے بھارت کے ساتھ ’’ ادھرتم ادھرہم ‘‘ ایسامعاہدہ کرلیا ہے ۔ مشرف کے سیز فائر اوربھارت کے ایل اوسی پرآہنی باڑلگانے سے ریاست کشمیر کے دو تقسیم خطوں کے درمیان عملی طورپرایک دیوار قائم ہو گئی اوراس دیوار کے بعد نہ صرف کشمیرکے دونوں خطوں سے مجاہدین کی نقل و حرکت کو روکا گیا بلکہ ان لوگوں کا راستہ بھی بند کیا گیا جو بھارتی مظالم سے تنگ آکر مہاجر ین کی حیثیت سے آزادکشمیرمیں داخل ہونا چاہتے تھے۔ کتنا بڑا المیہ ہے کہ دیوار برلن گرائی جاچکی تھی اور دوسری طرف دیوار کشمیرکھڑی کی جارہی تھی۔ مجاہدین کشمیر اس صورتحال کے نتیجے میں تنہائی اور مشکلات و مسائل کا شکار ہو رہے تھے ۔حیرت کی بات یہ تھی کہ حریت کانفرنس کے ایک حصے نے مشرف کی ہاں میں ہاں ملادی اوراس فارمولے کوتسلیم کرلیا۔سچ یہ ہے کہ مملکت خدادادکے حکمرانوںکی کشمیر پالیسیوں پر بے سمتی کا نتیجہ ہے کہ وہ لڑھکتے ہی چلے جارہے ہیں۔ کشمیری مجاہدین کی تقسم کشمیر میں نقل وحمل اور کشمیریوںکی تحریک آزادی کو در اندازی تسلیم کرچکے ہیں ۔ اسلامیان کشمیرکی رضامندی اوران کی عظیم قربانیوں کے علیٰ الرغم سری نگر مظفرآبادکے درمیان ہفتہ وار دوستی بس اورٹرک سروس کے ذریعے مونگ کی دال ،بادام ،سبز الائچی ،کیلا،کینو پیاز ،ٹماٹر اور لہسن کی تجارت کا سرکس لگایاگیا دوسری طرف بھارتی قابض فوج کے ہاتھوںکشمیریوں کا قتل عام جاری رہا بلکہ اس میں حددرجہ اضافہ ہوتا رہا۔اکتوبر2004ء کو مشرف نے مسئلہ کشمیر حل کرنے کے لیے اپنے چار نکاتی فارمولے کا اعلان کیا اورمسئلہ کشمیر پرمشرف کا چار نکاتی فارمولا پاکستان کی تاریخ میں کشمیر پالیسی پرایسا یوٹرن تھا جو ملت اسلامیہ کشمیر کے لیے کسی بہت بڑے صدمے سے کم نہیں تھا کیونکہ یہ کشمیر پرمسلمہ بین الاقوامی قراردادوں کو پس پشت ڈال کر پیش کیا گیا تھا۔ دوسری طرف کشمیری مسلمان کل کی طرح آج بھی’’ تیری جان میری جان پاکستان پاکستان‘‘کانعرہ مستانہ بلندکرتے ہوئے قابض اورسفاک بھارتی فوج سے اپنے سینوں پرگولیاں کھاکھاکرشہید ہو رہے ہیں۔ ان کا اس امر پر ایمان ہے کہ وہ اپنی آزادی کے خواب کو شرمندہ تعبیرکرنے کے لئے آخری دم تک بھارتی رام راج کے خلاف لڑیں گے ۔ایک طرف ملت اسلامیہ کاعزم آزادی سرچڑ کربول رہا ہے دوسری طرف بھارت کے استحصالی اور توسیع پسندانہ عزائم بھی لگاتارجاری ہیں۔لگ یہ رہاہے کہ بھارت وحشیانہ طاقت کے استعمال کے بل بوتے پرملت اسلامیہ کشمیر کی تحریک آزادی کو دبانے میں کبھی بھی کامیاب نہیں ہو گا۔کیونکہ بھارتی مظالم سے کشمیریوں کا جذبہ آزادی مزید تقویت پکڑ رہا ہے تاہم اسلامیان جموں و کشمیر کو سب سے زیادہ جوبات ستاتی ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں کشمیرکاز پریکسو کیوں نہیں۔گوکہ آج 5فروری کو سب جماعتیں کشمیری مسلمانوں کے ساتھ اظہاریکجہتی کررہی ہیں۔ مگرکشمیرپر وہ خود یکجا نہیں۔وہ ایک دوسرے پر فروختگی کشمیرکاالزام عائد کررہی ہیں۔ آج 5فروری یوم یکجہتی کشمیر ہے توکشمیرکاز کا تقاضاہے کہ کشمیر سے متعلق’’ مشرفی نظریات ‘‘کو ترک کر کے جامع،کامل اورہمہ گیر انداز میں کشمیر کیس کو آگے بڑھایاجائے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں کو اس کیس کی بنیاد بنا کر اس پر دنیا کا تعاون حاصل کرنے کی کوشش کی جائے ۔ پاکستان اپنی کشمیر پالیسی کا از سر نو جائزہ لے اور سفارتی محاذ پر کشمیریوں کو سر گرم ہونے کے مواقع پیدا کرے۔ گزشتہ 31 برسوں سے تحریک کشمیر کے ساتھ عملی وابستگی رکھنے والے ان کشمیریوں کو جو باصلاحیت اور امین ہیں انہیںسفارتی محاذ پربھیجا جائے۔ وہ جس انداز میں مسئلہ کشمیر کو پیش کریں گے پاکستان کے سفراء اس طرح اس مسئلے کو پیش نہیں کر سکتے۔ زبانی جمع وخرچ کے بجائے اپنے دیرینہ دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اسے کشمیرسے جبری قبضہ چھڑانے کی جہد مسلسل کی جائے۔ کشمیری ہمت اورسکت رکھتے ہیں کہ وہ قابض بھارتی فوج کو لوہے کے چنے چبوا سکیں مگر اس کے لئے جواز تراشنے کے بجائے ان کے ساتھ سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑاہونے اورانہیں حوصلہ بخشنے کی ضرورت ہے ۔