وزیر اعلٰی بلوچستان قدوس بزنجو کی اقتدار کی کشتی میں جن مسافروں کو لیکر چلنا ہے اس میں حکومت کے انتالیس اراکین کو بٹھانے کی گنجائش ہے جبکہ اپوزیشن کی کشتی میں چوبیس سے پچیس اراکین کی گنجائش موجود ہے اسطرح دو کشتیوں میں سوار ان مسافروں کی تعداد پینسٹھ کے لگ بھگ بنتی ہے قدوس بزنجو کے وزیر اعلٰی بننے سے قبل یہ پینسٹھ مسافر دو کشتیوں پر سوار تھے حکومتی کشتی کے ناخدا بی اے پی کے جام کمال تھے جبکہ اپوزیشن کی کشتی کے ناخدا جے یو آئی ف کے ملک سکندر ایڈوکیٹ تھے چند ماہ قبل حکومت کی کشتی کا کنٹرول جام کمال کے استعفیٰ کے بعد اب قدوس بزنجو نے سنبھال لیا ہے یاد رکھیں گرمیوں کے موسم میں سمندر میں کچھ ظغیانی ہوتی ہے لیکن سردیوں میں قدرے ٹہرائوں ہوتا ہے اس پانی کے ٹہرائو میں ہی انتقال اقتدار میں دونوں کشتیوں کے مسافروں کی تفریق تقریباً ختم ہوچکی ہے بلکہ یوں کہیں کہ دونوں کشتیوں کے مسافر اب ایک ہی کشتی میں سوار ہوچکے ہیں جام کمال کو اقتدار سے ہٹانے کیلئے پیش پیش رہنے والے قدوس بزنجو گروپ نے کامیابی سے جام کمال کو اقتدار سے ہٹا دیا جسکے بعد انہیں اطمینان تھا کہ اب وہ مزید ڈیڑھ سال وزارت اعلٰی کے منصب پر فائز رہینگے کیونکہ انہیں نہ صرف حکومتی اتحاد نے انتالیس ووٹ دیئے بلکہ اپوزیشن نے کوئی امیدوار کھڑانہ کرکے انہیں جو واک اوور دیا اس پر انہیں ایوان کا متفقہ قائد ایوان کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا لگتا ہے اسہی لئے وزیر اعلٰی بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو نے ایوان سے انتخاب کے بعد اعتماد کا ووٹ نہیں لیا اور ممکن ہے اسہی لئے اسوقت اپوزیشن بھی اقتدار کی کشتی کی سواری کے مزے لے رہی ہے جام حکومت کے اتحادیوں نے یا بی اے پی کے اراکین نے قدوس بزنجو کے انتخاب میں تو مدد کی لیکن اب موجودہ صورتحال میں اتحادی تو چھوڑیں بی اے پی کے اپنے وزراء مشیر اور پارلیمانی سیکریٹری حکومتی کشتی کے آخری کنارے پر بیٹھے ہوئے ہیں کشتی میں سوار یوں کی حد تعداد انتالیس سے چالیس کی مقرر ہے لیکن اپوزیشن کے ساتھ پینسٹھ اراکین کشتی پر سوار ہیں جسکے نتیجے میں ایک دھکم پیل کی صورتحال ہے ساڑھے تین سال سے اقتدار کی کشتی سے دور بیٹھی اپوزیشن جیسے ہی کشتی میں سوار ہوئی ہے اس نے کشتی کے کنٹرول کو ایسا سنبھالا ہے جیسے اب اسہی کشتی پر باقی سفر طے کرنا ہے ۔ کشتی کا کنٹرول قدوس بزنجو کے بعد بی اے پی کے گروپ آف سکس اور اپوزیشن بالخصوص بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے پاس ہے اسکے بعد دوسری اہمیت بی اے پی کے گروپ آف سکس کی ہے جبکہ تیسری ترجیح بی این پی عوامی کی ہے پاکستان تحریک انصاف اے این پی ایچ ڈی پی اور بی اے پی کا ایک دھڑا اس کشتی میں موجود ہے لیکن انہیں آگے آنا کا راستہ مل نہیں رہا یا دیا نہیں جارہا ہے جسکے نتیجے میں چند روز قبل بی اے پی کے اراکین کا ایک اہم مشاورتی اجلاس ہوا جس میں اس ساری صورتحال پر وزیر اعلٰی کی موجودگی میں کھل کر بات ہوئی اور کشتی میں تعداد سے زیادہ مسافروں کی موجودگی پر کشتی میں سفر کرنے کا ٹکٹ رکھنے والے مسافروں نے شدید احتجاج کیا جسکے نتیجے میں وزیر اعلٰی بلوچستان کو قدوس بزنجو کو یہ بھی بتایا گیا کہ اس مسئلے کو فوری حل کریں بصورت دیگر صورتحال بدل سکتی ہے اس اجلاس کے اگلے روز بی اے پی اور پاکستان تحریک انصاف کے وزراء کا ایک مشترکہ اجلاس اسوقت ہوا جب وزیر اعلٰی بلوچستان قدوس بزنجو گوادر کے دورے پر تھے اس اجلاس کے حوالے سے راقم کی معلومات کے مطابق وزیر اعلٰی بلوچستان قدوس بزنجو کی جانب سے حکومتی اراکین کے بجائے اپوزیشن اور بالخصوص بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کو زیادہ اہمیت دینے کے معاملے پر گفت و شنید ہوئی اس اجلاس کے بعد سینیئر صوبائی ظہور بلیدی نے اپنے ٹویٹر پر اس بات کا اظہار کیا کہ تبادلوں اور تقرریوں میں میرٹ کے ذریعے فیصلوں کی ضرورت ہے ایک اور ٹویٹ میں انہوں نے اپوزیشن کیساتھ کسی معاہدے سے لاعلمی کا اظہار کیا ثناء بلوچ اپوزیشن کے رکن ہیں اور وہ اسمبلی فلور پر دعویٰ کرچکے ہیں کہ جام حکومت کے خاتمے کیلئے اپوزیشن سے چوبیس نکاتی معاہدہ حکومتی جماعت نے کیا تھا اب اس معاہدے پر عملدرآمد ہونا چاہیے ظہور بلیدی ضرور لاعلمی کا اظہار کریں لیکن ساجد ترین کی پراسیکیوٹر جنرل تقرری سے یہ گمان ہوتا ہے کہ کچھ تو ہے کہ حکومت اپوزیشن کی ایک جماعت کی تجاویز پر تبادلے اور تقرریاں کررہی ہے حکومتی جماعت کے اجلاس میں وزیر اعلٰی کو چیزوں کو ٹھیک کرنے کیلئے ایک ماہ کا وقت دیدیا گیا تھا لیکن اس اجلاس کے چند روز بعد ہی وزیر اعلٰی بلوچستان نے تاحال ایسی کوئی پیش رفت نہیں کی جسے دیکھ کر لگتا ہو کہ انہوں نے اس اجلاس کو کوئی اہمیت بھی دی ہے اور نہ دینے کی وجہ اپوزیشن کے چوبیس اراکین کی حمایت اور گروپ آف سکس کا اپنے قریب رہناہوسکتا ہے جسکی وجہ سے انہیں لگتا ہے کہ اعتماد کے ووٹ کا مطالبہ جب کبھی ہوگا تب دیکھیں گے اور اپوزیشن کے چوبیس اراکین بمعہ گروپ آف سکس اور بی این پی عوامی کے ووٹ ملا کر تینتیس پورے ہوجائینگے اس وقت تک اقتدار کے ایوان میں موجود رہ کر وہ کسر نکالی جائے جو ساڑھے تین سال سے ذہن میں تھی اس کشتی میں اضافی مسافروں کیساتھ سردیوں میں سفر مشکل نہیں لیکن گرمیوں کے آغاز اور بجٹ کی تیاریوں کے شروع ہوتے ہی سمندر میں ایک ہیجانی کیفیت ہوگی اسوقت یا تو اضافی مسافروں کو کشتی سے اتارنا پڑیگا یا پھر کشتی کے ناخدا کو خود اترنا پڑیگا ۔آئندہ چند روز میں اسلام آباد میں ایک ملاقات ہونے کا امکان ہے جبکہ انہی دنوں میں بی اے پی کے انٹرا پارٹی انتخابات اس کشتی کے سفر اور مسافروں کی تعداد کا تعین کسی حد تک کردینگے اور اسہی میں اندازہ ہوجائیگا کہ اس کشتی کا باقی ڈیڑھ سال کا سفر زائد مسافروں کیساتھ ممکن ہے یا نہیں یا پھر کشتی کیلئے نئے ناخدا کی تلاش شروع ہوچکی ہے ؟؟؟؟