8 اکتوبر پاکستانی تاریخ کا ایک ایسا افسوسناک دن ہے جس سے تقریبا ہر پاکستانی متاثر ہوا کوئی اپنے پیاروں سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا اور کسی کا کچھ باقی نہ رہا تھا کوئی بے یارو مدد گار اور تنہا ہو کر رہ گیا تھا اور کوئی اپنے حواس میں نہ رہا وہ ایک لمحہ تھا جب ہر طرف قیامت صغریٰ کا سماں تھا جس نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا اس کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال کسی کے قابو میں نہ تھی لوگ بے بس تھے کسی کو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا آج 8 اکتوبر2005ء 23سال بیت گئے لیکن کیا ہم نے وقت سے سبق سیکھا ؟ اس کا جواب شاید ہمارے پاس اثبات میں نہیںجس کی وجہ سے آج ہم ہر شعبہ میں تنزلی کا شکار ہیں۔ لارڈچسٹرفیلڈ 1694 ء میں لندن میں پیدا ہوا اور 1773 ء میں لندن میں ہی اس کی وفات ہوئی اس نے اپنے لڑکے فلپ اسٹین ہوپ کے نام بہت سے خطوط لکھے ان خطوط میں زندگی کی کامیابی کے راز بتائے ان خطوط کو بعد میں کتابی شکل میں شائع کیا گیا ان کی خطوط میں سے ایک خط میں لارڈ چسٹر فیلڈ نے اپنے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے لکھتا ہے'' دیکھو اپنے منٹ ضائع نہ کرنا کیونکہ منٹ، منٹ کے ملنے سے گھنٹہ بنتا ہے جس آدمی نے جز کا خیال کیا گویا اس نے کل کا خیال کیا جز ہی اکٹھا ہو کر کل بن جاتا ہے ۔ لارڈ چسٹر کی بات چھوٹی ہے مگر اس میں زندگی کی کامیابی کا راز پوشیدہ ہے ، تیسری دنیا میں وقت کی قدر نہیں کی جاتی جس کا نتیجہ پسماندگی اور ناخواندگی میں ظاہر ہوتا ہے ۔ بیشتر لوگوں کا حال یہ ہے کہ وہ زیادہ کی فکر میں تھوڑا بھو ل جاتے ہیں وہ اپنے زہن کو زیادہ کی طرف اتنا متوجہ کرلیتے ہیں کہ تھوڑے کی طرف سے ان کی نگاہیں نہیں ہوتی اور آخر کار نتیجہ انہیں صفر کی صورت میں ملتا ہے۔ کچھ ملنا کچھ بھی نہ ملنے سے بہتر ہوتا ہے۔ وقت اللہ تعالی کی سب سے بڑی نعمت ہے اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ کرنا عین عبادت ہے۔ لمحوں کی قدر کرکے ہم ماہ و سال کے مالک بن جاتے ہیں اگر ہم نے لمحات کو ضائع کردیا پھر ہم نے ماہ و سال کو یقینی طور پر ضائعدیا اگر ہم روزانہ اپنے ایک گھنٹہ کے صرف پانچ منٹ ضائع کر دئییپھر گویا ہم نے روزانہ دو گھنٹے ضائع کردئیے مہینہ میں 60 اور سال میں760گھنٹے ضائع کردئیے۔ زندگی میں ہر آدمی اپنے وقت کا بڑا حصہ ضائع کردیتا ہے لیکن گھنٹے پانچ منٹ ہم نے اپنے مصیبت زدہ بھائیوں کی بہتری کیلئے نہیں دئیے کہ اس سے کیا فرق پڑیگا۔ ایک ضرب المثل ہے کہ وقت آپ کا سب سے بڑا سرمایہ ہے ،ہر بڑی کامیابی چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کا مجموعہ ہوتیہے چھوٹی کامیابی پر راضی ہوجائیے بڑی کامیابی آپ کا مقدر بن جائے گی۔ چند روز قبل شائع ہونے والی ایک تحقیقی رپورٹ میں پاکستان بارے حیران کن انکشافات کئے گئے ہیں جوکہ پریشان کن بھی ہیں ایک طرف مہنگائی کی وجہ سے لوگ فاقوں پر مجبور ہیں اور دوسری طرف ہمارا ملک دنیا بھر میں سب سے زیادہ خوراک ضائع کرنے والے ممالک میں شامل گیا ہے۔ تحقیقی رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال 26 ،27 فیصد تیار شدہ خوراک ضائع کر دیتا ہے جس کی مالیت 4ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں خوراک کے ضائع ہونے کی شرح 17فیصد ہے جبکہ ہمارے ہاں یہ شرح دیگر ممالک سے 10 فیصد زائد ہے ایسی صورتحال میں کوئی کیونکر ہماری امداد کرے اور کیونکر ہمیں ڈیفالٹ ہونے سے بچائے۔ رپورٹس کے مطابق یہ خوراک شادی بیاہ اور دیگر تقریبات میں ضائع ہوتی ہے اس جانب ہماری کسی حکومت نے کوئی توجہ دی اور نہ اسے روکنے کیلئے کوئی اقدامات کئے گئے۔ ہم ایک ارب ڈالر کی امداد لینے کیلئے ہر جگہ گھٹنے ٹیک رہے تھے لیکن ہم نے اپنے ملک میں ضائع ہونے والی 4 ارب ڈالر کی خوراک کو بچانے کیلئے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔ خیرات دینے والے ممالک میں پاکستان کا شمار دنیا کے پہلے50ممالک میں ہوتا تھا لیکن اب پاکستان اس کار خیر میں بھی مسلسل تنزلی کا شکار ہے اس کی پوزیشن108 ویں ہو چکی ہے دیگر دوست ممالک میں تعمیر و ترقی کی شرح مسلسل بڑھ رہی جبکہ پاکستان یہ شرح مسلسل کم ہو رہی ہے۔ ترکی ، ملائشیا ، انڈونیشیا حتی کہ افغانستان بارے بھی عالمی ادارے مثبت اشاریہ دے رہے ہیں لیکن پاکستان بارے خیر کی کوئی خبر سنائی نہیں دے رہی۔ ترکی اور ملائشیا کی فی کس آمدن میں مسلسل اضافہ دیکھا جا سکتاہے ،افغان کرنسی مضبوط ہورہی ہے جس کی گواہی عالمی ادارے دے رہے ہیں ۔ بنگلہ دیش نے اس سال ریکارڈ برآمدات کرکے عالمی منڈی میں اپنا ایک اعتماد بنایا ہے۔ انڈونیشیا خیرات کرنے والے ممالک میں ٹاپ ٹن میں تھا اس سال انڈونیشیا نے اس کار خیر میں دنیا بھر میں ٹاپ کیا ہے۔ انڈونیشیا آبادی کے اعتبار سے مسلم دنیا میں ٹاپ پر نہیں بلکہ خیرات کرنے والے ممالک میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بننے کا اعزاز اپنے نام کر چکا ہے۔ انڈونیشیا بارے مشہور ہے کہ یہاں کوئی بھکاری دکھائی نہیں دیتا جو کہ ہمارے لئے لمحہ فکریہ ہے اگر انڈونیشیا ، ملائشیا ، بنگلہ دیش، افغانستان اور ترکی بہتر ہوسکتے ہیں پاکستان کیوں نہیں؟ کیا ہم چھوٹے چھوٹے اقدامات سے بھی بڑے نتائج حاصل نہیں کرسکتے؟ ہم ہرسال ضائع ہونے والی 4ارب ڈالر کی تیار شدہ خوراک کو ضائع ہونے سے محفوظ بنا سکتے ہیں ۔ ہم ملکی معیشت کو کھوکھلا کرنے والی اربوں ڈالر کی اسمگلنگ کے آگے کوئی بند باندھ سکتے، ہم ملکی پالیسیز کی وجہ سے بیرون ملک منتقل ہونے والی صنعت کو روک سکتے ہیں۔ ہمارے ہاں وہ اقدامات کئے جاتے ہیں جس کا فائدہ صرف اشرافیہ کو ہوتا ہے تاہم ہم عالمی اداروں سے بھیک مانگنے اور پھر ان اداروں کے احکامات کی تکمیل میں اپنے ہی عوام پر بجلی ، پٹرول اور مہنگائی کے بم گرانے کیلئے تیار ہیںآخر کیوں؟ یہ وقت ہے 8اکتوبر جیسے سانحہ سے سبق حاصل کیا جائے اگر جاپان ہرو شیما ناگا ساکی کی تباہی کے بعد چند سال میں بھی ترقی کر سکتا ہے۔ پاکستان قدرتی سانحہ کی تباہی کے متعدد سال گزر جانے کے بعد ترقی کیوںنہیں کر سکتا ؟