دو دن بعد،پھر سفرِ سعاد ت درپیش ہوا،وزیر اعلیٰ پنجاب،جنہوں نے اسی سال کے اوائل،بمطابق 6 فروری2021ئ،کوٹ مٹھن شریف میں،حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے مزارپرحاضری دیتے ہوئے،آپؒکی خانقاہ اور دربار شریف کی توسیع و تزئین کا اعلان کیا تھا، کے عملی نفوذ کا خوشگوار مرحلہ اور پراجیکٹ کا افتتاح، گزشتہ اتوار کے روز فرما دیا،جسمیں دربار شریف کی توسیع،ریسٹوریشن اور کنزرویشن شامل ہیں ، دربارشریف کا موجودہ احاطہ،جو تین کنال سترہ مرلے پہ محیط ہے،کو وسعت د یکر،اسمیں7 کنال کا مزید ایریا شامل کردیا گیا،جو کہ زائرین کیلیے یقینا آسودگی اور سہولت کا باعث ہوگا۔کوٹ مٹھن شریف کے کوریجگان،خواجگان،زعمأ اور عمائدین اس فرحت آفریں موقع پر تشکر و امتنان کے جذبوں سے لبریز اور سر شار تھے ۔ اس نور آفریں اور یاد گار حاضری کے ساتھ ، اُوچ شریف بھی طلبی تھی،جہاں مورثِ اعلیٰ سادات بخاریہ ، دربار ِ جلالیہ مدینتہُ السادات کے سجادہ نشین مخدوم سیّد زمرد حسین نقوی البخاری الحسینی کے لختِ جگر اور ولی عہد سیّد حسن زمرد بخاری کی دعوت ِ ولیمہ کا اہتمام مقبرہ بی بی جیوندی سے متصل وسیع احاطے میں تھا،ایسے سندیسے ہَوا کے دوش پہ بھی آئیں،تو دل کی گہرائیوں میں اُترجائیں،کہ ہمارا اور اُنکا خمیر ایک ہی سعادت آفریں مٹی سے گوندھا اور اُ ٹھا ہے۔میرا نسب تئیس(23)واسطوں سے میر حیدر سرخ پوش سیّد جلال الدین بخاریؒ تک پہنچتا ہے،جو برصغیر میں ساداتِ بخاری کے سرخیل اور امام ہیں۔ سبحان اللہ سیّد وں کا کیا پُرنور اجتماع تھا،اور پھر سادات ِ بخاری کے قدیم محلہ بخاری سے متصل’’مقبرہ بی بی جیوندی‘‘کی عظمت اور شکوہ کے نقوش،صدیاں گزرجانے کے باوجود اپنی تازگی اور صناعی سے انسان کو مبہوت کردیتے ہیں،یہ مزار ملتانی کاشی گری کے نفیس اور پائیدار کام کا عجیب و غریب شاہکار ہے ۔مقبرہ ہشت پہلو ہے اور ہر پہلو پر ایک مخروطی مینار تعمیر شدہ ہے ۔پختہ اینٹوں سے تعمیر شدہ اس مقبرے کا طرز ِ تعمیر (سوائے گنبد کے ) ملتان کی معروف ہستی اور سہروردی سلسلے کی عظیم شخصیت حضرت شاہ رکنِ عالم ؒکے مزار سے مشا بہ ہے اوراس مشابہت کے بہت سے حوالوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اوچ شریف کے سادات،سہروردی نسبتوں اور امانتوںکے ہمیشہ سے امین رہے،یہ عقیدت وارادت محض لفظوں تک ہی محدود نہ تھی بلکہ مخدوم المخادیم ایک مرتبہ جس مکان کی دہلیز سے قدم باہر لانے کو تھے،اُ س کے آخری زینے اور زمین کے درمیان فاصلہ زیادہ پاتے ہوئے ، مخدوم جہانیاں جہانگشت نے اپنا سینہ زمین پر،انکے قدموں کیلیے پیش کردیا کہ مبادالشیخ رکنِ عالم کو دِقّت ہو۔وارفتگی کے یہ انداز اُس مخدومِ جہانیاں کے تھے ،فیروز شاہ تغلق جیسے بادشاہ جس کی نیاز مندی کا دم بھرتے ۔ حضرت بی بی جیوندی کا مقبرہ فیروزی ، سفید اور نیلے رنگوں کی کاشی کاری سے مزیّن، جو ، جابہ جا، گُل کاری اور جیومیٹری سے آراستہ ہے ۔اس خطّے کی قدامت اور پسماندگی بھی بجا،لیکن میں تو ان قدیم گزر گاہوں کی مٹی سے مشام جاں کو معطر و معنبرکرنے میں ہی مگن رہا،مجھے وہاں کے درو دیوار اور کوچہ و بازار کی شکستگی سے کوئی سروکار محسوس نہ ہو ا،اور ان راستوں پہ کافی دور تک پیدل ہی چلا اور چلتا گیا،میرے محکمے کے مقامی افسر ان میری طرزِ ادا اور کوچہ گردی کو شاید اپنی شان کے منافی گردانتے رہے ہوں،مگر میں کوئی ایسے افسر انہ طمطراق کیلیے،یہاں تھوڑی حاضر ہوتا ہوں،انہیں کیا معلوم کہ اس کوچے کے ذرّوں میں کیسی کیسی عظمتیں،رفعتیں اور خوشبو ئیں رچی بسی ہیں ۔عزیزم سیّد محمد علی حیدر کی اوچ شریف حاضری بھی مقصود تھی،کہ وہ اپنے اجداد اور انساب کے مقام و معارف سے آگاہ ہو ۔حضرت سیّد جلال الدین سرخ پوش بخاریؒ کے مزارِ اقدس پر حاضری دی،حضرت مخدوم جہانیاں جہانگشتؒ،حضرت سیّد جلال الدین سرخؒ کے پوتے اور انتہائی جلیل القدر ہستی... مدینہ منورہ حاضر ہوتے تو شرفائے مدینہ کا ہجوم ہوجاتا،کہ ایک ایسا سیّد حاضری کیلئے آیا ہے،کہ جسکے سلام کا جواب روضئہ اطہر سے آتا ہے ، حاضری کا انداز جدا گانہ ہوتا، آپؒ سلام عرض کرتے ؛ اَلسّلامُ عَلَیْکَ یَا رَسُوْلَ اللّٰہ وَ اَ بِی وجَدِّی ( یارسول اللہ ، میرے جَدِّ اعلیٰ، آپ پر سلا م ہو )،روضہ اقدس سے آواز آ تی : وَعَلَیْکَ السَّلام یَا وَلَدِ ی قُرَّۃُ عَیْنِیْ وَ سِراج کُلّ اُمَّتِی، اَنْتَ مِنِّی وَمِنْ اَھْلِ بَیْتِی۔سلطان محمد تغلق نے شیخ الاسلام کا منصب اور سیو ستان کی سند پیش کی،در خورِ اعتنا نہ جانا اور سب کچھ ترک کر کے حجازِ مقدس روانہ ہوگئے، آپؒ کے مزارِ اقدس سے متصل مولا علی المرتضیٰؓ کے قدمِ مبارک کی زیارت گاہ ہے،اسکے ساتھ وہ کنواں،جو حضرت بابا فرید الدین مسعود گنج شکرؒ کے چلۂ معکوس کے حوالے سے معروف ہے ، اور مسجد ِحاجات جہاں حضرت المخدوم اکثر محوِ عبادت رہتے، اس کو’’ مسجد الحجاج‘‘بھی کہا اور لکھا گیا ہے،کہ حجاج کرام،یہاں پر قیام کرتے تھے،اسی مسجد میں حضرت بابا فرید الدین ؒ اور حضرت نصیر الدینؒ چراغ دہلی بھی معتکف رہے اوران اصحابِ طریقت و معرفت کی ایک یاد گار بھی یہاںموجود ہے ۔آپؒ کے تین صاحبزادے تھے ، ان میں میرا شجرہ نسب ، آپؒ کے بڑے صاحبزادے سیّد ناصر الدین محمود سے متصل ہوتا ہے ،جو کہ حضرت سیّد مخدوم جہانیاں جہانگشتؒ کے پہلو میں آسودہ ہیں۔حضرت مخدوم جہانیاںؒ کا مزار حضرت جلال سرخ پوشؒ کے مزار سے تھوڑا فاصلے پر ،اوچ شریف کے اندر واقع ہے۔ ان راہوں اور راہداریوں کی راہ نوردی،میرے لیے ہمیشہ ہی کیف آفریں رہی ۔ خراسان، اس وقت جو کہ ایران کا ایک صوبہ ہے ، اوائل اسلام میں اس کی سرحدیں کافی وسیع تھیں ، وسط ایشیا کے کافی علاقے، جس میں بخارا اور ترکستان وغیرہ بطور خاص شامل ہیں ، خراسان ہی کا حصّہ تھے،بخارا ابتداہی سے ، علم و عرفان کا مرکز تھا اور امام اسمعیل بخاری ؒ کی’’الجامع الصحیح‘‘دوسری صدی ہجری میں،اس خطے میں مدون ہوئی،اعلیٰ تعلیم کیلیے،بر صغیر سے بھی علمی قافلے،یہاں پہنچتے،بغداد کی علمی مرکزیت تو پانچویں صدی ہجری میں معتبر ہوئی،لیکن بخارا تو اس سے بھی پہلے، یعنی تیسری صدی میں معروف تھا،حضرت بہا ء الدین زکریا ملتانی ؒ تحصیل علم کیلیے بخارا آئے اور پھر یہی پر ان کی ملاقات سیّد جلال الدین سرخ پوشؒ کے خاندا ن سے ہوئی،اور باہمی مراسم استوار ہوئے،اسی سبب حضرت سرخ پوشؒ،ملتان میں حضرت بہاء الدین زکریاؒ کے ہاں طویل عرصہ مقیم رہے،حجازِ مقدس سے مہاجرت پر ساداتِ حسینی نے سامرہ،بخارا اور مشہد کو سکونت کیلیے پسند فرمایا،راقم تین سال قبل جب عراق گیا ، اور بطور خاص امام علی نقی الہادی ؒکے مرازِ اقدس پر سامرہ میں حاضر ہوا،اگرچہ سیکیورٹی کے سبب صورتحال مشکل تھی،لیکن یہ اہتمام بہر طور ممکن ہوا، امام علی نقیؒ سے میراسلسلۂ نسب 32 واسطوں سے متصل ہوتا ہے، اور جتنے بھی بخاری سادات ہیں، بنیادی طور پر نقوی ہی ہیں۔ اس خطّے میں نقوی دو ذیلی شاخوں میں منقسم ہیں، ایک بخاری جن کے مورثِ علیٰ سیّد جلال الدین سرخ بخاری ہیں جبکہ دوسرے بھاکری ، جن کا برصغیر میں قیام بخاریوں سے بھی قدیم ہے،اور ان کے جدِّ اعلیٰ سیّد سلطان صدر الدین محمدالخطیب ہیں،جو سادات کے شجروں پر مہر تصدیق ثبت فرماتے۔ سیّد صدر الدین الخطیبؒ کے دادا سیّد محمد شجاع، سہروردیؒ سلسلے کے بانی حضرت الشیخ شہاب الدین سہروردیؒ کے خلیفہ اور داماد تھے،ان کے صاحبزادے سیّد محمد محمود مکیؒ مشہد سے سکھر اور روہڑی کے نواح میں بھکر نامی قدیم شہر میں آباد ہوئے،اور’’الباکھری‘‘کی و جہ تسمیہ ٹھہرے۔