وہ طالبان کو گھیر گھار کر مزاکرات کی میز پہ لانا چاہتے ہیں۔ہر بار یہ تاثر دیتے ہیں کہ وہ اب آئے کہ تب آئے اور کوئی دن جاتا ہے کہ ہمارے پڑوس میں امن کی فاختائیں چونچ میں شاخ زیتون لئے بلا خوف و خطر اڑتی پھریں گی۔راوی چین کی نیند سوئے گا ، مسکراتا ہوا بیدار ہوگا اور ہر طرف امن و آتشی دیکھ کر پھر سوجائے گا ۔مرغان خوش آواز ایک شاخ سے دوسری شاخ پہ جھولتے اور سرمدی نغمے گاتے پھریں گے ۔ سارا افغانستان فردوس بریں میں تبدیل ہوجائے گا کابل جس کا دارالحکومت ہوگا۔لیکن برا ہو طالبان کا جو ایسے حسین خوابوں کو ایک حملے میں چکنا چور کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور مزاکرات کی میز خالی رہ جاتی ہے۔ یہ وہ تاثر ہے جو ساری دنیا کو غیر ملکی میڈیا اور افغان حکومت کے توسط سے دیا جاتا ہے۔طالبان امن کی راہ میں رکاوٹ ہیں ورنہ امریکہ تو وہاں چودھراہٹ کے لئے موجود ہے کہ تنہائی میں اشرف غنی کا دل گھبراتا ہے۔ادھر طالبان کا ایک ہی موقف ہے۔افغانستان سے نکلو پھر بات کرو۔ نہ نو من تیل ہے نہ رادھا کو ناچنے کا موقع مل رہا ہے۔ بیچاری بیٹھے بیٹھے نرت بھاو دکھا کر رہ جاتی ہے۔ موسم بہار کا آغاز ہوتے ہی افغانستان میں طالبان کی بہار کارروائیاں شروع ہوجاتی ہیں۔ یہ کارروائیاں 2006 ء سے باقاعدگی سے جاری ہیں۔امسال اپریل کے آغاز میں ہی افغانستان میں طالبا ن کے مشہور بہار حملوں کا آغاز ہوگیا تھا۔۔سال کے یہ مہینے ہمیشہ ہی طالبان کے لیے موافق ہوتے ہیں۔ امریکہ کی افغانستان میں طویل موجودگی اور اس کے افغان فوج کے ساتھ مشترکہ آپریشنوں نے اسے بھی یہ عسکری گر سکھا دیئے ہیں۔اب اس کے لئے یہ وقت اتنا کٹھن نہیں ہوتا جتنا شروع کے چند سالوں میں ہوا کرتا تھا۔پھر بھی موسم بہار آتے ہی وہ ہر سال طالبان کو روکنے میں ناکام رہتے ہیں۔اس سال طالبان کے یہ سالانہ روایتی حملے 25 اپریل کو شروع ہوئے اور ہوتے ہی چلے گئے۔صرف پہلے تین دن یہ حملے مختلف مقامات پہ تین سو کی تعداد میں ہوئے۔شاید آپ کو اس میں مبالغہ نظر آئے لیکن افغان حکومت کے ذرائع کے مطابق ساتھ مئی تک ان حملوں کی تعداد چھبیس سو ہو چکی تھی جن میں سے سترہ سو ناکام بنادئے گئے۔یہ حملے اس وقت ہورہے ہیں جب افغانستان میں اکتوبر میں ہونے والے انتخابات کے لئے ووٹروں کی رجسٹریشن کا عمل جاری ہے۔اس کا مطلب صاف ظاہر ہے۔ طالبان کبھی انتخابات کے قائل نہیں تھے نہ وہ امریکی سائے میں ہونے والے انتخابات امن و سکون کے ساتھ ہونے دیں گے۔2009ء افغانستان انتخابات تو یاد ہونگے جو ملک بھر میں ایسے ہی حملوں اور جوابی کارروائیوں کے دوران ہوئے تھے اور ٹرن آوٹ انتہائی کم رہا تھا یعنی یہی کوئی تیس فیصد سے بھی کم جبکہ کچھ ضلعوں جیسے ہلمند اور قندھار میں یہ دس فیصد بھی نہ تھا۔رہی سہی کسر دھاندلی نے پوری کردی جو اتنے کم ٹرن آوٹ کا لازمی نتیجہ تھی۔ان ہی حالات میں 2010 ء کے انتخابات ہوئے ۔ طالبان کے حملے بھی جاری رہے اور دھاندلی بھی ۔ ان انتخابات کے متعلق افغانستان میں اقوام متحدہ کے خصوصی ترجمان کا کہنا تھا کہ یہ انتخابات افغانستان کے تمام مسائل کی ماں ثابت ہوئے ہیں اور یہ کہ یہ انتخابات روایتی مغربی جمہوریت کے انتخابات نہیں ہیں نہ اس کے معیار پہ پورے اتر سکتے ہیں۔یہ تو افغان انتخابات ہیں جن کی میکینکس ہی الگ ہے۔کاش ان کے بیان پہ پاکستانیوں نے بھی غور کرلیا ہوتا۔خیر یہ علیحدہ موضوع ہے۔فی الحال یہ بتانا مقصود ہے کہ افغانستان میں ایک بار پھر انتخابات کا ماحول بن رہا ہے اور طالبان فل فارم میں ہیں۔ایک اور بات قابل توجہ ہے کہ اس بار طالبان نے اپنی موسم گرما کی عسکری مہمات کو الخندق کا نام دیا ہے جو واضح طور پہ غزوہ خندق سے نسبت رکھتا ہے۔ اب جسے یہ نام پسند نہیں آرہا وہ بے شک اسے کچھ اور نام دے لے لیکن اس سے طالبان کی آئیڈیالوجی تبدیل ہوگی نہ وہ مزاکرات کی میز پہ آئیں گے ۔ گزشتہ سال اگست کے مہینے میں صدر ٹرمپ نے افغانستان اور پاکستان پالیسی کا اعلان کیا تھا۔اس کا مرکزی نکتہ صرف ایک تھا۔ ہر صورت میں افغانستان میں کامیابی۔ اور یہ کامیابی کیا تھی؟طالبان کا مکمل خاتمہ یا انہیں اس حد تک محدود و مجبور کردینا کہ وہ تنگ آکر مزاکرات کی میز پہ آجائیں اور ایک ذلت آمیز معاہدہ کرکے اس نظام کا حصہ بن جائیں۔آخر ماضی کے جنگجووں نے جو روس کے خلاف لڑے تھے ایسا ہی کیا تھا۔ وہ انتخابی عمل میں شریک ہوئے اور نمک کی کان میں نمک بن گئے۔ نام لینے کی ضرورت نہیں یہ جو آج امریکی پرچم کے سائے میں جمہوریت کے ترانے گا رہے ہیں کون لوگ ہیں سب کو علم ہے۔لے دے کر ایک طالبان رہ گئے ہیں جو قابو نہیں آرہے۔ان کا علاج بش سے لے کر ٹرمپ تک ایک ہی تجویز کیا گیا ہے۔ پہلے مارو پھر مزاکرات کی دعوت دو۔اس مقصد کے لئے امریکہ میں امریکی فوجیوں کی تعداد بڑھائی گئی۔پرائیویٹ عسکری جتھوں کو بھیجا گیا ان سے بھی صورتحال نہیں سنبھلی تو اب براہ راست اسرائیلی کمانڈوز طالبان سے مقابلے کے لیے بھیجے گئے۔ ان اسرائیلی کمانڈوز نے چار دن قبل ہلمند اور قندھار میں طالبان قیادت کی ایک میٹنگ پہ حملہ کرکے ستر سے زائد طالبان کمانڈر جاں بحق کئے۔ یہ صوبہ فرح میں وزارت داخلہ کی عمارت پہ طالبان کے کامیاب حملے کا جواب تھا۔ اس کامیاب حملے کے بعد ہی افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل نکلسن نے دعوی کیا کہ طالبان مزاکرات کے لئے تیار ہوگئے ہیں لیکن اگلے ہی روز طالبان ذرائع نے اس کی تردید کردی۔ایسا ہر بار ہوتا ہے اور یہ ایک معمول بن گیا ہے۔ جسے اسٹیٹس کو بھی کہا جاسکتا ہے جو افغانستان جیسے ملک کی روایتی صورتحال میں کبھی جارح طاقت کے حق میں نہیں گیا۔ چاہے اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا جائے یا درخت کاٹنے کے لئے کلہاڑی میں اسی درخت کا دستہ لگا لیا جائے۔ حالات اب تک طالبان کے حق میں ہیں۔ جب طالبان نے اپنے اس سال موسم بہار کارروائیوں کا نام الخندق رکھا تو اس پہ افغان علما کونسل کا مذمتی بیان جاری ہوا حالانکہ وہ اس سے پہلے 2013ء میں آپریشن خالد بن ولید کرچکے تھے ،2014 ء میں آپریشن خیبر، 2016ء میں آپریشن عمری اور2017ء میںآپریشن منصوری کامیابی سے پایہ تکمیل کو پہنچا چکے ہیں۔ افغان علما کا اعتراض یہ ہے کہ معصوم شہریوں کو قتل کرنے والے فسادیوں کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چاہیے کہ وہ مقدس غزوات اور ہستیوں کے نام پہ اپنی کارروائیوں کا نام رکھیں۔اب جبکہ اسرائیل بذات خود افغانستان میں موجود ہے تو علما کا موقف کیا ہوگا یہ ان کے سوچنے کا کام ہے۔ میں آپ کو یہ بتانا چاہتی ہوں کہ اسرائیلی کمانڈوز کی افغانستان میں موجودگی اور امریکہ اور افغان فورسز کے شانہ بشانہ کارروائیاں کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ اس بار بس اتنا ہوا ہے کہ میڈیا میں افغانستان میں اسرائیلی پرچم لہراتے ایک اسرائیلی کمانڈو کی تصویر مشتہر ہو گئی ہے۔ حقیقت حال یہ ہے کہ اسرائیل اور امریکہ کے درمیان دنیا میں ہر اس جگہ عسکری تعاون کا معاہدہ موجود ہے جہاں دونوں میں سے کسی ایک کو بھی اس کی ضرورت ہو۔ امریکہ 2005 ء سے افغانستان اور عراق میں استعمال ہونے والی مختلف کیلیبرکی گولیاں اسرائیل سے درآمد کرنے کا پابند ہے۔ان کی تعداد کتنی زیادہ ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ڈھائی لاکھ گولیاں فی نشانہ کے حساب سے درآمد کی جاتی ہیں۔امریکہ میں سب سے مضبوط لابی اسرائیلی لابی ہے جس کا نام امریکن اسرائیل پبلک افئیرز کمیٹی ہے۔ اس کا کام ہی امریکہ میں اسرائیل کے مفادات کا تحفظ اور اسرائیلی پالیسیوں کا نفاذ ہے۔صدارتی امیدواروں اور کانگریس ممبران کو فنڈنگ بھی یہی کرتی ہے۔اسی تنظیم یا لابی کا ایک پروگرا م ـمیدان جنگ میں امریکی فوجیوں کی زندگیوں کا تحفظ ہے اور یہ افغانستان، عراق، لیبیا، شام اور جہاں کہیں بھی امریکہ نے پنجے پھنسائے ہوئے ہیں،اسرائیل کو پابند کرتا ہے کہ وہ امریکی فوجیوں کا تحفظ کرے۔یہ پروجیکٹ امریکہ کو مقامی صورتحال کے مطابق تیکنیکی اور عسکری خدمات پیش کرتا ہے جس میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجی اسرائیل میں بنائی جاتی ہے اور جہاں امریکہ کو اسرائیل کی عسکری موجودگی کی ضرورت ہو وہاں اسرائیلی آرمی کا مخصوص دستہ سیرت میتکال حرکت میں آ جاتا ہے۔ حال ہی میں نوے اسرائیلی کمانڈوز کی افغانستان میں تعیناتی اسی پروگرام کا حصہ ہے۔ ممکن ہے آپ کو طالبان کی پالیسیوں سے اختلاف ہو۔ ان کی آئیڈیالوجی آپ کو پسند نہ ہو۔ آپ کی علاقائی، سیاسی اور تزویراتی مجبوریاں بھی ہوں ، لیکن اب طالبان کے مقابل امریکی ہی نہیں اسرائیلی بھی ہیں۔کیا میں اس فتوے کا انتظار کروں جس کی رو سے اسرائیل حق پہ ہو؟