پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں ٹریفک حادثات کی اہم وجہ اوورلوڈنگ ہے ،پاکستان میں قانون کی بالادستی کا بے اثر ہونا مسئلے کی سنگینی میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ شاہراہوں پر نکلتے ہی مسافروں اور سامان سے بھری گاڑیاں دعوت نظارہ دے رہی ہوتی ہیں، اس میں موٹر سائیکل سوار بھی اپنا کام تند خوہی سے سر انجام دیتے ہیں، یہ حضرات ضرورت سے زیادہ سامان اپنی موٹر سائیکل پر رکھ کر سڑکوں پر نکل آتے ہیں ، جس سے سڑک پر چلنے والی دوسری سواریوں کو انتہائی دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے، خا ص طور پر وہ لوگ جو اوور ٹیک کرنا چاہتے ہیں، موٹر سائیکل سواروں کی وجہ سے یہ مرحلہ ان کے لئے جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔موٹرسائیکل زیادہ سے زیادہ دو افراد کے لیے بنی ہے لیکن کئی دفعہ اس پر 4 سے 5 افراد سواری کرتے ہوئے نظر آتے ہیں جس کی وجہ سے توازن برقرار رکھنا کافی مشکل ہو جاتا ہے اور حادثات رونما ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ موٹر سائیکل مال برداری کے لیے بھی استعمال میں ہوتی ہے جو کہ سڑک پر اک چلتا پھرتا خطرہ ہے اور ٹریفک حادثات کا موجب بنتے ہیں۔ پاکستان میں پبلک ٹرانسپورٹ میں اوورلوڈنگ کا رحجان بہت عام دیکھنے کو ملتا ہے لیکن یہ اوور لوڈنگ صرف سامان پر مبنی نہیں ہوتی بلکہ پبلک ٹرانسپورٹ میں اوورلوڈنگ سے مراد مسافروں کو ضرورت سے زیادہ گاڑیوں میں بھر لینا ہے اور یہ مسئلہ کافی گھمبیر صورتحال اختیار کرتا جا رہا ہے کیونکہ ٹریفک حادثات میں روز بروز اضافہ صورتحال کی سنگینی کا اطلاق کروانے کے لیے کافی ہے،چھوٹی بسوں کا بھی حال بھی کچھ ایسا ہی ہے مسافروں اور سامان سے کھچا کھچ بھری ہوئی، جو دیکھتے ہی اک خوف کا تاثر دیتی ہیں۔ کیا دیہات کیا شہر ہر جگہ بسوں کی چھتوں اور دروازوں میں مسافر لٹکے نظر آتے ہیں۔پیسے کی لالچ میں کنڈیکٹر حضرات جگہ کی پرواہ کئے بغیر مسافروں کو بسوں میں ٹھونس دیتے ہیں۔ لمبی گاڑیوں کی صورتحال سب سے زیادہ ابتر ہے۔ جو عموماً حد سے زیادہ سامان سے لدی ہوتی ہیں۔ اگر ان کی صلاحیت چند ٹن تک وزن برداری کی ہے تو یہ اس سے کئی گنا زیادہ وزن لئے ملے گی۔ ٹرک بھی مکمل لدے ہوئے ملیں گے۔ جو پوری سڑک گھیر لیتے ہیں۔ حد سے زیادہ سامان لادے ان ٹرکوں کو اوورٹیک کرنے کے لیے دوسری گاڑیوں کو انتظار کی زحمت اٹھانا پڑتی ہے۔ اگر رات کے وقت کوئی ان ٹرکوں کو اوورٹیک کرنا چاہے تو یہ جوئے شیر لانے کے مترادف عمل بن جاتا ہے کیونکہ زیادہ تر ٹرک بغیر ہیڈلائیٹس اور سائیڈ انڈیکیٹر کے محو سفر ہوتے ہیں۔ گاڑیوں کی ایک اور قسم گدھا گاڑی ہے جو عموماًشیشے یا لوہے کا مال لادے شہروں میں استعمال ہوتی ہے۔ سریا، گارڈر اور دوسرے تعمیراتی سامان کی مال برداری گدھا گاڑی سے ہی کی جاتی ہے۔ جو انسانی جانوںکے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔ ایک سیمینار میں میں نے گدھا گاڑی کے حادثہ کی تصویر دیکھی جو ریسکیو 1122 نے آویزاں کی تھی۔ لوہے کا ایک سریا دو نوجوان موٹر سائیکل سواروں کے سینے میں گھس گیا جو گدھا گاڑی کے ساتھ ٹکرائے تھے۔ ریسکیو 1122 نے موقع پر پہنچ کر ان کی جان بچائی۔ اس ضمن میں صرف کوئی ایک واقعہ ہی نہیں بلکہ اس میں کئی قیمتی انسانی جانیں اور مال کا ضیاع ہوا،حد سے زیادہ سامان سے لد ی ٹریکٹر ٹرالی دیہاتوں کے علاوہ شہروں میں بھی موت کا منظر پیش کرتے ہوئے نظر آتی ہیں ۔ دیہاتوں میں ان پر اناج، فصلیں اور گنا لدا ہوتا ہے۔ یہ حد سے زیادہ اس سامان سے لدی ہوئی پائی جاتی ہیں۔ ٹرالی عموما رات کے وقت سڑکوں پر بغیر ہیڈ لائٹس و سائیڈ انڈیکیٹر کے عام مشاہدے میں ملتی ہیں۔ قصبوں اور شہری علاقوں میں بھی انکا جانا ہوتا ہے اور اکثر سڑک حادثات کا سبب بنتی ہیں بالخصوص رات کے وقت اگر خدانخواستہ کبھی ان کا ٹائر وغیرہ پھٹ جائے یا پنکچر ہوجائے تو ساری سڑک ہر دو اطراف سے متاثر ہوتی ہے۔ پھر جب تک اردگرد کی جگہ خالی نہ ہو یا پنکچر نہ لگے تب تک دوسری ٹریفک مسائل کا شکار رہتی ہے۔ یہاں یہ وا ضح کرنا بھی مناسب ہے کہ ان ٹرالیوں میں دھماکہ خیز مواد، منشیات اور دیگر ممنوعہ مواد کی ترسیل بھی آسانی سے ہو سکتی ہیں۔ ان ٹرالیوں کے ذریعے شہروں تک ایسے خطرناک مواد کی ترسیل کی روک تھام کرنا ایک مشکل امر ہے۔ جس کی وجہ سے بڑا جانی نقصان ہوتا ہے۔ ان تمام مسائل میں متعلقہ حکام اور حکومت کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھاتی نظر نہیں آتی۔ ہر روز یہ ٹرالیاں شہروں میں مٹی، گارا اور دیگر تعمیراتی سامان لادے نظر آتی ہیں۔ جس کی وجہ سے شاہراہیں، گلیاں اور ارد گرد کے علاقہ جات گرد سے اٹے رہتے ہیں ؛ یہ گرد سڑکوں کو نقصان پہنچانے کے ساتھ ساتھ آلودگی بھی پیدا کرتی ہے مگر مجال ہے کہ حکام اعلیٰ کے کان پر جوں تک بھی رینگے۔ یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ سرکار کی پالیساں گاڑیوں پر حد سے زیادہ لدے سامان کو لیکر بالکل مناسب نہیں۔ سرکاری ادارے حد سے زیادہ لدے سامان کو کوئی سنجیدہ مسئلہ ہی نہیں سمجھتے۔ تاہم اوورلوڈنگ انسانی جان و مال کے ضیاع کا سبب بن رہی ہیچونکہ اس سے کوئی سرکاری افسر متاثر نہیں ہوتا یا بہت کم ایسا ہوتا ہے اس لئے یہ انکے نزدیک سرے سے کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ سماج اور ریاست میں ایک خلا موجود ہے۔یہ امر اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ ریاست کو عوام کی صحت یا جان کی کوئی پرواہ نہیں۔ اس ناگفتہ بہ صورتحال میں کیا کیا جا سکتا ہے ؟ اس امر میں شہریوں کو پہل کرتے ہوئے اپنی آواز حکام بالا تک پہنچانی ہوگی۔ انہیں چاہیے کہ وہ حکومت کو مجبور کریں کہ وہ شاہراہوں پر حد سے زیادہ لدی گاڑیوں کا داخلہ ممنوع کرے۔ مناسب ہیڈ لائیٹس سمیت سائیڈ انڈیکیٹر کا استعمال ہر قسم کی چھوٹی بڑی گاڑی کے لئے لازم کیا جائے۔ عوام میں اس مسئلہ کو لیکر شعور اجاگر کرنا ہوگا۔ انہیں متحد ہو کر اس مسئلہ کی سنگینی پر آواز بلند کرنی ہوگی۔ پالیسی سازوں کو چاہیے کو اس مسئلہ پر سخت قانون سازی کریں۔ حد سے زیادہ لدی گاڑیوں کا موٹروے اور شاہراہوں پر داخلہ ممنوع ہونا چاہیے۔ متعلقہ اداروں کو چا ہیے کہ وہ حد سے زیادہ لدی گاڑیوں پر جرمانہ عائد کریں تاکہ قیمتی جانوں کے ضیاع سے بچا جا سکے۔