ملک کی موجودہ انتہائی ناگفتہ بہ صورتحال کو الفاظ میں بیان کرنا بڑی کاریگری کا کام ہے یہ اسحاق ڈار کا کمال تھا کہ وہ معاشی صورتحال کے تانے بانے ایسے بنتے تھے کہ سننے والا حیران رہ جاتا تھالیکن اب بات وہاں تک پہنچ چکی ہے جہاں اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ بھی کام کرتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا نگران وزیر خزانہ نے صاف صاف بتا دیا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ حالات اندازے سے بھی کہیں زیادہ خراب ہیں پاکستانی معیشت کانام سنتے ہی لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور اگر غور کیا جائے عوام لفظ سیاست کا اصل مفہوم ہی بھول چکے ہیں بس انہیں دو وقت کی روٹی کے ایسے لالے پڑ ے ہوئے ہیں کہ روح اور جسم کا رشتہ قائم رکھنا محال ہوگیا اور صورتحال کی سنگینی جاننے کے باوجود حکمرانو ںکے اقدامات سے ایسا معلوم ہو رہا کہ وہ اپنے ہی عوام پر ظلم کے پہاڑ توڑنے میں ید طولیٰ حاصل کر چکے ہیں۔ پاکستانی روپے کی اتنی بے قدری اس سے قبل کبھی نہیں دیکھی گئی تھی قیام پاکستان کے موقع پر ڈالر کی قدر پاکستانی3.30روپے کے برابر تھی مملکت خداداد کے قیام کو 76سال بیت چکے ہیں فرق صرف اتنا آیا ہے کہ اشاریہ نکا ل دیا گیا ہے اور اس وقت مارکیٹ میں ڈالر330روپے میں بھی دستیاب نہیں ، ہمسایہ ممالک کی کر نسی بھی اب پاکستانی روپیہ کا منہ چڑا رہی ہے دور کی بات نہیں چند سال قبل تک روپیہ کے مقابلہ میں افغانی روپیہ انتہائی بے وقعت تھا ایک پاکستانی روپیہ میں سیکڑوں افغانی روپیہ وصول کر لئے جاتے تھے۔ آج ایک افغانی روپیہ 4پاکستانی روپیہ کے برابر ہو گیا ہے بھارتی روپیہ کی قدر کبھی پاکستانی روپیہ سے زیادہ نہیں ہوئی تھی لیکن اس وقت ایک بھارتی روپیہ 4پاکستانی روپیہ کے برابر ہو گیا ہے،برآمدات اور درآمدات کی بات ہی الگ ہے کوئی کسی بھی قسم کا موازنہ نہیں کیا جاسکتابجلی، گیس اور پٹرول کی قیمتیں بڑھا کرحکومت اپنے اخراجات پورے کر رہی ہے جس کی وجہ سے مہنگائی کا سونامی بے قابو ہوتا جا رہا ہے سفید پوش طبقہ دور کی بات مڈل اور اپر مڈل کلاس کی بھی چیخیں نکل چکی ہیں کچھ لوگ ان حالات میں بھی مسلم لیگ (ن) اپنی سیاست چمکا رہی ہے اور عوام کو یہ لالی پاپ دے رہی ہے کہ میاں نواز شریف بر سر اقتدار آکر بجلی، گیس اور پٹرول کی قیمیت کم کریں گے ان کا موقف ہے کہ اس سے قبل16ماہ تک مسلم لیگ (ن) کی نہیں بلکہ پی ڈی ایم کی حکومت تھی نواز شریف نہیں بلکہ شہباز شریف وزیر اعظم تھے ۔مسلم لیگ (ن) کی حکومت اس وقت ہوگی جب نواز شریف وزارت عظمیٰ کی سیٹ پر براجمان ہونگے ۔اب اس کاوش کو کیا کہا جائے ایسی باتیں کرکے غریب عوام کے زخموں پر نمک پاشی کی جارہی ہے گذشتہ رات ٹی وی کا سوئچ آن کیا خبرنامہ دیکھنے کی جسارت کی کوئٹہ کا ایک بے بس اور لاچار مزدور دوہائی رہا تھا ۔خدا کیلئے آٹا سستا کردو اب میں اپنی روزانہ کی مزدور ی سے اپنے بچوں کے لئے دو وقت کا آٹا بھی نہیں خرید سکتا۔ فرط جذبات میں اس کے آنسو بہہ گئے اور نگران وزیر اعظم انوا ر الحق کاکڑ صاحب کہہ رہے ہیں مہنگائی اتنی نہیں جتنا بڑھا چڑھا کر پیش کیا جارہا ہے۔ ان کے اس'' حقیقت پسندانہ'' تجزیہ کے بعد کچھ کہنے کو رہ نہیں جاتا، نگران وزیر اعظم صاحب افغان حکمران سردار دائود کی طرح ذرا مارکیٹس کا گشت کرنے کی جرأت کریں ۔سب معلوم ہو جائے گا کہ مہنگائی کتنی ہے ؟ سردار دائود ایک مطلق العنان بادشاہ تھا اسے جب معلوم ہوا کہ کابل میں پبلک ٹرانسپورٹ کے کرایہ بڑھا دئیے گئے ہیں اورتاجر اپنی اشیاء کے من مانے دام وصول کر رہے ہیں وہ بھیس بدل کر بازار پہنچ گیا پبلک ٹرانسپورٹ میں عام سوار بن کر سفر کیا اور پھر بازار سے اشیاء خریدیں اور موقع پر ہی زیادہ کرایہ اور اشیاء کے زائد دام وصول کرنے والوں کیلئے پھانسی کا حکم نامہ جاری کیا ۔اس کے بعد سردار دائود کی حکومت میںکسی کو ایسا کرنے کی جرت نہیں ہوئی تھی ہمارے حکمران ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ مہنگائی کے تاجروں اور ٹرانسپورٹرز سے بڑھ کر خود ذمہ دار ہیں مہنگائی نے ماں بہن بیٹی اور بہو کو چادر اور چار دیواری سے باہر نکلنے پر مجبور کردیا ہے آن لائن ٹرانسپورٹمیں خواتین کی تعداد بڑھتی جارہی ہے مارکیٹس میں کبھی خواتین کو سیلز اور دیگر کام میں نہیں دیکھا تھا لیکن اب صورتحال بالکل مختلف ہو چکی ہے یہ خواتین ملازمت شوق سے نہیں بلکہ مہنگائی کی وجہ سے گھر کے اخراجات پورے کرنے کیلئے کر رہی ہیں ہمسایہ ملک افغانستان کی حکومت کے ایک سرکردہ رکن قاری فصیح الدین کابل کے بازار سے گزر رہا تھے ایک باپردہ خاتون پھل اور سبزی فروخت کر رہی تھی جونہی اسے دیکھا رک گئے درخواست کی محترمہ آپ کیوں سبزی فروٹ فروخت کر رہی ہیں خاتون نے جواب دیا میں اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کیلئے ایسا کر رہی ہوں قاری صاحب نے کہا آپ اسلامی افغانستان میں رہتی ہیں ، گھر جائیں ہم آپ کی جگہ کام کریں گے آپ کو اور آپ کے بچوں کو ماہانہ خرچ حکومت دے گی یہ صر ف احساس کی بات ہے موجودہ حالات میں بھی افغانستان کے پاس وہ وسائل نہیں جن سے پاکستان مالا مال ہے وہ افرادی قوت نہیں جو اللہ تعالیٰ نے مملکت خداداد کو عطا کی ہے سب کچھ ہوتے ہوئے بھیہر طرف بے یقینی اور مایوسی کے بادل منڈلائے ہوئے ہیں یقین اور جرأت کی کمی ہے تاہم ایک مسلمان کسی کیفیت میں بھی ہمت نہیں ہارتا بلکہ مقابلہ کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کیلئے کوئی نہ کوئی راستہ نکال دیتے ہیں۔ معروف ادیب اشفاق احمد صاحب کہا کرتے تھے کہ بھائی ''ساری حماقیتں کرلینا مگر ایک حماقت نہ کرنا اللہ کی رحمت سے کبھی مایوس نہیں ہونا'' ا نہوں کا یہ جملہ قرآن کی آیت اور حدیث رسول سے اخذ تھا حدیث رسول مقبول ﷺ ہے کہ اللہ کی رحمت سے مایوسی کفر ہے اور اس سے ناامید ی گناہ کبیرہ ہے اور قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں وہ بڑا ہی غفور اور رحیم ہے ۔