کنیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے ایک بیان میں" اسلامو فوبیا" کو ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے، اس سوچ اور مائنڈ سیٹ کی بیخ کنی اور تدارک کے متعلق جن جذبات کا اظہار کیا ہے ، اس سے بالخصوص پاکستان کے موقف کو عالمی سطح پر تقویت میسر آئی ہے ، کنیڈین وزیر اعظم نے اپنے ملک کو ، مسلم کمیونٹی کے لیے محفوظ بنانے اور "اسلاموفوبیا" سے نمٹنے کے لیے ایک خصوصی نمائندہ بھی مقرر کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔ قبل ازیں روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے بھی اسلاموفوبیا کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے ، اپنے ایک بیان میں نبی اکرم حضرت محمدؐ کی اہانت کو آزادی اظہار رائے سے تعبیر کرنے کی مذمت کی ہے ۔ گویا وزیر اعظم پاکستان کا موقف کہ اسلاموفوبیا کے تدارک کے لیے عالمی فورمز اور انٹر نیشنل لیڈر شپ کو آواز بلند کرنا ہوگی ، ترویج پارہا اور اقوامِ عالم اس کے متعلق آواز اٹھا ر ہے ہیں۔بہت پہلے کیرن آرم اسٹرانگ نے "اے بائیوگرافی آف دی پرافٹ،انٹروڈکشن "میں لکھا تھا کہ مغرب کے دانشوروں نے اسلام کو ایک کفر آمیز عقیدہ سمجھ کر دھتکارا اور پیغمبر اسلامؐ پر (نعوذ باللہ) بہتان طرازی کی اور اسلام کو پُرتشدد دین کے طور پر پیش کیا ، مگر اسلام اپنی اندرونی طاقت اور قوت کے بل بوتے پر دنیا میں ڈٹا رہا اور دنیا میں عروج اور بلند ی کا حامل ہو ا۔ ایچ جی ویلز نے بھی ایسی ہی بات کہی تھی کہ اسلام اس لیے دنیا پہ چھا گیا کہ وہ اپنے زمانے کا سب سے عمدہ معاشرتی اور سیاسی نظام تھا ، وہ جہاں بھی گیا اس نے پسماندہ ، غیر منظم، زخم خوردہ اور غیر متمدن لوگ اور ان پر نامعتبر اور خود غرض حکمران دیکھے ، جن کا اپنے عوام سے کوئی رابط اور تعلق نہ تھا ، جو لُٹے ہوئے ، ستائے اور خوفزدہ تھے ۔ اسلام نے ان کے زخموں پر مر ہم رکھا ،یہ اکیلا ہی سب سے زیادہ کشادہ ، تروتازہ ، صاف ستھرا، ہمدرد، غمگسار ، لائق توجہ ، قابل ِ عمل اور نبی نوع انسان کو ، کسی بھی دوسرے نظریے اور نظام سے بہتر طرزِ معاشرت اور اسلوبِ زندگی پیش کرنے والا نظریہ اور دین قرار پا گیا ۔ ساتویں صدی کے اوائل میں،عرب کی سرزمین پر ہدایت کاجو آفتاب طلوع ہوا،اس کا نظامِ فکر و عمل اتنا طاقتور،موثر اور مضبوط تھا کہ دیکھتے ہی دیکھتے،صرف سوسال کے عرصے میں،مشرقِ وسطیٰ، ایران،ہندوستان اور شمالی افریقہ کو متاثر کرتے ہوئے ، اسپین تک پہنچ کر ، یورپ کے دروازے کھٹکھٹانے لگا۔ انسانی تاریخ میں ا س سے پہلے ، کسی فکر ی نظریئے یا آئیڈیالوجی کو اتنا عروج، دوام یا قبول ِ عام میسر نہ آیا۔ لیکن جس قدر پسندیدگی، اسی قدرمزاحمت ، بلکہ اس تفوق اور عروج کا اس قدر خوف کہ یورپ ایک عظیم تہذیب پیدا کر لینے کے باوجود ،مسلم سطوت اور شکوہ کے پرانے دبائو سے باہر نہیں نکل سکا ،’’اسلاموفوبیا‘‘اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ ہندوستان میں آریائوں کی یورش کے بعد،جب یہاں اسلام کی باری آئی تو اس کے مغربی کنارے کے ذریعے،مقامی لوگوں کے عربوں سے تجارتی تعلقات پہلے سے قائم بھی تھے اور قدیم بھی،جس پر عربوں کی گرفت اور فوقیت مسلمہ تھی ، لیکن یہاں اسلام کی رَوپہلی کرن تجارت کے ذریعے نہیں، بلکہ تصوّف کے ذریعے پہنچی۔بر صغیر ، جوکہ ہندوستان ، پاکستان اور بنگلہ دیشن پر مشتمل ہے ، تاریخ کے ابتدائی دور ہی سے ’’ہند‘‘ کے نام سے معروف ہے، قدیم زمانے میں جب بھی کوئی قوم یہاں باہر سے وارد ہوئی،تو مغرب کے راستے آئی یا بحیرہ عرب سے یا شمال مغرب کے پہاڑی درّوں سے عہد ِ عثمانی میں،عراق کے گورنر کو ہندوستان کی بابت معلومات اخذ کرنے کی ذمہ داری تفویض ہوئی،تو اس نے بعد از جائزہ و تفصیلی سروے، دارالخلافہ میں رپورٹ ارسال کی کہ پانی کی قلّت ہے،پھلوں کی کمی ہے اور ڈاکو نڈر ہیں،اگر تھوڑی فوج بھیجی گئی،تو وہ سب قتل ہوجائیں گے اور زیادہ بھیجی تو سب بھوک سے ہلاک ہوجائیں گے۔اس ابتدائی رپورٹ کے بعد ہندوستان کی طرف توجہ سے اِعراض کیا گیا۔ ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے بعد712ء میں سند ھ پر قبضے کا ایک جائزہ اور سنجیدہ موقع اس وقت میسر آگیا،جب عربوں کا ایک جہاز سندھ کے ساحلوں پہ لوٹ لیا گیا،راجہ داہر کی ہٹ دھرمی نے سندھ پر حملے کا جواز پید ا کردیا اور محمد بن قاسم کی قیادت میں شیراز اور مکران کے ساحلی علا قوں سے ہوتی ہوئی،خشکی کے راستے فوج یہاں پہنچ گئی،راجہ داہر مارا گیا اور اس کے دارالحکومت پر قبضہ ہو گیا۔ مقامی آبادی کی اطاعت اور جزیہ کی ادائیگی کے سبب مزید معرکہ آرائی کی ضرورت محسوس نہ کی گئی۔یہ محض فوجی مہم تھی،اس میں دعوت و تبلیغ کا اہتمام نہ تھا،تاہم مقامی لوگوں اور فاتحین کے درمیان بُعد یا عداوت کے جذبات یا تشدّد کا ماحول نہ تھا،ہندوئوں کی مذہبی کتابوں کی تقدیسی حیثیت کو مُسلم رکھا گیا ، مقامی لوگوں کے ساتھ رواداری کا مظاہرہ کیا گیا،برہمن آباد کے خاص باشندوں نے بدھ کے مندر کی مرمت اور اپنی مذہبی آزادی کی درخواست کی،جسے منظور کیا گیا ۔ اطاعت قبول کرلینے کے بعد، ان کے جان و مال کی حفاظت کا اہتمام ہوا۔ ان سب کے باوجود خطے میں اسلام کے پھیلنے میں ابھی تین صدیاں باقی تھیں اور اس پھیلائو کا آغاز بحیرہ عرب یا سندھ،جہاں ان کے قدم پہلے ہی سے جمے ہوئے تھے،سے نہ ہو ا،بلکہ شمال مغربی راستوں سے ، ترکوں کے ٹوٹ پڑنے کے بعد ہوا، جبکہ دسویں صدی عیسویں تک ، مسلما نوں کی حکومت و خلافت دمشق سے بغداد منتقل ہوچکی تھی ، صنعت و تجارت کے فروغ نے مسلم ایمپائر کو بے انتہا دولتمند اور اس کے قوت و اختیار اور دائرہ کار کو بے پناہ وسیع کردیاتھا۔ اتنی بڑی سلطنت کا مرکز سے قابو میں رہنا دشوار تھا ، اس کا فطری نتیجہ یہی تھا کہ اس کے کناروں پر چھوٹی چھوٹی آزادریاستیں قائم ہونا شروع ہوگئیں،جہاں سلطان کے لقب سے ان کے حکمران سریر آرائے حکومت ہوگئے ۔ ایسی ہی ایک سلطنت ایک ترک فوجی الپتگین نے 962ء میں افغانستان میں قائم کر کے غزنی کو اس کا دارالسلطنت بنایا ۔ اس کے داماد سبکتگین نے اپنی سلطنت کی سرحد کو "کیسپین سی" سے پشاور تک وسیع کرلیا، پشاور پر اس نے 991ء میں قبضہ کیا ، اس کے بیٹے محمود غزنوی (971ئ۔1030ئ)نے 997ء اور 1026ء کے درمیان ہندوستان پر سترہ حملے کیے۔ ہندوستان کی اکانومی مضبوط تھی ، ملک زروجواہر سے لبریز تھا ، جس کو خوب سمیٹا گیا ۔ پنجاب کے حاکم جے پال اور اس کے بیٹے انندپال نے مزاحمت کی۔ وہ بھی غزنی پر حملہ آور ہوا،مگر سلطنت ِ غزنہ کا تفوق قائم رہا ۔ محمود نے 1025ء میں سوراسٹر کے ساحلی علاقے میں سوم ناتھ پر حملہ کیا ، کیونکہ اس کا مندر اپنے اندر ایک گراں قدر خزانہ چھپائے رکھنے اور ان کا بُت کراماتی طور پر ہوا میں مُعلق رہنے کے لیے مشہو ر تھا۔اس کے زمین بوس ہونے سے اس میں سے زرو جواہرات کے انبار بر آمد ہوئے،جس میں بیس لاکھ دینار سے زائد کا محض سونا تھا۔