کیا ہی دل کش منظر تھا اور کیا ہی خوب یہ عید کا دن تھا ۔ جنگ کے طویل سترہ سالوں سے بدحال افغانستان کی عید دنیا بھر سے نرالی تھی۔افغانستان پہ امریکی حملے کے بعد سترہ سالہ جنگ کے دوران یہ طالبان کی جانب سے پہلی جنگ بندی تھی۔عید کے تین روز اس دو طرفہ جنگ بندی نے وہ نظارے دکھائے کہ میڈیا اور چشم فلک دونوں حیران رہ گئے۔طالبان کے جنگجو نہ صرف کابل میں آزادانہ دندناتے پھرے بلکہ مقامی آبادی نے ان کے ساتھ سیلفیاں بھی بنوائیں۔ آپ وہ تصویر بھی دیکھ سکتے ہیں جس میں ایک طالبان جنگجو کے گلے میں ایک خاتون سماجی رہنما ہار ڈالتی دکھائی دے رہی ہیں۔ اگرچہ خاتون نے چہرہ روایتی نقاب میں چھپا رکھا ہے لیکن ان کی خوشی چھپائے نہیں چھپتی۔ افغان طالب بھی خاصا خوش باش دکھائی دے رہا ہے۔یہ وہی طالبان ہیں جن کی شریعت میں ٹی وی اور سینما پہ پابندی تھی اور یہ ایسی پابندی تھی جس نے گویا دنیا بھر کی سانس بند کردی تھی۔بامیان کے بت کیا ٹوٹے تھے مہذب دنیا کے دل ٹوٹ گئے تھے۔پھر مہذب دنیا نے بدلہ بھی خوب لیا تھا اور کسی نے جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں تھا، محاورے کے طور پہ کہا تھا کہ وہ ہمارا تورا بورا بنادیں گے۔تو کیا حالات بدل رہے ہیں؟ کیا تورا بورا بدلنے والا ہے۔ اگرچہ اس سیلفی فیشن زدگی پہ طالبان قیادت نے اپنے جنگجووں کے ساتھ کافی برہمی کا اظہار کیا ہے لیکن اس قسم کی کسی سزا یا تادیب کی گونج سنائی نہیں دی جو ملا عمر کے زمانے میں آئے روز اخبارات کی زینت بنتی تھی۔ وہی بے پردگی پہ کوڑے، غیر شرعی داڑھی پہ کوڑے ، ذرا ذرا سی بات پہ کوڑے اور کوڑے اور مزید کوڑے۔تو کیا طالبان ملا عمر کے بعد تھوڑے لبرل ہوگئے ہیں یا وہ معتدل طالبان ڈھونڈ لیے گئے ہیں جن کے ساتھ امریکہ کی ڈیل ہونی ہے۔افغان حکام تو کسی شمار میں نہیں ہیں۔ اس سارے معاملے کو تھوڑے کھلے ذہن کے ساتھ دیکھیں تو اندازہ ہوگا کہ سترہ سال کی جنگ نے اگر کسی کے اعصاب چٹخائے ہیں تو وہ طالبان ہرگز نہیں ہیں اور عوام کے ساتھ سیلفیوں کے اس تھوڑے لبرل مظاہرے کا مطلب کچھ بھی ہوسکتا ہے طالبان کی کمزوری ہرگز نہیں بلکہ انہوں نے ایک طرح سے نفسیاتی طور پہ خو د کو سارے میڈیا کے سامنے مضبوط تر بنا کر پیش کیا ہے۔ یہ سافٹ امیج ہر صورت میں طالبان کے حق میں جاتا ہے۔اگرچہ اس تین روزہ جنگ بندی کو، جسے افغان حکومت دس دن تک توسیع دینا چاہتی تھی،خود افغان حکومت نے پامال کیا۔ پہلے ہی روز اس نے ننگر ہار میں دس طالبان جنگجو شہید کردیے اور کہا کہ جنگ بندی اب شروع ہوگی کیونکہ آپریشن پہلے سے جاری تھا پھر عید کے دوسرے ہی روز طالبان اور افغان حکام کی ایک عید ملن پارٹی پہ خود کش حملہ ہوا جس میں اٹھارہ طالبان شہید ہوئے۔گو طالبان کی طرف سے تین روزہ جنگ بندی کا ہی اعلان تھا لیکن اس واقعہ نے انہیں جہاں جنگ بندی ختم کرنے کا جواز فراہم کیا وہیں انہوں نے طالبان جنگجووں کو عوامی مقامات سے دور رہنے کی ہدایت کی تاکہ ان پہ حملے کی صورت میں عوام کا جانی نقصان نہ ہو۔ اس المیے کا سب سے افسوسناک مظاہرہ اس وقت ہوا تھا جب قندوز میںحفاظ بچوں کی تقریب تقسیم اسناد میں طالبان کی موجودگی کو بہانہ بنا کر افغان حکام نے بہیمانہ بمباری کی تھی اور سو سے زائد حفاظ بچے شہید ہوگئے تھے۔آج عارضی جنگ بندی کے خاتمے کے پہلے روز طالبان نے بغدیس میں بھرپور طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے پچاس کے قریب افغان حکام ہلاک کردیے ہیں۔ اس عارضی جنگ بندی اور اس کے دوران ہونے والے عوامی اور افغان حکام کے ساتھ محبت و مؤدت کے ان مظاہروں کے ذریعے طالبان نے کچھ اہم پیغامات دیے ہیں۔ وہ اس پوزیشن میں ہیں کہ جب چاہیں گے جنگ بندی کریں گے جتنے دن کے لئے چاہیں گے کریں گے اور اس سلسلے میں افغان حکومت کی کیا مرضی ہے اس کی چنداں پروا نہ کرتے ہوئے جب چاہیں گے اسے ختم کردیں گے۔جس طرح عوام اور افغان طالبان کے ساتھ سیلفیاں بنوائی گئی ہیں وہ ان کے اعتماد کا ہی ثبوت نہیں ہیں بلکہ اس بات کا بھی پیغام ہیں کہ اب اصل مسئلہ طالبان کی شدت پسندی نہیں بلکہ ان کے ملک میں امریکی اور غیر ملکی قابض افواج کی موجودگی ہے۔ یہ وہ نکتہ ہے جس کی بنیاد پہ انہوں نے جنگ شروع بھی کی، سترہ سال جاری بھی رکھی اور تین دن اسی شرط پہ جنگ بندی بھی کی کہ امریکی اور نیٹو افواج پہ حملے جاری رہیں گے۔ طالبان کی شدت پسندی جس پہ ایک عرصے تک مہذب دنیا شور مچاتی رہی اب ان کے لئے اہم نہیں رہی۔ کابل کی سڑکوں اور گلیوں میں بے خوف و خطر موٹر سائیکل پہ گھومتے طالبان کے ایک گروپ نے غیر ملکی میڈیا کو کھل کر بتایا کہ وہ یہ جنگ پاکستان کے لئے نہیں لڑ رہے وہ امریکہ کے خلاف لڑ رہے ہیں اور جب تک ایک امریکی فوجی بھی افغانستان میں موجود ہے وہ لڑتے رہیں گے۔ اس شدت پسندانہ بیان کے بعد انہوں نے خاتون نامہ نگار کے ساتھ تصویریں کھنچوائیں۔ کیا سمجھے آپ؟ یہ وہی طالبان ہیں جو امریکہ اور نیٹو نے تاریخ کی بدترین بمباری کے بعد کابل سے بھگائے ، مارے اور اپنی دانست میں نشان عبرت بنادیے۔آج وہ کابل میں دندناتے پھر رہے ہیں اور عوام ان کا خیر مقدم کررہے ہیں ۔وہ پہلے سے زیادہ پراعتماد ہیں اور یہ انہوں نے ثابت کیا ہے۔وہ افغانستان میں پہلے سے زیادہ علاقوں پہ قابض ہیں۔ اب چاہے Special Inspector General for Afghanistan Reconstruction (SIGAR) کی ان رپورٹوں پہ امریکی کانگریس نے پابندی لگا دی ہو جن کی رو سے وہ ملک کے بڑے حصے پہ قابض ہیں لیکن مغربی صوبہ فرح پہ ان کا قبضہ تو ابھی کل کی بات ہے۔ میڈیا پہ پابندی نہیں لگائی جاسکتی نہ ہی طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی زبان بندی کی جاسکتی ہے۔دوسری طرف انہوں نے یہ تاثر بھی دے دیا ہے کہ جنگ سے تنگ آئے عوام اب امن چاہتے ہیں، انہیں قبول کرتے ہیں اور عارضی ہی نہیں دائمی امن کی کنجی بھی ان ہی کے پاس ہے۔ ا س جنگ بندی کے دوران طالبان کے ساتھ عوام کے برتائو کا ایک بھی منفی واقعہ رپورٹ نہیں ہوا بلکہ لبرل سماجی رہنما انہیں پگڑیاں پہناتے رہے۔ اس میں سوچنے والوں کے لئے بہت سی نشانیاں ہیں۔مجھے اٹھارہ سو پاکستانی علما کا دہشت گردی کے خلاف وہ فتوی یاد آرہا ہے جو اب کتابی صورت میں بھی دستیاب ہے جس میں ہر قسم کے پرائیویٹ جہاد اور دہشت گردی کو حرام قرار دیا گیا تھا۔ اس فتوے کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے پاکستانی علما سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ ا سکا دائرہ افغانستان تک پھیلائیں۔ غالباً اس فتوے میں اکوڑہ خٹک کے مولانا سمیع الحق کے مدرسے کے علما بھی شامل تھے اور یہی اہم بات تھی۔اسی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اشرف غنی نے ترپ کا پتہ کھیلنے کی کوشش کی تھی جسے پاکستانی علما نے ایک اور بیانیے سے رد کردیا تھا اور کہا تھا کہ جب ملک ایک نہیں تو فتویٰ ایک کیسے ہوسکتا ہے اور جب طالبان ایک نہیں تو فتویٰ کیسے ایک ہوسکتا ہے ۔ یہاں کوئی خلافت تو نافذ نہیں ہے کہ سب ایک فتوے سے کام چلالیں۔ جائو اپنا فتویٰ خود نکالو۔ تو اشرف غنی نے گذشتہ روز اپنے علما جمع کرکے اپنا فتویٰ خود نکال لیا۔ اس پہ طالبان چیف ملا ہیبت اللہ نے کہا کہ یہ کیسا فتویٰ ہے جو امریکی غاصب افواج کے خلاف جہاد سے روکتا ہے۔ایسے دستور کو میں نہیںمانتا میں نہیں جانتا۔ انہوں نے جنگ بندی کے دوران گھوم پھر کر اور عوام سے عید مل کر یہ بھی بتا دیا کہ نفرت کی جڑیں کہیں اور ہیں اسے دور کرنا ہوگا ۔ یہ ایک ایسا پیغام ہے جسے جتنی جلد سمجھ لیا جائے اتنا ہی اچھا ہے۔ اب امریکہ کو براہ راست مذاکرات کی پیش کش کرکے طالبان نے اعتماد کا ایک اور ثبوت دیا ہے۔ سنا ہے امریکہ کچھ کچھ راضی بھی ہے تو کیا وہ افغانستان سے نکلنے پہ بھی راضی ہوجائے گا؟ پھر چین اور روس کا کیا کرے گا اور بھارت کہاں جائے گا۔ ایران کی تو چلو خیر ہے اس کی مشکیں کہیں اور سے کسی جارہی ہیں۔ یہ بھی شنید ہے کہ رشید دوستم واپس آرہے ہیں جو اغوا قتل اور ریپ جیسے جرائم کے مرتکب ہوکر ترکی فرار ہوگئے تھے۔ کیا ایسے چلے ہوئے کارتوسوں کو افغانستان میں بلا کر بٹھانے سے ایک بار پھر اسے خانہ جنگی میں دھکیلنے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے جب طالبان کے پاس ہتھیار اٹھانے کا کوئی شرعی اور اخلاقی جواز نہ بچے اور امریکہ کا کام بھی چلتا رہے ورنہ سترہ سالہ جنگ میں طالبان نے ثابت کرہی دیا ہے کہ ان کے اعصاب کو شکست امریکہ نہیں دے سکا تو یہ امریکی پٹھو کیا دیں گے۔ پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔