اقوام متحدہ کے مرتب کردہ کلینڈر کے مطابق 10دسمبر کو پوری دنیامیں ’’یوم حقوق انسانی‘‘ منایا گیا لیکن یہ سب زبانی جمع خرچ کے طورپرہوتاہے حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیامیں ہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کا کردارمجرمانہ ہے۔ اگر اقوام متحدہ کاعالمی فورم انسانی حقوق کی پامالیوں کا سچ مچ میں خاتمہ چاہتا ہوتا تو وہ فلسطین اور کشمیر پر اپنی قراردادوں پر عمل کرکے دکھاتا ۔ اقوام متحدہ کے نام سے موسوم سب سے بڑایہ عالمی فورم پوری چھان پٹھک کے ساتھ تسلیم کر چکا ہے کہ بھارتی قابض افواج کی طرف مسلسل مقبوضہ کشمیرمیں حقوق البشر کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، اقوام متحدہ اس امرکوگزشتہ 30 برسوں سے لگاتاردیکھ رہاہے کہ کس طرح وحشیانہ طریقے سے احتجاجی جلسوں اور جلوسوں پر فائرنگ کر کے خون بہایا جا رہا ہے۔اقوام متحدہ اس امرکوخوب جانتاہے او راس پرگواہ بھی ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں میں سب سے بڑا انسانی حق جو کشمیریوں سے 1947 سے آج تک چھینا جا چکا وہ ہے ’’ حق خود ارادیت‘‘ ہے اور جب کشمیری عوام حق خود ارادیت کا مطالبہ لیکر اٹھے تو پھر ان پر سفاک بھارتی رام راج کی طرف سے قیامتیں ڈھائی گئیں وقت آگیا ہے کہ اقوام متحدہ کو کشمیرکے اصل اور بنیادی مسئلے کی طرف توجہ دینی ہو گی۔ یہ کتنابڑا المیہ ہے کہ کشمیر، فلسطین عراق اور افغانستان کی بدترین صورتحال پر UN کے نام سے جانے جانے والایہ عالمی فورم اپنا رول نبھانے کیلئے کبھی تیار نہ ہوا۔ امریکہ کی سرپرستی میں صاف طور پراس کی کوششیں انصاف قائم کرنے کے بجائے دنیا کو ظلم کے اندھیروں میں دھکیلنے کیلئے نظر آرہی ہیں۔ اس لئے دنیا بھر میں ہو رہی حقوق البشر کی خلاف ورزیوں کا خاتمہ تب تک ممکن نہیں جب تک یہ عالمی فورم اپنے موجودہ کردار پر نظر ثانی نہیں کرتا۔اگراقوام متحدہ اپنی موجودہ روش کو اسی طرح برقرار رکھے تو پھر یہ کہ 10 دسمبر یوم حقوق انسانی منائے جانے سے مظلوم قوموں کے زخموں کو جان بوجھ کر کریدنے کاڈھونگ ہو گا۔ اگر کشمیریوں کو ان کا حق دلانے کے لئے یہ عالمی فورم آج تک پوری یکسوئی،دلسوزی اور سنجیدگی کے ساتھ آواز اٹھا تا تو اس میں کوئی شک نہیں کہ کشمیریوں کو مظالم سے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھٹکارا مل چکا ہوتا۔ اس میں کوئی کلام نہیں کہ اس عالمی فورم کاطرزعمل یہ ہے کہ ا ولا ًوہ ظالم اورمظلوم کو ایک ہی ترازو میں تول لیتاہے ،ثانیاً ظالم حکومتوں کیخلاف بین الاقوامی سطح پر کوئی راست اقدا م نہیں اٹھاتا۔دنیا بھر میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے بد قسمت لوگ موجود ہیں کہ جن میں زیادہ تر مسلمان ہیں جن کے عزیز و اقارب یا تو قتل کر دئیے گئے ہیں یا پھر لاپتہ، دنیا بھر میں ان قتل شدگان اور لا پتہ کئے جانے والوں کی بیوائیں اور یتیم بچے انصاف کے لئے مسلسل پکار رہے ہیں ۔ دیگر خطوں کی طرح فی الحقیقت مقبوضہ کشمیرمیں بھی بغیر حد و حساب ہر طرف انسانیت سوز واقعات بکھرے پڑے ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت ضروری ہے کہ ان واقعات کوترجیحی بنیادوں پر تحقیقات کے دائرے میں لایا جائے ۔کالے اور جابرانہ ایکٹ’’ افسپا‘‘کے بے رحمانہ اور بہیمانہ استعمال کے ذریعہ نہتے کشمیری مسلمانوں کو مسلسل تعذیب کا شکار بنا کر ان کی زندگی اجیرن بنا دی گئی ۔ اقوام متحدہ ظالم اورسفاک حکومتوں کے سرکاری موقف کی تائید سکوتی کرنا اورمظلوم قوموں کے بنیادی حق کے مطالبے سے اس کا گریز اور جرأت اظہار سے خوف کھانے سے معلوم ہوتا ہے کہ کشمیر کے حوالے سے وہ مصلحت کا اسیر ہے،اگرچہ کشمیر میں ہو رہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پراس فورم نے اپریل 2018ء میں ایک رپورٹ کے ذریعے کشمیرمیں بڑے پیمانے پرہورہی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پرصدائے احتجاج بلند کیا اور بھارت سے رپورٹ مرتب کے والے ڈیپارٹمنٹ کا اصرار رہا کہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پاسداری کی جائے۔اس کے باوجود بھارت محض اس لئے ٹال مٹول سے کام لیتا رہاکہ یہ عالمی فورم اس کا کچھ بگاڑ نہیں سکے گا۔اقوام متحدہ جیسے بڑے عالمی فورم کا مجرمانہ اورشرمناک طرزعمل ایک طرف مگر افسوس یہ ہے کہ دنیابھرکی انسانی حقوق پرکام کرنے والی تنظیمیں بھی سفاک حکومتوں کے خلاف کوئی طوفان برپا نہیں کرپاتیں۔ حقوق انسان کی عالمی تنظیموں پر مسلمانان عالم کا اعتبار نہ ہونے کے باوجود ان اداروں نے کبھی کبھی ظالم کو احساس دلانے کی کوشش کی کہ وہ ظلم ڈھانے سے باز آجائے اسی تناظر میں وہ دنیا بھر میں اپنی آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ ان اداروں کے اس مؤقف کو اگرچہ دنیا کی ظالم حکومتوں اور قوتوں نے جھٹلایا نہیں تاہم ظلم ،بربریت اورکالے قوانین کے خاتمے کیلئے کوئی سنجیدگی بھی نہیں دکھائی۔ یہ ضرور ہے کہ ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ کئی مرتبہ اپنی رپورٹس مرتب کر چکی ہیںکہ حکومت بھارت انکے ساتھ حقوق انسانی کی صورتحال پر بات کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ان تنظیموں کے ارکان گاہے بگاہے جب کشمیر کا دورہ کرتے ہیں تو اپنے دورہ کشمیر کے دوران انسانی حقوق کارکنوں، وکلاء ، صحافیوں، سول سوسائٹی ممبران اور انسانی حقوق کے حوالے سے متاثرین کے ساتھ بات چیت کرتے رہتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ وہ کشمیر میں اپنی سرگرمیاں جاری رکھنا چاہتے ہیں۔آرمڈ فورسز سپیشل پائورز ایکٹ’’افسپا‘‘ اور گمنام قبروں جیسے معاملات پر کام کرنا چاہتے ہیں۔ گم شدہ افراد پر کام کرنے والی کولیشن آف سول سوسائٹیز نامی انسانی حقوق کی انجمن نے 2008ء میں وادی اور جموں کے پیر پنجال علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں گمنام قبروں کی موجودگی کا انکشا ف کیا تھا اور اس پورے معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔لیکن پھر یہ تنظیمیں خاموش ہو جاتی ہیں۔حقوق البشرکے تحفظ کیلئے کام کرنے کادعویٰ رکھنے والی ان دو تنظیموںنے کشمیر میں کشمیریوںکو پبلک سیفٹی ایکٹ کے تحت نظر بند رکھنے کے معاملے پراپنی آوازضرور بلند کی۔اُنہوں نے رپورٹ کیاکہ کالے قوانین کی آڑ میں اکثرکشمیریوں کو بلا لحاظ عمر و جنس قتل کیا جاتا ہے اور یہ کہ جموں اور کشمیر میں فورسز کو حاصل خصوصی اختیارات کی وجہ سے حقوق انسانی کی پامالیاں بڑے پیمانے پر رونما ہورہی ہیں۔جن میں قابض فوج کے ہاتھوںحراستی شہادتوں،اجتماعی عصمت دری، دوران حراستی گمشدگی،اجتماعی قتل،بلاجواز گرفتاریاں، تعذیب خانوںمیںکھالیں اکھاڑنا، املاک کے اتلاف کے واقعات قابل ذکر ہیں۔