مطالعہ ایک ایسی دوربین ہے جس کے ذریعے آپ اپنے ملک کے محسنوںکی گوشہ ہائے کو زندگی کوسمجھ سکتے ہیں۔ اپنے اصلی ہیروز کی تعلیمی اوران کے سیاسی احوال سے واقفیت حاصل کرتے ہیں۔اس لئے مطالعہ ایسی کتابوں کاہو جو نگاہوں کو بلند، سخن کو دل نواز اور جاں کو پرسوز بنادے، اگر مطالعہ فکر کی سلامت روی، علم میں گیرائی اور عزائم میں پختگی کے ساتھ ساتھ فرحت بخش اور بہار آفریں بھی ہوتو اسے صحیح معنوں میں مطالعہ کہاجائے گا۔یہ مطالعہ ہی کا کرشمہ ہے کہ انسان ہر لمحہ اپنی معلومات میں وسعت پیدا کرتا رہتا ہے۔ اور زاویہء فکر ونظر کو وسیع سے وسیع تر کرتا رہتا ہے۔ جب ایک قلمکار کا مطالعہ وسیع اور گہرا ہوتا ہے تو اس کی تحریر میں قوت اور اثر ہوتا ہے؛ ورنہ تحریر کمزور، پھسپھسی اور بے جان ہوتی ہے۔ایک شہسوار قلم کے لیے مطالعہ اتنا ضروری ہے جتنا انسانی زندگی کی بقاء کے لیے دانا اور پانی کی ضرورت ہوتی ہے، مطالعہ کے بغیر قلم کے میدان میں ایک قدم بھی بڑھانا بہت مشکل ہے۔ علم انسان کا امتیاز ہی نہیںبلکہ اس کی بنیادی ضرورت بھی ہے، جس کی تکمیل کا واحد ذریعہ یہی مطالعہ ہے۔ ایک پڑھے لکھے شخص کے لیے معاشرہ کی تعمیر و ترقی کا فریضہ بھی اہم ہے۔ اس لیے مطالعہ ہماری سماجی ضرورت بھی ہے۔ اگرانسان اپنے سکول و مدرسہ کی تعلیم مکمل کرکے اسی پر اکتفا کرکے بیٹھ جائے تو اس کے فکر و نظر کا دائرہ بالکل تنگ ہوکر رہ جائے گا۔ مطالعہ استعداد کی کنجی اور صلاحیتوں کو بیدار کرنے کا بہترین آلہ ہے۔ مطالعہ ایک خوبصورت گلشن کی مانند ہے، اس میں خوشبو بھی ہے اوردل آویزی بھی ہے ۔مولانا نعیم صدیقی رقم طراز ہیں: میری ذہنی ساخت یوں بنی کہ میں حاصل مطالعہ کو دماغ میں ڈال دیتا اور میرے اندراس پر غور و بحث کا ایک سلسلہ چلتے پھرتے، اٹھتے بیٹھتے، کھاتے پیتے جاری رہتا ہے۔ مطالعہ کے دوران جہاں اچھی کتابوں، خوشگوار فضا، مناسب مقام، موزوں روشنی اور وقت کی تنظیم ضروری ہے وہیں ایسے ادارے کی کتاب کا انتخاب بھی اشد ضرورت ہے جواپنے ملک وملت کے لئے مخلص ہو۔ خدا کا شکر ہے مملکت پاکستان میں ایسے کتاب دوست ادارے موجودہیں کہ آپ کو اپنے ملک کی نظریاتی اساس کے ساتھ لگاتار جوڑے ہوئے ہیں۔آپ کواپنے اصلی ہیروز کے ساتھ ربط وتعلق کومضبوط تر بنانے میں معاونت کرتے ہیں ۔کسی بھی ادارے کے سربراہ قابل اور کام کرنے والے ہوں اور اُن کے اندر نیک خیالات اورپاکیزہ ویژن ہو تو ادارہ اپنی مثال آپ کی منہ بولتی تصویر بن جاتا ہے- مملکت پاکستان میںعلم وادب اورنظریہ پاکستان ،نظریہ اسلام سے محبت رکھنے والے ایسے اداروں میں لاہور کا ادارہ قلم فاؤنڈیشن انٹرنیشنل جس قیام کوتقریباََ50سال مکمل ہوگئے ہیں ۔ پورے پاکستان میںکتاب کلچر کو خوشبو کی طرح پھیلانے کے لئے مسلسل متحرک ہے۔ یہ ادارہ اپنی محنت اور لگن کے اعتبارسے نمایاں مقام رکھتا ہے۔ اس ادارے نے ملک کی ان نامور ممتازشخصیات ،ادباء اورشعراء پرکتابیں شائع کیں جونظریہ پاکستان کی سرحدوں کی محافظت کے لئے ہمہ وقت محرک تھے۔ادارے کا مقصد پاکستان کی نئی نسل کو نظریہ پاکستان سے جوڑنا اور اوراپنے وطن کی محبت کی ترغیب دینا ہے جوایک انتہائی قابلِ ستائش بات ہے۔ ایسے وقت میں کہ جب کتب بینی کا ذوق تقریباًختم ہوچکا ہے لیکن علم وادب کی شمع کی لوکو بادصرصر سے بچاکررکھنے کی سعی دیکھ کر یقین کریں ایسے اداروں پر فخر کا احساس ہونے لگتا ہے بلاشبہ یہ ایک قدر دانی ہے جو دلوں میں جوت جگا دیتی ہے۔ کتاب سے محبت کرو، ادب سے محبت کرو۔اِس ادارے کو ادارہ بنانے میں ہمارے محب اوردوست جناب علامہ عبدالستارعاصم کی محنت شاقہ کارفرما ہے ۔ قلم فاؤنڈیشن میں خوبصورت ادبی گیلریاں دیکھ کر انتہائی خوشی محسوس ہوتی ہے اس کی شائع کردہ ہر ایک کتاب گوھرِ نایاب ہے جومملکت خدادادکے حال اور مُستقبل کا سرمایہہے۔قلم فاؤنڈیشن نے آج تک ایسی سینکڑوں کتابیں بھی شائع کیں اورمسلسل شائع کر رہا ہے جن سے مملکت خدادادکی نظریاتی اساس کوتقویت مل رہی ہے ۔اس ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ ادارہ تقریباً ہر ماہ ایک میں پانچ نئی کتاب شائع کرتا ہے جو کہ بہت بڑی بات ہے۔ملک کے معتبر علمی و ادبی حلقوں میں ان کی ہرقلمی کوشش کو سنجیدہ لیا جاتا ہے اورادارے کے سربراہ کی کتاب دوستی پر داد دی جاتی ہے ۔یہ ادارہ ہر نئی کتاب برائے مطالعہ شائقین کو بھیج رہاہے اوراس طرح ادارے کے ہر ایک کتاب میری لیبریری کاحصہ ہے جہاں میرے رفقاء اوردوست اکتساب فیض ہوتے ہیں۔ بہرکیف! مطالعہ وسیع کیجئے تاہم انتہائی چھان پھٹک کر کتابوں کا انتخاب ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی انتہائی ضروری ہے کہ کتاب ایمان سوز اوراخلاق سوز نہ ہو۔ضروری ہے مطالعہ کا سفر کرنے والا ہر شخص کم از کم اپنے دین ،اپنے ملک ،اپنی قوم ،اپنی تہذیب اوراپنی آباء کی چھوڑی ہوئی میراث ہو جس پر حضرت علامہ اقبال خطاب بہ جوانان اسلام میںفرماتے ہیں : مگر وہ عِلم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارا آپ بھی کتاب سے محبت کریں ،کتاب کے ساتھ دوستی اختیارکریں۔