ایران کی شام میں مداخلت، یمن سے عراق اور لیبیا تک اس کا عسکری نفوذ اور حز ب اللہ اور پاسداران انقلاب کے ذریعے ایران کے معاشی اور عسکری مفادات کے تحفظ پہ میں عرصہ سے لکھتی آرہی ہوں اور اس سلسلے میں میرے نظریات میرے قارئین سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ بات سیدھی سی ہے لبنان میں حزب اللہ اسرائیل جنگ کے بعد سے مشرق وسطی میں ایران نے اپنے مفادات کی تکمیل کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔ خوش قسمتی یا بدقسمتی سے ایران ایک مذہبی ریاست ہے۔ یہی بات اس کے حق میں بھی جاتی ہے اور اس کے خلاف بھی۔اس کے علاوہ ایرانی قوم پرستی اسی مذہبی فریم ورک میں بہت عمدگی سے کسی مناسب سائز کے نگ کی طرح جڑی ہوئی ہے۔قدیم قاجار خاندان سے لے کر پہلوی خاندان تک اس قوم پرستی نے بڑے گل بوٹے کھلائے ہیں۔ انقلاب ایران سے صرف ایک سال قبل رضا شاہ پہلوی نے سائرس اعظم کی قبر سے مخاطب ہوکر کہا۔اے کوردش ! آپ سکون سے سو سکتے ہیں کیونکہ ہم بیدار ہوچکے ہیں۔یہ الگ بات کہ ایران بیدار ہوا تو پہلوی کو فرار ہونا پڑا۔ تہذیبی اعتبار سے بھی ایران بڑی خوبصورت روایات کا حامل خطہ ہے۔ ایک عظیم ایران کی تشکیل اور تکمیل کا خواب پہلوی کے بعد آنے والے انقلاب ایران کے نتیجے میں بننے والی مذہبی حکومت کی آنکھوں میں بھی رنگ بکھیرتا رہا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس پہ مذہبی رنگ اتنی شدت سے غالب ہے کہ ایرانی قوم پرستی اس میں کہیں چھپ جاتی ہے لیکن ایران کے مشرق وسطی میں پھیلے ہوئے پر اور پیر جابجا یہ داستان سناتے ہیں۔دوسری طرف خلیج میں صورتحال بالکل مختلف رہی ہے۔ سلطنت عثمانیہ کی ظالمانہ تقسیم کے نتیجے میں بننے والی مختلف نظریات کی مسلم ریاستیں اپنی ہی مستی میں گم رہیں۔ان کا حال قران کے الفاظ میں ان فرقوں کی طرح رہا جنہوں نے خدا کی آیات کو آپس میں تقسیم کرلیا اور جس کو جتنا ملا وہ اسی پہ خوش رہا۔تیل کی دریافت نے اس مستی کو دو آتشہ کردیا اور عرب قوم پرستی خوشحالی کی چکاچوند میں گم رہی۔باقی رہی مسلم امہ تو اس کی فکر کس کو تھی۔وہ لاوارث تھی اور رہے گی۔ہاں اتنا ضرور ہے کہ ایران نے اخوان سے لے کر حماس تک ہر مزاحمتی تحریک کی حمایت کی۔ یہی حمایت اپنے مفادات پہ ضرب پڑنے تک سعودی عرب نے القاعدہ اور طالبان کی کی۔ایران نے حزب اللہ کو خطے میں قومی مفادات کی تکمیل کے لئے استعمال کیا تو سعودی عرب نے عرب نیٹو اس سے خائف ہوکر بنا لی۔ امریکہ نے اپنا اسلحہ ایران کا ہوا دکھا کر سعودی عرب کو فروخت کیا تو روس نے ایران کی پشت پہ شام میں ہاتھ رکھا۔ ایک خاص منصوبے کے مطابق ایران کو شام میں کھل کھیلنے کا پورا موقع دیا گیا۔ ادھر یمن میںسعودی عرب من مانی کرتا رہا گو اصولی طور پہ اسے اپنے خطے میں بغاوت کچلنے کا پورا حق تھا لیکن اس حق نے انسانی المیوں کو جنم دیا جو بہرحال قابل مذمت ہے۔ خود غرضی اور ہوسناکی کی ایک داستان ہے جو مشرق وسطی میں ایک سرے سے دوسرے سرے تک پھیلی ہوئی ہے۔ شام میں ایران کے کردار پہ ان ہی کالموں میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے۔ خدشہ خدشہ خطرہ می شود۔ میں نے بہت دلسوزی کے ساتھ تحریر کیا تھا کہ ایران کو شام میں اپنے مفادات کے لئے دوسرے مکتب فکر کے گروپوں کا صفایا کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔ سرزمین شام میں ایک ایک محاذ جنگ پہ وہی ہوا جس کا اندیشہ تھا۔ رقہ ، حمس، دمشق، حمہ، دیرالزور،مشرقی غوطہ،خان شیخون غرض ہر محاذ پہ ایک ہی حکمت عملی اپنائی گئی۔ آخری قصبہ البوکمال تھا جس کے متعلق اندازہ تھا کہ وہ داعش کا آخری گڑھ ہوگا اور اگر وہاں بھی حزب اللہ کا قبضہ ہوگیا تو ایران کو وہاں سے نکالنا مشکل ہوجائے گا۔ البوکمال میں داعش کا بریگیڈ اب بھی موجود ہے ۔ یہ وہ بریگیڈ ہے جس نے حلب پہ پاسداران اور آرمینیائی نوجوانوں کی سرکاری فوج کے خلاف پسپائی اختیار کی تھی۔توجہ طلب بات یہ ہے کہ یہ آرمینائی مسیحی ہر اس خطے میں موجود تھے جہاں پہلے داعش اور اب ایران کا قبضہ ہے یعنی دمشق، حلب، قمشلی، لطاکیہ، حساکہ، تل عبیاد، رقہ، دیرالزور،کساب ، عزیزیہ اور یعقوبیہ۔ یہ مسیحی نوجوان روس کی مکمل حمایت سے پاسداران کے شانہ بشانہ لڑتے رہے۔البوکمال سے آگے اردن عراق اور شام کی اہم ترین تکون اور مشترکہ سرحد الظنف ہے جو عراق کی طرف الولید کہلاتی ہے۔اسی الظنف میں امریکہ کے دو فوجی اڈے موجود ہیں۔روس اور شام کی سرکاری فوج کی مدد سے پاسداران اور حزب اللہ اس پوری پٹی پہ آزادانہ نقل وحرکت کرتی رہی اور امریکی فوجی اڈہ اسے دیکھتا رہا۔ اب جبکہ امریکہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدے سے نہ صرف نکل گیا ہے بلکہ اسے کھلم کھلا دھمکیاں دے رہا ہے،یہی وہ علاقہ ہے جہاں سے ایرانی ملیشیاوں کے انخلا کا یک طرفہ معاہدہ روس نے شامی حکومت کے ساتھ کرلیا ہے۔ادھر ایران کا موقف ہے کہ جب تک امریکی اڈا یہاں موجود ہے وہ یہاں سے نکلنے کی حماقت نہیں کرے گا اور اس نے روس کو کھری کھری سنا دی ہیں۔ حالات لیکن کچھ ٹھیک نہیں ہیں۔ اس جوہری معاہدے سے نکلنے کے بعد ایران میں ان درجنوں امریکی کمپنیوں نے کاروبار سمیٹنا شروع کردیا ہے جو جوہری معاہدے کے دوران ایران میں سرمایہ کاری کررہی تھیں۔ ایران سے امریکی کمپنیوں کا سرمایہ سمیٹنا کچھ اچھا شگون معلوم نہیں ہوتا۔ یہ طوفان سے قبل پرندوں کی پرواز معلوم ہوتی ہے۔ اس خلا کو پر کرنے کے لئے جرمنی اور فرانس موجود ہیں لیکن انہیں بھی امریکی دباو کا سامنا ہے اور جرمن کمپنیوں پہ سعودی عرب میں پابندی لگ گئی ہے۔حال ہی میں چین کے ساتھ تجارتی جنگ میں بظاہر امریکہ نے اپنی شرائط منوا لی ہیں جن کا ایک اہم ثبوت شمالی کوریا کا امریکہ کے ساتھ مزاکرات کی میز پہ آنا ہے جو چین کے دباو کے بغیر ممکن نہیں تھا۔امریکہ سے زیادہ کون جانتا ہے کہ کس کی دکھتی رگ کب دبانی ہے۔شمالی کوریا کا معاملہ اس لئے بھی نبٹایا گیا ہے پر پرزے نکالتے ایران کی سرکوبی اب ضروری ہوگئی تھی۔ آپ کو ایران میں معاشی عدم تواز ن کے نتیجے میں ہونے والے ہنگامے یاد ہونگے جنہیں سختی سے کچل دیا گیا تھا۔ ان ہنگاموں کے دوران ٹرمپ نے ایرانی نوجوانوں کو بڑا ہی اشتعال انگیز پیغام دیا تھا اور انہیں اپنی حمایت کا یقین دلایا تھا۔ اس وقت میرا خیال تھا کہ ایران میں کسی بھی تحریک کے لئے امریکی حمایت کا لازمی نتیجہ اس کا ناکام ہونا ہے لیکن اب معلوم ہوتا ہے کہ امریکہ سنجیدگی سے ایران میں رجیم کی تبدیلی کا خواہشمند ہے اور اس کا واضح اظہار کرچکا ہے۔ امریکہ میں ایرانی جلا وطن تنظیم مجاہدین خلق کی بڑی مضبوط لابی موجود ہے۔ یاد رہے یہ وہی مجاہدین خلق ہیں جو شاہ کی حکومت الٹنے میں شریک رہے لیکن فرانس میں جلا وطن خمینی اور پاسداران انقلاب پہ انقلاب ایران کو ہائی جیک کرنے کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ انقلاب کے بعد مجاہدین خلق کے ساتھ کچھ اچھا سلوک نہیں ہوا تھا۔ بعد میں صدام حسین نے انہیں عراق میں پناہ دی تھی لیکن وہ یورپ میں پناہ گزین ہوتے رہے اور گزشتہ دنوں ان کا آخری گروپ یورپ منتقل ہوا۔عراق ایران سرحد پہ خیمہ زن خلقی اس دوران ایرانی حکومت کے عتاب کا شکار ہوتے رہے۔چند دن قبل صدر ٹرمپ کے وکیل اور قدیم ری پبلکن سینیٹر رڈولف گیولیانی نے اسی خلق کے ارکان پہ مشتمل لابی سے خطاب میں واضح طور پہ ایرا ن میں حکومت کی تبدیلی کی بات کی ہے۔کہا جاتا ہے کہ ایران میں حالیہ ہنگاموں میں بھی یہی لابی ملوث ہے۔ ایران نے یورینیم کی معاہدے کے اندر رہتے ہوئے افزودگی کا اعلان کیا ہے لیکن یہ چند دنوں کا نہیں کم سے کم پانچ سالوں پہ مشتمل پروگرام ہے۔اس وقت اس کا دو ٹوک اعلان ایرانی عوام کے مورال کو بلند کرنے کے کام تو آسکتا ہے لیکن امریکہ کو دھمکانے کے لئے کافی نہیں ہے۔ شمالی کوریا کے پاس جوہری صلاحیت مکمل تھی۔ وہ اس کے تجربات کر چکا تھا پھر بھی آج وہ مزاکرات کی میز پہ ہے۔ ایران کے ساتھ امریکہ کی اصل شرط یہی ہے کہ وہ مشرق وسطی سے نکل جائے ۔اگر جوہری افزودگی مسئلہ ہوتا تو امریکہ معاہدے سے نہ نکلتایا پھر ایران درون خانہ جوہری صلاحیت حاصل کرچکا تھا اور اس معاہدے کی کوئی حیثیت نہیں رہی تھی۔ یورپ اس معاہدے کو ایران کے ساتھ بڑھتے تجارتی حجم کی وجہ سے برقرار رکھنا چاہتا ہے لیکن امریکی دباؤ کا وہ کب تک سامنا کرے گا کچھ کہا نہیں جاسکتا۔ روس بھی مشرق وسطی میں ایران کی پشت پناہی سے ہاتھ اٹھا رہا ہے۔ باقی رہی رجیم تبدیلی کی بات تو وہ امریکہ کے لئے کبھی مسئلہ نہیں رہا ۔ عراق اور لیبیا میں صدام اور قذافی جیسے مضبوط حکمرانوں کی مثالیں موجود ہیں طالبان تو کسی شمار میں نہیں تھے ۔ خاکم بدہن ایران پہ برا وقت آیا تو میری غیر مشروط حمایت ایران کے ساتھ ہوگی۔ احباب نوٹ فرمالیں۔