قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اور پاکستان کے سابق وزیر خارجہ گوہر ایوب خان دنیا سے رخصت ہوگئے ۔ گوہر ایوب خان فو ج میںکیپٹن عہدہ پر کام کرتے رہے جس کے سربراہ اُن کے والد جنرل ایوب خان تھے۔ وہ اپنے والد کے ساتھ فو ج کی طرف سے اے ڈی سی کے طورپر فرائض انجام دیتے رہے ۔ مرحوم پر الزام تھا کہ1964 کے صدارتی انتخاب میں جب محترمہ فاطمہ جناح ایوب خان کے مقابلے میں صدارتی اُمیدوار تھیں ۔ کراچی میں گوہر ایوب خان نے کراچی میں اپوزیشن کے جلوسوں پر مبینہ طورپر فائرنگ کرائی تھی جس میں درجنوں شہری جاں بحق ہوگئے تھے۔ گوہر ایوب خان اپنے والد کے ساتھ اے ڈی سی کے طورپر فرائض انجا دیتے رہے ۔ ان کے والد جنرل ایوب خان نے پاکستان کے طاقت ور ترین صدر کے طور پر حکمرانی کی اور وہ اور اُن کی ملاقاتوں اور غیر ملکی دوروں میں ساتھ رہے اورصدر ایوب خان کی سرگرمیوں کا بہت قریب سے جائزہ لیتے رہے۔ گوہر ایوب سے میری درجنوں ملاقاتیں ہوئیں۔ جن میں انہوں نے ایوب دور کے بارے میں کئی انکشاف کئے ۔ گوہر ایوب خان اپنے والد کی ڈائریاں ، ایوب خان کی ڈائریاں ‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب بھی چند سال پہلے شائع کی تھی۔ جس میں ایوب خان حکومت میں نے ایسے واقعات سامنے آئے ۔ جن سے بہت کم پاکستانی واقف تھے۔ ایوب خان روزانہ کہ اہم واقعات پر ڈائری لکھتے تھے۔ ان ڈائریوں کو گوہر ایوب نے جمع کر کے Ayub Khans Diaries کے عنوان سے ایک کتاب کے طور پر شائع کیا ۔ اس خاکسار کی گوہر ایوب سے جو ملاقاتیں ہوئیں ان میں اُن کے قومی ایشوز پر دئیے گئے انٹرویو نوائے وقت اور دوسرے اخبار وں میں شائع بھی ہوئے۔بعض واقعات جو گوہر ایوب خان نے راقم کے ساتھ شیئر کئے وہ آف دی ریکارڈ ہونے کی وجہ سے شائع نہیں ہوئے۔ ایسا ہی ایک واقعہ جو قومی سیاسی تاریخ میں بے حد اہم ہے جسے گوہرایوب خان نے اس خاکسار کے ساتھ شیئر کیا،قارئین کی نظر کیا جا رہاہے۔ گوہر ایوب خان نے اسلام آباد میں ہونی والی ایک ملاقات میں بتایا کہ 1965 ء کی جنگ کے بعد میرے والد جنرل ایوب خان کو دل کا عارضہ لاحق ہوا تو ڈاکٹروں نے انہیں مشورہ دیا کہ وہ ملک کے صدر کی حیثیت سے شاید اپنی ذمہ داریاں طبی وجوہ کی بناء پر مزید جاری نہ رکھ سیں ۔ کیوں کہ ان پر ذمہ داریوں کا بوجھ اُن کے عارضہ قلب کو مزید پیچیدہ کر سکتاہے۔ گوہر ایوب خان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹر کی ایڈوائس کے مطابقصدر پاکستان ایوب خان نے ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس 1966 کے آخر میں طلب کیا تھا۔ اس اجلاس میں ایوب خان نے وزیر قانون ، وزیر داخلہ ، وزیر دفاع ، وزیر خارجہ اور ان تینوں وزارتوں کے سیکریٹریوں ، صدر کے پرنسپل سیکریٹری اور اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان کو بلا یا تھا۔ صدر ایوب خان نے اجلاس کے شرکا سے خطاب کرتے ہوئے بتایا کہ مجھے ڈاکٹروں نے مشورہ دیا ہے کہ دل کا عارضہ لاحق ہونے کے بعد مجھے ملک کی صدارت کی ذمہ داریوں سے سبکدوش ہوجانا چاہیے ورنہ میری زندگی کو خطرہ لاحق ہے ۔ ایوب حان نے اجلاس میں یہ اعلان کیا کہ وہ 1962 کے آئین کے تحت جو انہوںنے ملک کو دیا تھا اور جس میں پاکستان صدارتی نظام کے تحت چل رہا تھا۔وہ اقتدار سپیکر کو منتقل کر رہے ہیں۔سپیکر آئین میں اگلی مدت کے مطابق انتخاب کرکے اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کر دے گا۔ گوہر ایو ب خان نے راقم کو بتایا کہ وزارت قانون انتقال اقتدار کی سمری تیاری کرنے کی ہدایت کر دی گئی تھی ۔ راولپنڈی میں جب یہ اجلاس ختم ہوا تو اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے اجلا س کے شرکا ء سے مخاطب ہو کر کہا کہ ’’جنتٹلمین آپ میرے ساتھ کافی پینے جی ایچ کیوں میں چلیں‘‘ گوہر ایوب خان کے مطابق اجلاس کے شرکاء جن میں وفاقی وزرا اور سیکریٹری شامل تھے سارے جی ایچ کیو پہنچ گئے۔ گوہر ایوب کا کہنا تھا کہ میں بھی ان حضرات کے ساتھ جی ایچ کیو پہنچ گیا۔جی ایچ کیو میں جنرل یحییٰ خان نے سب حضرات کو مخاطب کرکے گرجتے ہوئے انگریزی میں کہا Has this old man gone mad?'' ''’’کیا یہ بوڑھا پاگل ہوگیاہے‘‘ جنرل یحییٰ خان کا اشارہ صدر ایوب خان کی طرف تھا۔ یحییٰ خان نے گرجدار آواز میں کہا سپیکر کیسے اس ملک کو چلا سکتاہے۔ یہ مشکلات کا شکار ہے۔ سپیکر میں یہ صلاحیت نہیں کہ وہ اس ملک کو چلا سکے۔ صدر کو اقتدار مجھے منتقل کرنا ہوگا۔ جنرل یحییٰ خان کے اس اعلان کے بعد اجلاس ختم ہوگیا۔گوہر ایوب خان نے بطور اے ڈی سی اپنے والد صد ر پاکستان کو رپورٹ کیا جی ایچ کیو میں کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے اُن وزراء اورسیکریٹری صاحبان کو آپ کی صدارت میں دوران اجلاس بھی شریک تھے۔ صاف طورپر کہا ہے کہ صدر کو اقتدار مجھے یعنی کمانڈر انچیف کو منتقل کرنا ہوگا۔ سپیکر اس ملک کو نہیں چلاسکتے ۔ گوہر ایوب کے مطابق میرے والد صدر پاکستان نے یہ سننے کے بعد یہ جملہ کہا’’اگر فوج نے ملک میں مارشل لاء لگانے کا فیصلہ کرلیاہے تو میں کیا کرسکتا ہوں۔ وہ کسی بھی وقت مارشل لاء لگاسکتی ہے۔ اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل یحییٰ خان نے انتخابات نہ کرائے اور نہ اقتدار منتقل ہونے دیا۔ مارچ 1964 ء میں پاکستان میں مارشل لاء لگا دیا گیا۔حالانکہ ایوب خان مشرقی اور مغربی پاکستان کے اُس وقت کے سیاسی لیڈروں سے وعدہ کرچکے تھے کہ وہ بالغ رائے دہی کی بنیاد پر انتخابات کرانے کے بعد اقتدار منتخب نمائندوں کو منتقل کر دیں گے۔