بابا گورونانک کے 552 ویں جنم دن کی تقریبات کے سلسلے میں، ان دنوں ‘ہندوستان سمیت‘دنیابھر سے ، سکھوں کے وفود اور یاتریوں کے قافلے ، پاکستان میں موجود ہیں، اس سلسلے کی مرکزی تقریب، دو روز قبل ‘ جمعۃالمبارک کے روز ، گوردوارہ جنم استھان ننکانہ صاحب میں ہوئی ، جس میں صاحبزادہ پیر نور الحق قادری اور بر یگیڈ ئیر اعجاز احمد شاہ بھی بطور خاص موجود تھے،موسم اور ماحول خوشگوار اور سکھوں کا جوش و جذبہ دیدنی تھا۔وفاقی حکومت کے ساتھ، صوبائی سطح پر ایک ا علیٰ سطحی کمیٹی ، ان کی زیارات کے جملہ امور کو مانیٹرکر رہی اور تقریبات کی بطریق ِ احسن بجاآوری کو ممکن بنانے کے لیے سرگرمِ عمل ہے ، جس کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ سکھ کمیونٹی کے ان مقدس ایام اور رسومات کے بحسن و خوبی انعقاد و اہتمام سے پوری دنیا میں یہ پیغام جاتا ہے کہ پاکستان میں ، اقلیتوں کو اپنی مذہبی اقدار و روایات کو نبھانے بلکہ "Celebrate" کرنے میں ،حکومت کی طرف سے ، یکہ گونہ سہولیات و سرپرستی میسر ہے۔ مذکورہ تقریب میں، کم و بیش بیس ہزار کے قریب سکھ یاتری وہاں موجود تھے۔از حدسرشار... اس امر کے متمنی کہ ویزے کی مدت ازحد محدودہے،پاکستان میں ہمارے قیام میں اضافہ ہونا چاہیے۔ بہر حال۔۔۔ پہلے سکھ گورو‘بابا نانک(1469ء ‘1539ئ) موجودہ ننکانہ صاحب میں‘ایک ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے‘ابتدائی تعلیم مقامی مدرسہ سے حاصل کی اور وہاں کے معلم سید میر حسن اور مولوی قطب الدین سے اکتساب علم کیا‘ان کے والد مہتہ کالو کھترن‘ایک مسلمان راجپوت رائے بلار کے رقبے کے نگران اور مینجر تھے‘ نانک کی شادی سلطان پور لودھی ضلع کپور تھلہ(بھارتی پنجاب) ہو گئی‘ جہاں آپ دولت خان لودھی کے ہاں ملازم ہو ئے۔ ان کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے ،جلد ہی ان کی طبیعت ملازمت سے اْچاٹ ہو گئی‘ ملازمت اور بیوی بچے چھوڑ کر‘ حق کی تلاش میں سرگرداں ہوئے‘ کم و بیش بیس، بائیس سال اسی سیاحت میں صرف ہوئے‘ ہندوستان کے مشرق میں آسام اور مغرب اور جنوب میں سری لنکا تک اور پھر بیرون ملک‘ حجاز مقدس اور بغداد شریف میں زیارات سے مستفیض ہوئے۔واپس آ کر راوی کنارے‘کرتار پور(ضلع نارووال) میں زمین خرید کر ڈیرہ بنایا اور اپنی طبیعت اور طریقت کے مطابق‘ مخلوق خدا کی خدمت کا اہتمام کیا‘سکھ مذہب، دراصل"ہندویت" کے دائرے سے نکلنے ، بلکہ ان کی کوکھ سے جنم لینے والا ، ایک جدید اور اصلاحی گروہ تھا ، جس کے آپ بانی ہوئے ، جنہوں نے ہندومت کے دوبنیادی عقائد، بت پرستی اور اس کی تجسیم اور ذات پات اور اس کی تقسیم، سے انکار کرتے ہوئے ، خدائے واحد کی پر ستش اور انسانی برادری و برابری اور بھائی چارے کے نظریے کو عام کیا ، یہی وجہ ہے کہ سکھ مذہب کے پیروکار مورتیوں کی پوجا نہیں کرتے ، اور نہ ہی ذات پات کی وہ تقسیم، جو بنیادی طور پرھندووانہ ذہنیت اور نظریات کی عکاسی ہے ، پر اعتقاد رکھتے ہیں، وہ انسانی بھائی چارے پریقین رکھتے اوراسکی تلقین بھی کرتے،جیساگوروگرنتھ صاحب کایہ اشلوک : الف اللہ نورسمایا،قدرت دے سب بندے دراصل ھندو ذہنیت تنگ نظر ی اور تعصب کی بنا پر ، اپنے ماحول میں کسی اور سوچ اور فکر کو پنپنے ہی نہیں دیتی ، یہی تنگی اور تنگ نظری سکھ مذہب کی تخلیق اور ترتیب کا ذریعہ بنی اور اس مذہب کے بانی بابا گورونانک نے نہ صرف ہندوأ نہ عقائد و رسومات کا انکار کیا ، بلکہ اسلام اور پیغمبرا سلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ساتھ واضح اور واشگاف اپنی وابستگی کا اظہار یوں بھی کیا: ہندو کاں تے ماریا، مسلمان دی ناں پنج تن کا پتلا، نانک میراناں بلکہ ان کی یہ وابستگی اس حد تک بڑھی کہ ان کی موت کے بعد ان کی تدفین اور آخری رسومات پر مسلمانوں اور ہندوؤں میں نزاع پیدا ہوگیا۔ دفنانے اور جلانے کے اس قضیے میں ان کی میت کے پھول لے کر ہندووں نے جلائے یا مسلمانوں نے دفنائے‘ بہرحال بابا گورو نانک مسلم اور ہندو عوام میں ایک درویش اور فقیر کے طور پر معروف ہو گئے‘ جس کی بابت ایک کہاوت عام ہے: نانک شاہ فقیر‘ہندو کا گورو ‘ مسلمان کا پیر ہمارے عہد کے ترجمان حقیقت علامہ اقبالؒنے اپنے معروف شعری مجموعہ بانگ درا کی نظم ’’نانک‘‘ میں اس حقیقت کی یوں نقاب کشائی کی: بت کدہ پھر بعد مدت کے مگر روشن ہوا نور ابراہیم سے آذر کا گھر روشن ہوا پھر اٹھی آخرصدا‘توحید کی پنجاب سے ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا خواب سے معروف ہندو مورخ گھنیالال نے لکھا کہ:ـ" بعد وفات ان کے ہندوؤں اور مسلمانوں میں درباب(نعش) جلانے یا دفن کرنے پر ، سخت تنازعہ ہوا، کیونکہ مسلمان ان کو جانتے تھے کہ یہ فقیر خد ا پرست ہے ، احوال ان کے ، مطابق قرآن اور حدیث پیغمبر کے ہیں ، جلا دینا ایسے شخص کا سراسر بے ادبی ہے "۔بلکہ اس ضمن میں سردار سنتوکھ سنگھ نے مزید لکھا کہ ـ:" گورونانک جی نے اس دنیا میں تشریف لا کر ، کسی نئے رب العزت کا پتہ نہیں دیا، اور نہ ہی کوئی نیا دھرم چلایا ہے ، بلکہ گورونانک جی نے اس رب العزت کی بات کی ہے ،جس کا ذکر قرآنِ مجید میں ہے "۔ محسن فانی جوکہ مطالعہ مذاہب کے معروف سکالر اور سکھوں کے چھٹے گورو ہر گوبند جی کے ہم عصر ہیں، گورونانک کے بارے میں لکھتے ہیںکہ ;۔ نانک قائل توحید باری بْود منطوقِ شرحِ محمدیست یعنی: گورنانک، خدا کی توحید کے قائل اور (اسی سبب) شریعتِ محمد یہ میں بیان کردہ نظریات کو مانتے تھے۔ سردار گنگا سنگھ ڈھلوںنے اس سلسلے میں "نانک ورثہ" میں جائزہ لیتے ہوئے لکھا ہے کہ :بابا گورونانک نے 1449ء میں جب ایک ہندو گھرانے میں آنکھ کھولی تھی، تو ان کا یہ جنم بھی ایک مسلمان دایہ بی بی دولتاں کے ہاتھوں ہوا، گویا اوائل ہی سے سکھ مسلم تعلقات ایک امرربی ثابت ہوئے ، بابا گورونانک کا نو عمری کا دوست‘ جسکا نام "مردانہ" تھا، زندگی کے آخرتک ، بابا کے ساتھ رہا ، ایمن آباد کے مقام پر بابا گورونانک کی شہنشاہ بابر سے ملاقات‘ سکھ مسلم مفاہمت کی مضبوط روایت تھی، یہ ملاقاتیں شہنشاہ اکبر کے دور تک جاری رہیں، یہ تعلق اور دوستی اس وقت عروج کو پہنچی ، جب پانچویں گرو ارجن دیونے مسلمانوں کے ایک مشہور صوفی بزرگ حضرت میاں میرؒ کو امر تسر میں دربار صاحب(گولڈن ٹمپل) کاسنگِ بنیاد رکھنے کی دعوت دی۔(آج بھی سکھ‘اس عقیدت کو نبھانے‘حضرت میاں میرؒ کے مزار پر کثرت سے حاضری دیتے ہیں) یہ دوستی مزید آگے بڑھی اور اپنے نقطہ کمال کو پہنچی کہ اللہ تعالیٰ اور اکال پورکھ کے ماننے والوں کے ایک بزرگ پیر بدھو شاہ سکنہ ساڈھورا نے سکھوں کے دسویں گورو گوبند جی کے شانہ بشانہ پہاڑی راجوں کے خلاف لڑائی میں حصہ لیا ، اس لڑائی میں پیر جی کے دو بیٹے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد دو پٹھان بھائیوں غنی خان اور نبی خان نے 1706ء میں گوروبند سنگھ جی کو اپنا پیر بنا کر ماچھیواڑہ کے جنگلوں سے محفوظ مقام تک پہنچایا۔