بھارت کی ریاست گجرات کی ایک عدالت نے 2008 میں احمد آباد میں ہونے والے بم دھماکوں میں ملوث 38 افراد کو حال ہی میں سزائے موت جب کہ 11 کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔یہ پہلا موقع ہے جب بھارت کی کسی عدالت نے ایک کیس میں اتنے زیادہ افراد کو بیک وقت سزائے موت سنائی ہے۔ 26 جولائی 2008 کو احمد آباد کے مختلف مقامات پر 70 منٹ کے دوران 22 بم دھماکے ہوئے تھے جن میں 56 افراد ہلاک اور 200 زخمی ہو گئے تھے۔ یہ دھماکے ایک سرکاری اسپتال سمیت بسوں، گاڑیوں اور سائیکل اسٹینڈز پر کیے گئے تھے اور اس وقت ایک غیر معروف تنظیم انڈین مجاہدین (آئی ایم) نے ان دھماکوں کی ذمے داری قبول کی تھی۔اگر واقعی اصل ملزموںکو سزائیں دی گئی ہیں تو دیرسے ہی سہی عدالتی فیصلہ کی ستا ئش کی جانی چاہئے۔ چونکہ ان گنت ایسے واقعات بتاتے ہیںکہ پولیس اصل ملزموں کو گرفتار کرنے کے بجائے معصوم مسلم نوجوانوں کو قربانی کا بکرا بناتی ہے، اسلئے عدالت کے اس فیصلہ کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ ہو رہی ہے۔ پولیس نے الزام لگایا تھا کہ گجرات میں 2002 میں ہونے والے فسادات کا انتقام لینے کے لیے یہ دھماکے کیے گئے تھے۔ پچھلے 25 سالوں میں بھارت میں ہوئے دہشتگردانہ واقعات کی تفتیش اورعدالتی کارروائی ، جن کو میں نے بطور رپورٹر کور کیا ہے، سے معلوم ہوا کہ اصل ملزمان یا تو گرفتار ہی نہیں ہوئے یا ایسے افراد کو پکڑا گیا جن کا ان معاملات سے دور دور تک کا واسطہ نہیں تھا، یا ان کا رول اس حد تک سطحی تھا کہ لاعلمی میں انہوں نے کسی کو کار یا سکوٹر پر لفٹ دی تھی، یا کسی پراپرٹی ڈیلر کے پاس لے جاکر ان کو مکان کرایہ پر دلانے میں مد د کی تھی۔ویسے پچھلے کئی برسوں سے ملی تنظیموں، خاص طور پر جمعیت علماء ہند نے فعال کردار نبھاتے ہوئے ان افراد کیلئے قانونی چارہ جوئی فراہم کی، جس سے اکثر افراد اعلیٰ عدالتوں سے بری ہوگئے کیونکہ ان کے کیس کی اساس ہی جھوٹ پر مبنی تھی۔ ملی تنظیمیں اگر اسی طرح کا رویہ 9/11 کے واقعہ کے فوراً بعد اپناتیں جب کالعدم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پر پابندی لگاکر اس کے اراکین کا قافیہ تنگ کر دیا گیاتھا تو حالات شاید مختلف ہوتے۔ویسے مجھے بھی اندیشہ تھاکہ سیمی کے کچھ جوشیلے نوجوان ضرور انتہا پسندانہ سرگرمیوں میں ملوث رہے ہونگے اور حکومت کے بیانات میں کہیں نہ کہیں کوئی صداقت تو موجود ہوگی مگر جب 2012میں دہلی میں عدالتی ٹربیونل میں سیمی پر پابندی سے متعلق سماعت میں نے مسلسل کئی ماہ تک بطور صحافی کور کی تو کئی ہوشربا انکشافات سامنے آئے ۔دہلی ہائی کورٹ کے جج جسٹس وی کے شالی کی صدارت والا یہ ٹربیونل سیمی پر عائد پابندی کو برقرار رکھنے کے جواز پر ساتویں مرتبہ سماعت کررہا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ کارروائی کے دوران مہاراشٹر کے علاقہ شولا پور میں وجے پور کے انسپکٹر شیواجی تامبرے نے ایک حلف نامہ دائر کیا تھا ،جس میںبتایا گیا کہ سیمی کے کچھ مبینہ کارکنوں کے گھروں پر جب انہوں نے چھاپے مارے تو وہاں سے اردو میں لال روشنائی سے تحریر کردہ ایک دستاویز ملی جس پرایک شعر درج تھا۔ موج خوں سر سے گزر ہی کیوں نہ جائے آستا ن یا ر سے اٹھ جائیں کیا غالب کے اس شعر کا انسپکٹر تامبرے نے مراٹھی ترجمہ کچھ یو ں کیا تھا’’رکتچی لات دوکیا پسن کا جینا‘ متراچیہ امبراتھیاپسون اتھن کا جینا‘۔ انسپکٹر تامبرے نے گواہی دیتے ہوئے کہا کہ یہ شعر ہندووں کے خلاف مسلمانوں کے جذبات کو برانگیختہ کردیتا ہے۔ ایک اور حلف نامہ میں یہ الزام لگایا گیا تھا کہ سیمی مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش کررہی ہے۔اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز حیدرآبادکے سعیدآباد تھانے کے انسپکٹر پی دیویندر کا حلف نامہ تھا ۔ جن کا اصرار ہے کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سیمی کی ایک ذیلی تنظیم ہے۔ دیویندر کا کہنا ہے کہ سیمی اتنی خطرناک تنظیم ہے کہ لشکر طیبہ جیسی تنظیمیںبھی اسی کے تحت کام کرتی ہیں ۔ جب وکیل دفاع نے ان سے پوچھا کہ آئی ایس آئی سے ان کی کیا مرادہے تو انہوں نے سینہ ٹھونک کر کہا کہ’’ میں اپنے اس بیان پر قائم ہوں کہ پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی دراصل سیمی کے اشاروں پر ہی کام کرتی ہے۔‘‘۔ گھاٹ کوپر تھانہ ممبئی کے اس وقت کے تفتیشی افسر ادے سنگھ راٹھورنے اپنے حلف نامے میں لکھا کہ سیمی کے مبینہ کارکن شبیر احمد مسیح اللہ (مالیگائوں) اورنفیس احمد انصاری (ممبئی) واضح طور مہاراشٹر کو ملک سے الگ کرنے کی سازش میں ملوث پائے گئے ہیں۔ انسپکٹر کے مطابق ان لوگوں کے پاس سے جو قابل اعتراض مواد برآمد ہوئے تھے وہ سرورق کے بغیر اردو کا ایک رسالہ ہے۔ یہ رسالہ دہلی کی سرکاری اردو اکادمی کا’’ ماہنامہ امنگ‘‘ تھا ۔ جسے اکادمی بچوں کے لئے شائع کرتی ہے۔جب راٹھور سے جرح کی گئی تو انہوں نے یہ تسلیم کیا کہ اس رسالہ میں بچوں کے لئے مضامین اور کہانیاں ہیں لیکن ان کا اصرار تھا کہ ایسے ہی رسائل کے ذریعہ انتہاپسند اپنے خیالات ‘ افکار و نظریات دوسروں تک پہنچانے کا وسیلہ بناتے ہیں۔اسی طرح ایک اور حلف نامے میں کھنڈالہ پولیس ٹریننگ سکول کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ وشنو بابو راو جگ تاپ کہتے ہیںکہ جب وہ شولا پور کے صدر بازار تھانے میں انسپکٹر تھے تو تفتیش سے ان کو معلوم ہوا کہ سیمی کا حتمی مقصد ملک میں اسلامی تعلیم کو پھیلانا ہے۔ جس کے لئے وہ نفاق ‘ سریہ اور جہاد کا سہار ا لے رہے ہیں۔جب ان سے پوچھا گیا کہ’ سریہ‘ کس زبان کا لفظ ہے اور اس کا کیا مطلب ہے تو جگ تاپ نے کہا کہ سریہ اردو یا فارسی کا لفظ ہے جس کا مطلب لوگوں سے غیر قانونی طور پر پیسے اینٹھنا ہے۔ان عجیب و غریب حلف ناموں اور جرح کے دوران پولیس افسران کے بیانوں سے کبھی کبھی تو جج صاحب بھی ان پر برس پڑتے تھے مگر جب فیصلہ کی گھڑی آئی تو انہوں نے پابندی برقرار رکھی۔ 2006میںممبئی کے سلسلہ وار لوکل ٹرین بم دھماکوں جن کو 7/11کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے کے مقدمے سے اکلوتے بری ملزم عبدالواحد شیخ نے اپنی کتاب بے گناہ قیدی میں تحریر کیا ہے کہ کس طرح بے گناہ مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے واقعات میں ملوث کیا جا تا ہے۔ انہوں نے تفصیل کے ساتھ جھوٹی گواہیاں گھڑنے اور پولس کے ذریعے جھوٹے شواہد اور ثبوتوں کو جمع کرنے کے طریقہ کار پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ وہ لکھتے ہیں ’’پولیس افسران نے کچھ لکھے ہوئے ، کچھ ٹائپ کئے ہوئے کاغذات ملزم کے سامنے بڑھادیئے کہ دستخط کرو۔ کسی ملزم نے کہا کہ مجھے پڑھنے دیا جائے تو ڈپٹی کمشنر پولیس نے انکار کردیا ور اے ٹی ایس( اینٹی ٹیررسٹ اسکاڈ) والوں کو اشارہ کرکے کہنے لگا کہ تم لوگوں نے اس کو برابر گرم(ٹارچر) نہیں کیا ہے۔‘‘ اس وقت کے اے ٹی ایس سربراہ پی رگھوونشی اور گجرات پولیس کے ایک افسر ڈی جی وانجارا کی ’ سرگرمیوں‘ کا بھی ذکر ہے، کہ و ہ کس طرح اقبال جرم کرواتے تھے۔ (جاری ہے)