اسلامی نظام رحمت کے ضد میں مغرب نے جمہوریت کو لاکھڑا کیاچونکہ اسلامی نظام کامرجع اورمرکز رب العالمین کی ذات ہے اس لئے اس کی زمین پراسی کانظام نافذہوگااس کے مقابل مغرب جمہوری نظام کو سامنے لایا۔ جمہوریت کا لفظ درحقیقت انگریزی لفظ(Democracy) جس کی تعریف عوام کی حکمرانی،عوام کے ذریعے، عوام پرحکمرانی ہے۔رائج الوقت جمہوریت مغرب کے بطن سے پھوٹی ہے یورپ کادعوی ہے اس نظام سے انسانیت کومطلق العنانیت، ڈکٹیٹر شپ،آمریت،اور کلیسا کے ظالما نہ اور وحشیانہ نظام سے نجات دلائی ۔مغرب اوردنیامیں مغرب زدہ مسلمان جمہوریت کوجس طرح چاہیں پالش کرکے سامنے سجاکررکھیں لیکن اس پر اس نظام میںسب سے بڑی خرابی موجودہے جسے حضرت اقبال نے طشت ازبام کیا: جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے ظالم اورجابر بھارت نے برطانیہ سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سب سے پہلے جو کام کیاوہ یہ کہ ریاست جموںوکشمیرجوایک الگ ریاست کے طورپراپناوجود رکھتی تھی وہاںاپنی فوجیں اتار کراس سرزمین کے باسیوںکی آزادی پرشب وخون مارا۔المیہ یہ ہے کہ اس کے باوجود وہ خودکودنیاکی بڑے جمہوری ملک کے طور پرپیش کرتارہااور دنیاکو شیشے میں اتارنے میں کامیاب بھی ہواکیونکہ دنیا اسے جمہوری ملک کے طورپر تسلیم کررہی ہے ۔اسے کوئی نہیں پوچھتاارے یہ تو کیساجمہوری ملک ہے جہاں ریاست جموںوکشمیرپرجابرانہ قبضہ اورجارحانہ تسلط ہے ۔ 1935ء میں انگریزی حکومت کا بنایا ہوا قانون برصغیر میں نافذ تھا اور 1947 متحدہ ہندوستان کے دو حصے ہونے اورمملکت پاکستان کا قیام عمل میں آنے کے بعد 26جنوری 1950ء کوبھارت کاآئین بنا،اسے دستور ہند کا نام دیاگیا اوریہ بھارت میں فوری طورپرنفاذ عمل ہوا،اس میں بلندبانگ دعوے کئے گئے جن میںایک یہ کہ اس ملک میںجمہوریت کو فوقیت ہو گی اوربھارت کانظام جمہوری بنیادوں پراستوار ہوگا۔کہاگیا کہ اس دستور کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں ہر لحاظ سے ملک کے تمام باشندوں کے مذہبی،قومی ،نظری،تمدنی وتعلیمی اور معاشی وسیاسی حقوق کا تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ اس میںبتایا گیا ہے کہ یہ ملک مذہب کی بنیاد پر حکومت نہیں کرے گا،دستور کی 42ویں ترمیم کی رو سے اسے ’’سیکولر سٹیٹ،، کہا گیا ہے جہاں ہر مذہب کا احترام ہوگا اور مذہب کی بنیاد پر کسی قسم کا کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جا ئیگا۔ مذہب یا ذات پات کی بنیاد پر کسی شہری کو شہریت کے حقوق سے محروم نہیں کیا جائیگا اور ہر شہری کو ملکی خدمات سے فائدہ اٹھانے کا پورا موقع ملے گا اور ہر ہندوستانی شہری قانون کی نگاہ میں برابر ہو گا۔ہر شہری کو آزادی رائے،آزادی خیال اور آزادی مذہب حاصل ہو گی۔اس دستور میںاقلیتوں کو ان کا حق دیا گیا ہے کہ وہ اپنے علیحدہ تعلیمی ادارے قائم کریں، اپنی تہذیب وتمدن اور زبان کو قائم رکھیں،اور اپنے مذہب کی اشاعت کریں،اس غرض کے لیے اپنی منقولہ وغیر منقولہ جائیداد کا انتظام کریں،ساتھ ہی یہ صراحت بھی کی گئی کہ کسی ایسی آمدنی پر ٹیکس دینے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا،جو کسی مذہب کی تبلیغ و اشاعت پر خرچ کیا جائے دوسرے لفظوں میں اوقات،مساجد،مدارس کی جائیداد اور ان کی آمدنی پر ٹیکس نہیں لگایا جا سکتا،اسی طرح شخصی آزادی کا تحفظ متعدد دفعات کے ذریعے کیا گیا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے پر کسی شخص کو مقدمہ چلائے اور صفائی پیش کئے بغیر کسی قسم کی سزا نہیں دی جا سکتی۔ مگر عملی طور پرہمیشہ مسلمانان بھارت کے حقوق اوران کے معامالات پرسخت بریک لگائی گئی جس سے مسلمانان بھارت کی زندگیاںپھیکی،بے نور اور بے کیف ہوتی چلی گئیں۔ وہ زعفرانی فسطائیت کے سامنے شکست وریخت سے دوچار ہوئے، نہیں زندہ لاشیں قرار دے کر زندگی کے ہرمیدان سے باہر دھکیلا گیا۔ بھارتی مسلمانوں کی زندہ لاشوں کے سامنے بھارت کی جمہوریت کے جشن ان کے ساتھ بہت بڑا اورسنگین مذاق ۔ مسلمانان بھارت کے ساتھ روز اول سے ہی تعصب ،نفرت اورامتیازی سلوک اور غیر منصفانہ رویہ جاری ہے اور اب تو اس میں اس قدر شدت آئی ہے کہ اس کا پورا ڈھانچہ زیر وزبر ہوکر رہ گیا ہے۔ حکومت عوام کی نہیں بلکہ زعفرانی طبقے کے لئے مخصوص ہوچکی ہے، جن کا نصب العین اور ہدف یہ ہے کہ بھارت سے مسلمانوں کاصفایاکیا جائے ۔زعفرانی طبقہ اپنے بے شمار مکر وفریب کے ذریعے بھارت پر قابض ہوکر اپنے نازی ازم کے خاکے میں رنگ بھررہاہے۔ہر طرف خوف کا ماحول ہے،قتل وخون ریزی عام ہے۔ بھارتی مسلمان پرغربت کے سائے ہر سو پھیل چکے ہیں افلاس کی دھوپ کی وہ شدت ہے کہ بے شمار زندگیاں روزانہ دم توڑ رہی ہیں۔ ایسی صورت میں اگر جمہوریت کے نام پر جشن کا اہتمام کیا جائے تو کس منہ سے؟ کس طرح سے اس تعفن زدہ فضا میں مسرتوں کا چراغ جلایا جائے، خوشیوں کا اظہار نفرت بھرے ماحول اور متعصبانہ حالات میں کیسے ممکن ہے؟جبر کے ماحول میں اور استبدادی نظام میں اظہار مسرت محض بے روح لفظ،بے کیف ترانے اور ظالمانہ حاکمیت کے نتیجے میں دم توڑتی ہوئی جمہوریت کے نوحے ہوتے ہیںاورجب اس ظالمانہ،جابرانہ امتیازانہ اور متعصبانہ تفریق کو جمہوری قانون کا نام دیا جائے توپھر شیطان بھی کان پکڑنے پرمجبور ہو گا ۔ رائج الوقت جمہوریت کی بڑی خرابی یہ ہے کہ تمام فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں چونکہ بھارت میں ہندئووں کی اکثریت ہے جس کے نتیجے میں اس طرح اقلیتوں کے حقوق سلب کئے گئے کہ انسانیت چیخ اٹھی۔ہمیشہ مسلمانوں پر ظلم روا رکھا گیا، ان کی عزتوں کو پامال کیا گیا،معاشی لحاظ سے انہیں زوال کے گڈھے میں دھکیلا گیا، انہیں اچھوت بنایا گیا،ان کے خلاف ظلم کے ہتھکنڈے استعمال کئے گئے،ان پر گوشت کی پابندیاں لگائی گئیں، گائے کے نام پر جگہ جگہ نہتے اور غریب لوگوں کو عوامی بھیڑ کے ذریعے مارا گیا، دہشت گردی کے نام پر جیلوں میں بند کیا گیا، ہزاروں نوجوانوں کو پولیس نے دہشت گردی کی آڑ میں گولیوں کا نشانہ بنایا۔عزت مآب مسلمان خواتین برائے فروخت کے اشتہار سوشل میڈیاپرچلائے گئے۔ بھارتی مسلمان کے خلاف دہشت گردی کا ہوا کھڑا کیا گیااوراس کی آڑ میں اس کی تذلیل کی گئی ان کاتجارتی مقاطعہ کیاگیا۔ کورونا وائرس کو مسلمانوں کاپیداکردہ بتایاکر بھارت کے مسلمانوںکے ساتھ سرکاری اورغیرسرکاری سطح پرجو رویہ رہا ہے وہ سب جانتے ہیں۔ فسطائیت اور نازی ازم کے وہ نمونے دکھائے اور نفرت وامتیاز کا وہ خونیں رقص کیا کہ مسولینی کا کردار بھی پھیکا پڑ گیا۔