انتخابات کا ہنگام سر پہ ہے ۔نگراں حکومتیں بننے جارہی ہیں۔ پنجاب میں سابق چیف سیکریٹری ناصر کھوسہ نگراں وزیر اعلی ہونگے جو شہباز شریف کے بہت قریبی ساتھی تصور کئے جاتے ہیں۔ تحریک انصاف پنجاب کے صدر محمود الرشید نے ان کے نام پہ کیونکر اتفاق کیا یہ وہی بتا سکتے ہیں۔یہ وجہ تو نہیں ہوسکتی کہ وہ جسٹس طارق کھوسہ کے بھائی ہیں جو پاناما کیس کے اس پانچ رکنی بینچ کے سربراہ تھے جس نے وزیر اعلی شہباز شریف کے بھائی سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف نااہلیت کا فیصلہ دیا تھا۔ان کے اختلافی نوٹ کا متن بہت مشہور ہوا جس میں انہوں نے نواز شریف کو گاڈ فادر سے تشبیہہ دی ور کہا کہ وہ صادق اور امین نہیں رہے۔ان کے اس فقرے کی کاٹ ابھی تک سابق وزیر اعظم محسوس کرتے ہیں۔پنجاب کے نگراں وزیر اعلی ناصر کھوسہ البتہ پنجا ب بیورو کریسی میں کلیدی عہدوں پہ فائز رہے اور نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کے چہیتے رہے۔ متفق علیہ نگراں وزیر اعظم جسٹس ناصر الملک وہی ہیں جن پہ ایک بہادر آدمی کا الزام ہے کہ وہ عمران خان کے دھرنے کے دوران اسمبلیاں توڑنا اور عدالتی مارشل لا لگانا چاہتے تھے۔اس مرد قلندر کی ایک پشین گوئی تو پوری ہو جائے گی۔اسمبلیاں ٹوٹ جائیں گی اور جسٹس ناصر الملک نگراں وزیر اعظم بن جائیں گے۔دوسری پشین گوئی پوری ہونے کا کوئی امکان نہیں۔انتخابات ہونگے اور وقت پہ ہونگے۔ ایک حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرے گی اور دوسری حکومت آئینی طور پہ آجائے گی۔ جمہوریت کا تسلسل جو غالباً سول حکومتوں کی اولین ترجیح ہے،قائم رہے گا۔معلوم ہوتا ہے نااہل وزیرا عظم کا دکھ بھی یہی ہے کہ انہیں نکالا تو گیا لیکن ویسے نہیں جیسے حسرت نکلتی ہے۔مرشدی یوسفی کو اپنے بینک کی طرف سے فرض منصبی کی ادائیگی کے لئے چمڑے کے گودام کا معائنہ کرنے جانا پڑا۔چمڑے کے گوداموں میں جو تعفن اٹھتا ہے اسے وہی جانتا ہے جس نے کبھی وہاں کام کیا ہو یا اس کے بینک نے ڈوبی ہوئی رقومات کی وصولیابی کے لئے اسے اس طرف ہانک دیا ہو۔یوسفی صاحب لکھتے ہیں کہ گودام کا معائنہ کرنے کے بعد ہفتوں دماغ اور اس کے متعلقات میں کچے چمڑے کی بدبو بسی رہی جو اس وقت نکلی جب انہیں سرخ مرچوں کے ایک گودام کا معائنہ کرنے بھیج دیا گیا جس کا مالک برسوں سے بینک کا قرضہ دبائے بیٹھا تھا اور اب دیوالیہ ہونے کی اداکاری کررہا تھا۔سرخ مرچوں کی ڈھانس نے چھنکوا چھنکوا کر چمڑے کی بدبو تو نکال دی لیکن وہ حسرت کی طرح نکلی۔یعنی ویسے نہیں نکلی جیسے نکلنی چاہیے تھی۔ سابق نا اہل وزیر اعظم سے زیادہ کون جانتا ہے کہ بوئے گل، نالہ دل اور دود چراغ محفل کی طرح اس بزم سے جو نکلا پریشاں ہی نکلا۔وہ ویسے نہیں نکلے جیسا کہ نکلنا چاہتے تھے اور یہی ان کی بے تابی کی وجہ ہے۔اس کے لئے وہ کبھی سول بالادستی کا شوشہ چھوڑتے ہیں تو کبھی پاکستان پہ ممبئی حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔کبھی نیب کے اس چیئرمین پہ برستے ہیں جو انہوں نے خود ہی تعینات کیا تھا اور کبھی عین وقت پہ ان کے بیانیے کو تقویت دینے کے لئے جنرل اسد درانی بھارتی را کے چیف کے ساتھ ایک جوائنٹ وینچر لکھ ڈالتے ہیں جو مارکیٹ میں آنے سے پہلے ہی فحش لطیفے کی طرح وٹس ایپ پہ پھیل جاتی ہے۔یہ وہی اسد درانی ہیں جو اصغر خان کیس میں ملوث ہیں اور ان کا جمہوری تسلسل کی روانی میں ریکارڈ اچھا نہیں ہے۔ممکن ہے ایک جمہوری حکومت کے خلاف رشوت کالین دین اس وقت جائز ہو کیونکہ بات ملکی سالمیت کی تھی۔بے نظیر اور ان کے وزیر داخلہ اعتزاز احسن پہ سکھوں کی فہرست بھارت کے حوالے کرنے کے سنگین الزامات تھے۔حب الوطنی کے تقاضے تو کچھ اور تھے۔ایسی غیر محب وطن حکومت کا ٹرائل ہونا چاہئے تھا اور اس کے خلاف جذبہ حب الوطنی اور غیرت ایمانی سے سرشار سیاست دانوں اور خاکی وردی پوشوں کو فی سبیل اللہ ایک ہوجانا چاہئے تھا۔عشق معشوقی میں لین دین کیسا ۔لیکن طرفہ تماشہ یہ تھا کہ سیاست دانوں سے زیادہ کچھ اور لوگوں نے پیسے بٹورے تھے۔ان میں مرزا اسلم بیگ کی تنظیم فرینڈز کو تین کروڑ ملے جبکہ ملٹری انٹیلیجنس کوئٹہ، سرحداور پنجاب کو دو دو کروڑ دیے گئے۔ باقی رقم سود سمیت جی ایچ کیو بھیج دی گئی۔سیاست دانوںمیں بڑے بڑے شرفا شامل تھے۔ سول بالادستی کا غوغا مچانے والے نواز شریف نے ساٹھ لاکھ اور بہادر آدمی جو باغی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ،کروڑوں میں رقم وصول کی۔یہاں سوال یہ نہیں کہ کس نے کتنی رقم وصول کی۔ سوال یہ ہے کہ کیوں کی؟تب جمہوری عمل میں خلائی مخلوق کا عمل دخل جائز کیوں تھا اور اب بیانیہ کیوں بدل گیا ہے؟نواز شریف ماضی کو بھلا کر نظریاتی ہوگئے ہیں لیکن پیپلز پارٹی ماضی کو کیسے بھلائے۔کل اگر بے نظیر سکیورٹی رسک تھیں تو آج نواز شریف سیکوریٹی رسک کیوں نہیں ہوسکتے جبکہ وہ کھلے بندوں پاکستان کو ممبئی حملوں میںملوث کرنے کے لئے خصوصی طیارہ بھیج کر انٹرویو دلواتے ہیں۔تین تین دن ایک ایسی پریس کانفرنس کی تیاری کرتے ہیں جس کے مندرجات کی گونج پاکستان سے پہلے پڑوس میں سنائی دیتی ہے۔بے نظیر بھٹو پہ سکھوں کی فہرست بھارت کے حوالے کرنے کا الزام ہی تھا جس کی تردید میجر عامر نے بعد میں کی تھی اور کہا تھا کہ آئی ایس آئی ایسی کوئی فہرست بے نظیر یا اعتزاز احسن کے حوالے کیوں کرتی کہ وہ اسے بھارت کے حوالے کردیں؟روف کلاسرا نے اپنے ایک کالم میں میجر عامر کی اس گفتگو کا ذکرکیا ہے۔ اگر میجر عامر نے ایسا کہا تھا تو دنیا کی بہترین انٹیلی جنس ایجنسی کے بہترین دماغ نے کچھ پہلو دار بات کی ہے جس کا ایک مطلب تو یہ نکلتا ہے کہ ملک کا وزیر داخلہ بہت سی اہم معلومات پہ اختیار نہیں رکھتا۔اسے علم نہیں تھا کہ ایسی کوئی فہرست موجود تھی اور دوسرا مطلب یہ نکلتا ہے کہ اگر ایسی کوئی فہرست تھی تو وہ کیوں ان کے حوالے کی جاتی۔کیا فوج کو اپنی حکومت پہ بھروسا نہیں تھا کہ یہ فہرست ان کے حوالے کی گئی تو وہ لازماً اسے بھارت کے حوالے کردیں گے۔بعد میں آئی ایس آئی کے ایک اور سابق سربراہ نے ایک نجی محفل میں اس الزام کی تردید کی اور کہا کہ بے نظیر جنرل کلو کو آئی ایس آئی کا سربراہ لگانا چاہتی تھیں اور بات بس اتنی تھی۔خود آئی ایس آئی کے پاس ایسی کوئی لسٹ موجود نہیں تھی۔جب ان سے پوچھا گیا کہ پھر سکھوں کو چن چن کر کیسے قتل کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ سکھ جھتوں کے ظلم سے تنگ مقامی آبادی نے مخبری کی تھی۔ جب محفل میں موجود رضا ربانی نے موصوف سے کہا کہ کیا آپ اس بیان کو سرکاری بیان کی صورت دے سکتے ہیں تاکہ پیپلز پارٹی سے یہ داغ دھلے تو وہ بات کو ٹال گئے۔بعد ازاں بھارتی ایجنسی را کے ایک ریٹائرڈ افسر نے اپنی کتاب میں اس الزام کو دہرایاکہ کس طرح پاکستان کی حکومت نے آئی ایس آئی کی منظوری سے سکھوں کو بھارت کے حوالے کیا تھا۔ جنرل حمید گل نے اس کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔اگر ایسا کچھ نہیں ہوا تھا تو ایک منتخب جمہوری حکومت پہ ایسا سنگین الزام کیوں لگایا گیا اور سینیٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام پہ دیدہ بر آب ہونے والے چیئرمین رضا ربانی نے اپنی دو حکومتوں کے ادوار میں اپنی لیڈر اور پارٹی سے اس داغ کو دھونے کی کوشش کیوں نہیں کی۔مشاہد اللہ خان، زرداری کے دور میں اسمبلی میں ہر بار اعتزاز احسن پہ یہ الزام لگاتے رہے انہوں نے کوئی قانونی کارروائی کی تو میرے علم میں نہیں ہے۔اعجاز الحق اور چوہدری نثار آج بھی دھڑلے سے اس الزام کو دہراتے ہیں لیکن جوابی الزام کے سوا کسی کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ ہاں ایل پی جی کے کوٹے ہیں جو اسی دور میں لئے گئے تھے ۔شاید وہی زبان پہ قفل لگادیتے ہوں۔اگر حب الوطنی کے سرٹیفیکیٹ کہیں اور سے تقسیم ہوتے ہیں تو سول بالادستی کے علمبردار سیاست دان ہر بار ایک دوسرے کے خلاف گواہ کیوں بن جاتے ہیں۔موجود ہ حالات میں بھی یہی ہوا ہے۔ نواز شریف پہ غداری کا نہیں بدعنوانی کا الزام تھا جو ملک کی کسی عدالت نے نہیں لگایا تھا بلکہ ایک عالمی اسکینڈل کا نتیجہ تھا۔اس کا منطقی نتیجہ جب حسب منشا نہ نکلا تو وہ گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں جن کی تدفین خود موصوف نے بڑے اہتمام سے کی تھی۔ پاناما کیس سول بالادستی یا اسٹیبلشمنٹ کی من مانیوں کا کیس نہیں تھا لیکن پے درپے ایسی حرکتیں کی گئی ہیں جن سے یہ مقدمہ عوام کی عدالت میں غداری کا مقدمہ بن سکے اور تاثر یہ دیا جائے کہ چونکہ وہ اتنے غیرت مند اور کسی سے نہ دبنے والے تھے کہ انہیں برداشت کرنا ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے لئے مشکل ہوگیا تھا۔ پروپیگنڈاا سی کو کہتے ہیں اور یہ بڑی کامیابی کے ساتھ جاری ہے۔نواز شریف نے اسٹیبلشمنٹ کے سائے میں پل کر اسی کے ساتھ کھیلنا سیکھ لیا ہے ۔