ایک جانب پاکستان کو معاشی حالات میں بدترین چیلنجز کا سامنا ہے تو دوسری طرف غیر ہنر مند افراد کی بڑھتی ہوئی بے روزگاری نے مالی مسائل کو بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ، رہی سہی کسر بڑھتی مہنگائی نے پوری کردی ہے۔ یہ بھی ایک المیہ ہے کہ وطن عزیز کو جتنے ماہر دماغوں کی اس وقت ضرورت ہے اس کا فائدہ اٹھانے کے وسائل نہیںاور ماہرین کی بڑی تعداد بھی اپنی مدد آپ کے تحت مستقبل کو محفوظ بنانے کے لئے بیرون ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ افرادی قوت میں پاکستان مزدور برآمد کرنے والا ملک ہے جس کے شہریوں کی بڑی تعداد بیرون ملک کام کرتی ہے۔ حالیہ برسوں میں خلیجی ریاستوں بالخصوص سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں پاکستانیوں کی ہجرت میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ بیورو آف امیگریشن اینڈ اوورسیز ایمپلائمنٹ کے مطابق رواں برس کے پہلے چھ ماہ میں 4 لاکھ سے زائد پاکستانی خلیجی ریاستوں میں منتقل ہوئے۔یہ تعداد اس حوالے سے اہم ہے کہ لاکھوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا تھا لیکن ان کے پاس اپنے کام کی استعداد کو ثابت کرنے کے لئے پیشہ وارانہ دستایزات نہ ہونے کی وجہ سے بہتر ملازمت کے حصول میں مسائل کا سامنا بھی ہے۔ پاکستانی مزدور طبقہ جسمانی مشقت کے کاموں کے لئے خلیجی ریاستوں کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ وہ تعمیراتی کارکنوں، ڈرائیوروں، ڈاکٹروں، نرسوں اور انجینئروں سمیت متعدد ملازمتوں کو بھرنے کے لیے پاکستانی کارکنوں پر انحصار کرتے ہیں۔ پاکستانی مزدور خلیجی ریاستوں کی معیشتوں میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ تعمیراتی کارکنوں، ڈرائیونگ ایسے شعبے ہیں جہاں تعلیم کی ضرورت کم پڑتی ہے ، یہی وجہ ہے کہ خلیجی ممالک میں محنت کش طبقہ کم تنخواہ حاصل کرتا ہے ، جوپاکستان کے مقابلے پھر بھی زیادہ اور پر کشش ہے تاہم اس کے باوجود پاکستانیوں کے بیرون ممالک جانے کے کئی عوامل ہیں۔ سب سے اہم عوامل میں سے ایک پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے درمیان معاشی تفاوت ہے۔ خلیجی ریاستیں نسبتاً امیر ممالک میں شامل ہیں، جہاں اجرتیں زیادہ ہیں اور بے روزگاری کی شرح کم ہے۔ اس کے برعکس، پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جس کا معیار زندگی نسبتاً کم ہے اور بے روزگاری کی شرح زیادہ ہے۔ یہ اقتصادی تفاوت خلیجی ریاستوں کو پاکستانی محنت کشوں کے لیے بہت پرکشش مقام بناتا ہے۔ایک اور اہم عنصر جو پاکستانیوں کی خلیجی ریاستوں کی طرف پاکستان میں روزگار کے مواقع کی کمی بھی ہجرت کا باعث بنتا ہے ۔ پاکستان کی معیشت مشکلات کا شکار ہے، اور اچھی ملازمتوں کی کمی ہے۔ یہ بہت سے پاکستانیوں کو بیرون ملک ملازمت کی تلاش پر مجبور کرتا ہے۔ خلیجی ریاستوں میں پاکستانیوں کی ہجرت کے خارجہ پالیسی پر بہت سے مضمرات ہیں۔ سب سے پہلے، یہ پاکستان اور خلیجی ریاستوں کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا ہے۔ دوسرا، یہ پاکستان کو زرمبادلہ کی ترسیلات کا ایک انتہائی ضروری ذریعہ فراہم کرتا ہے۔ تیسرا، اس سے پاکستان میں بے روزگاری کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔ تاہم خلیجی ریاستوں میں پاکستانیوں کی نقل مکانی سے وابستہ کچھ چیلنجز بھی ہیں۔ ایک چیلنج یہ ہے کہ بہت سے پاکستانی مزدور کم اجرت اور کم ہنر مند ملازمتوں میں کام کر رہے ہیں۔ یہ استحصال اور زیادتی کا باعث بن سکتا ہے۔ ایک اور چیلنج یہ ہے کہ پاکستانی ورکرز اکثر اپنے خاندانوں سے طویل عرصے تک الگ رہتے ہیں۔ اس کے منفی سماجی اور نفسیاتی نتائج مرتب ہوتے ہیں۔ انہی مسائل میں کچھ ایسے ممالک ہیں جہاں محنت کشوں کو اپنے معاوضے کے حصول کے لئے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ملکی قوانین سے ناواقفیت بھی ان کے مسائل میں اضافہ کرتی ہے ، پاسپورٹ کی ضبطی سمیت نقل و حرکت میں سخت پابندیوں کی وجہ سے بھی انہیں کسی اچھی ملازمت کے لئے غیر قانونی راستے اختیار کرنا پڑتے ہیں اور سخت نگرانی کے قوانین کی وجہ سے آخر کار ملک بدری سمیت سرمایہ ڈوبنے کا باعث بھی بنتے ہیں۔ حکومت کو خلیجی ریاستوں میں پاکستانیوں کی ہجرت سے جڑے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے اوراپنی افرادی قوت کی مہارت اور علم کو بہتر بنانے کے لیے تعلیم اور تربیتی پروگراموں میں سرمایہ کاری کرنی چاہیے۔ اس سے پاکستانی ورکرز عالمی لیبر مارکیٹ میں زیادہ مسابقتی ہوں گے اور کم اجرت اور کم ہنر مند ملازمتوں پر ان کا انحصار کم ہو جائے گا۔ پاکستانی حکومت کو خلیجی ریاستوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہیے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ پاکستانی کارکنوں کے ساتھ منصفانہ اور احترام کے ساتھ برتاؤ کیا جائے۔ اس میں یہ یقینی بنانا شامل ہے کہ انہیں مناسب اجرت دی جائے، کام کرنے کے محفوظ حالات ہوں، اور صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم جیسی بنیادی خدمات تک رسائی حاصل ہو۔ حکومت کو اس رجحان سے جڑے چیلنجوں اور مواقع سے نمٹنے کے لیے ہجرت سے متعلق ایک جامع پالیسی تیار کرنی چاہیے۔ اس پالیسی میں بیرون ملک پاکستانی کارکنوں کے حقوق کے تحفظ کے ساتھ ساتھ ترسیلات زر اور ہنر اور علم کی منتقلی کے ذریعے پاکستان کی پائیدار ترقی کو فروغ دینے کے اقدامات شامل ہونے چاہئیں۔یہ اقدامات اٹھا کر، پاکستانی حکومت اس بات کو یقینی بنا سکتی ہے کہ اس کے شہریوں کی خلیجی ریاستوں میں منتقلی سے مزدوروں کو خود اور پورے ملک کو فائدہ پہنچے۔ موجودہ حالات میں زر مبادلہ کے لئے تارکین وطن کی جانب سے ترسیلات زر نے ملک کو ڈیفالٹ ہونے سے بچائے رکھا ہے اور آنے والے برسوں میں زر مبادلہ کے لئے یہی ایک ایسا راستہ ہے جو ملک کی قسمت کا فیصلہ کرسکتا ہے۔ افغانستان ، بنگلہ دیش اور سری لنکا اپنی کمزور معیشت کو سنبھالنے کے لئے تارکین وطن کی جانب سے بھیجے جانے والے زر مبادلہ پر انحصار کررہے ہیں ، پاکستان کو ہنگامی بنیادوں پر معیشت کی بہتری کے لئے افرادی قوت سے فائدہ اٹھانا ہوگا ۔