ونجارانے پوچھ تاچھ کے دوران ان کو بتایا ’’ ہم کسی مسلمان کو پکڑتے ہیں تو اس کو گولی سے اڑادیتے ہیں ۔‘‘ اپنی کتاب میں انہوں نے اسسٹنٹ کمشنر پولیس ونود بھٹ کی سنسنی خیز خودکشی کا بھی ذکر کیا ہے۔ اگست 2006ء کے آخری ہفتے میں ایک ملزم احتشام کو بھٹ کے سامنے لے جایا گیا، جس نے ان کو بتایا کہ پولیس نے جن افراد کو گرفتار کیا ہے ان میں کوئی بم دھماکوں میں ملوث نہیں ہے۔ بھٹ نے یہ بھی بتا یا کہ پولیس کمشنر اے این رائے اور اے ٹی ایس چیف کے پی رگھوونشی ان پر سخت دباو ڈال رہے ہیں۔ گرفتار شدہ مسلم نوجوانوں کے خلاف چارج شیٹ تیار کرکے کورٹ میں داخل کرو ں ۔ مگر اس نے ان کو تسلی دی کہ وہ انصاف کا خون ہونے نہیں ہونے دینگے۔ اس واقعے کے کچھ دن بعد ونود بھٹ نے خودکشی کرلی۔ 2002 میں گجرات کے شہر احمد آباد کے قلب میں واقع اکشر دھام مندر کے حملہ کی تفتیش نے تو سبھی ریکارڈوں کو مات دی ۔ اس حملہ کے مقدمہ میں سزائے موت سے باعزت بری ہونے والے مفتی عبدالقیوم منصوری کی کتاب ’’گیارہ سال سلاخوں کے پیچھے ‘‘ نے عیا ں کردیا ہے کہ کس طرح بے قصور مسلم نوجوانو ں کو دہشت گردی کے جھوٹے الزامات میں پھنسا کر قید و بند کی زندگی گزارنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔ ستمبر2002کو دو نامعلوم افراد نے سوامی نارائن فرقہ کی اس عبادت گاہ پر دھاوا بول کر32افراد کو ہلاک کردیا۔ کمانڈوز نے دونوں حملہ آوروں کو ایک اعصاب شکن آپریشن کے بعد ہلاک کردیا۔ ایک سال کے بعد اس کیس کو گجرات پولیس کی کرائم برانچ کے حوالے کیا گیا جس نے ایک ہفتہ کے اندر ہی مفتی منصوری اور دیگر پانچ افراد کو گرفتار کرکے اس کیس کو حل کرنے کا دعویٰ کیا۔ مفتی صاحب جمیعت علماء ہند کے ایک سرکردہ کارکن ہیں اور گرفتاری سے قبل2002 کے گجرات کے مسلم کش فسادات کے متاثرین کی باز آباد کاری کیلئے ایک ریلیف کیمپ کے انچارج تھے۔نچلی عدالت نے مفتی صاحب اور دیگر افرادکو 2006 میں موت کی سزا سنائی۔ جس کو گجرات ہائی کورٹ نے بھی برقرار رکھا۔ مگر 2014میں سپریم کورٹ نے اس فیصلہ کو رد کرکے سبھی افراد کو باعزت بری کرنے کے احکامات صادر کر دیے۔ مفتی صاحب نے اپنی کتاب میں بتایا ہے کہ سخت جسمانی تشدد کے بعد انکو بتایا گیا کہ وہ باہمی مشورہ اور بات چیت سے اس واقعہ میں اپنا کردار طے کریں بلکہ مختلف مقدمات میں سے انتخاب کا بھی حق دیا گیا کہ وہ گو دھرا ٹرین سانحہ، سابق ریاستی وزیر داخلہ ہرین پانڈیا کے قتل، یا اکشر دھام میں سے کسی ایک کیس کا انتخاب کریں ، جس میں انہیں فریم کیا جائے۔ مفتی صاحب بیان کرتے ہیں:’’ اس ظالم (ڈی آئی جی ڈی ڈی ونجارا)نے میری سرین پر نہایت ہی جنون و پاگل پن سے ڈ نڈے برسانے شروع کئے، یہاں تک کہ میرے کپڑے خون سے تر ہوگئے تو پولیس والو ں سے کہا کہ ہاتھوں پر مارو ، پھر میری ہتھیلیوں پر اتنے ڈنڈے برسائے گئے کہ ان کا رنگ بدل گیا۔ ونجارا کی نظر میرے پیروں پر پڑی توکہنے لگا کہ موٹا تازہ ہے، بھینس جیسے پیر ہیں، اس کے پیروں پر ڈنڈے برساوٗ، ظالموں نے مجھے گرایا اور ایک موٹا ، مکروہ چہرہ والا شخص مجھے الٹا لٹکا کر میری پیٹھ پر بیٹھ گیا، دوسرے لوگ میرے پیروں پر بیٹھ گئے، دو لوگوں نے میرے ہاتھ اور سر کو پکڑ لیا ۔ پھر ونار ( ایک اور پولیس آفیسر) نے اسی حالت میں میرے پیروں کے تلووں پر ڈنڈے برسانے شروع کئے، بس جب وہ تھک جاتا تھا توکچھ دیر رک جاتا اس پر ونجارا گالی دیکر کہتا اور مارو کیوں رک گئے۔مفتی صاحب کے بقول ریمانڈ سے قبل اور ان کی باقاعدہ گرفتاری یعنی 40د ن تک رات بھر ان کے ساتھ ظلم و ستم کا بازار اسی طرح چلتا رہا۔ اس دوران ان کو بجلی کے کرنٹ دیے گئے۔ کتاب میں مفتی منصوری نے گجرات پولیس کے ظلم و تشدد کا ایسا نقشہ کھینچاکہ کلیجہ منہ کو آتا ہے۔ کس طرح دوران انٹروگیشن ملزم کو برہنہ کرکے شرمناک تشدد کیا جاتا،ان کے نازک حصوں کے اندر پیڑول داخل کیا جاتا اور ان میں بجلی کا تار لگاکر کرنٹ دیا جاتا تھا۔ پورے کیس کی عمارت اردو میں تحریر ان دو خطوط پر ٹکی تھی، جو پولیس کے بقول مفتی صاحب نے لکھ کر حملہ آوروں کے حوالے کئے تھے، جو بعد میں ان کی جیبوں سے برآمد ہوئے۔ فورنزک لیبارٹری نے مفتی صاحب کی ہینڈ رائٹنگ اور ان خطوط کا موازنہ کرنے کے بعد رپورٹ دی کہ یہ مفتی صاحب کے تحریر کردہ ہیں۔ جس کا مطلب یہی ہے کہ مفتی صاحب حملہ آوروں سے واقف تھے اور انکی اعانت بھی کی۔ مگر نہ ہی نچلی عدالت اور نہ ہی ہائی کورٹ نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ جب خود پولیس کے بقول حملہ آوروں کی لاشیں خون اور کیچٖڑ میں لت پت تھیںاور انکے بدن گولیوں سے چھلنی تھے، ان حملہ آور کے جسم میں46گولیوں کے نشانات تھے تویہ خطوط کیونکر صاف و شفاف تھے۔ مفتی صاحب کے بقول ان سے یہ خطوط تین دن تک پولیس کی حراست میں لکھوائے گئے ۔اس واقعہ میں 32بے قصور ہندو ز ائرین کی جانیں چلی گئیں۔ سوال ہے کہ آخر وہ حملہ آور کون تھے، اور اس حملہ کی پلاننگ کس نے کی تھی۔ آخر بے قصور افراد کو گرفتار کرکے کس کی پردہ پوشی کی گئی۔ تصویر کا دوسرا رخ یہ ہے کہ دہشت گردی کے جن معاملات میں ہندو انتہا پسند ملوث ہیں ان میں پولیس شاید ہی کوئی سرگرمی یا دلچسپی دکھاتی ہے۔ 2019میں ہریانہ صوبہ میں پنچکولہ کی اسپیشل کورٹ نے سمجھوتہ ایکسپریس بلاسٹ کیس میں ملوث سبھی ملز موں سوامی سیمانند، لوکیش شرما، کمل چوہان اور راجیندر چودھری کو بری کر دیا ،2014میں وزیر اعظم نریندر مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد جس طرح عدالت میں اس کیس کی پیروی ہورہی تھی، یہ فیصلہ توقع کے عین مطابق ہی تھا۔ملزموں کا دفاع کوئی اور نہیں بلکہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی ( بی جے پی )کے لیگل سیل کے سربراہ ستیہ پال جین کر رہے تھے۔ بلاسٹ کے مبینہ ماسٹر مائنڈ سنیل جوشی کی 2007 میں ہی پراسرار حالات میں موت ہو چکی تھی۔ دہلی -لاہور سمجھوتہ ایکسپریس ٹرین میں 18 فروری 2007کو پانی پت کے قریب 2 بم بلاسٹ ہوئے تھے جن میں 68 لوگ مارے گئے تھے،ان میں زیادہ تر پاکستانی تھے نیز دیگر 12 شدید زخمی ہوگئے تھے۔(جاری ہے)