بھارت میں عام انتخابات میں بی جے پی معاشی ترقی، خلائی کامیابیوں،کشمیر کی الگ ریاستی حیثیت سے متعلق آئین میں تبدیلی کے ساتھ مسلسل چوتھی بار اینٹی پاکستان بیانئے پر ووٹروں کو اشتعال دلا رہی ہے۔نریندر مودی تیسری بار اس نوع کی اشتعال انگیزی سے وزیر اعظم بنتے دکھائی دیتے ہیں۔ نریندر مودی خود ہوں یا ان کے قریبی ساتھی پاکستان پر تنقید کئے بنا ان کی گفتگو پوری نہیں ہوتی۔اس رجحان کا اثر بین الاقوامی تعلقات پر پڑا ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان معمول کے رابطے تک متاثر نظر آتے ہیں۔انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز اسلام آباد کے انڈیا سٹڈی سینٹر نے کچھ روز قبل بھارت میں جاری 18ویں لوک سبھا انتخابات اور انتخابی مہم پر تبادلہ خیال کرنے کے لیے ایک اجلاس بلایا۔اسلام آباد میں قائم مختلف تھنک ٹینکس کے ماہرین تعلیم، سفارت کاروں اور محققین نے اس اجلاس میں شرکت کی۔ اس تقریب نے بھارت کے انتخابی عمل کے مختلف پہلوؤں اور خاص طور پر پاک بھارت تعلقات کے تناظر میں اس کے ممکنہ اثرات پر گہرائی سے غور کرنیکے لیے ایک پلیٹ فارم فراہم کیا۔تقریب میں شریک احباب کے مطابق شرکاء نے بھارت کے پورے سات مرحلوں پر مشتمل انتخابی عمل کا احاطہ کرتے ہوئے ایک جامع جائزہ لیا۔ یہ بات چیت کئی اہم معاملات جیسے کہ انتخابی منشور کی اشاعت، انتخابی مہم کا لہجہ اور مواد، بھارتی الیکشن کمیشن اور مختلف میڈیا اداروں کی طرف سے ادا کیا گیا کردار، اور بھارت کے تمام علاقوں میں پائے جانے والے متنوع سیاسی مناظر اور انتہا پسندانہ بیانات کے گرد گھومتی رہی۔خاص طور پر تشویش کی بات یہ تھی کہ انتخابی بیانات میں تفرقہ انگیز اور پولرائزنگ پر مشتمل بیان بازی واضح طور پر دکھائی دے رہی تھی، کئی حکومتی وزراء نے انتخابی حمایت حاصل کرنے کے لیے اپنی مہم میں اینٹی پاکستان نعرے اور تقریرکو شامل کیا تھا۔تجزیہ کاروں نے بھارت کے اندرونی سماجی تانے بانے اور پڑوسی ممالک کے ساتھ اس کے تعلقات پر اس طرح کی بیان بازی کے ممکنہ اثرات کے بارے میں خدشات کا اظہار کیا، جو علاقائی عدم استحکام کا باعث بن سکتے ہیں۔ بھارت میں یہ پہلی بار نہیں ہو رہا، بی جے پی بھی پہلی بار اپنی الیکشن مہم اس شکل میں نہیں چلا رہی۔دو ہزار انیس کے انتخابات سے پہلے الجزیرہ نے ایک رپورٹ شائع کی ۔اس رپورٹ کے مطابق "مودی حکومت کا بیرونی دنیا کو پیغام ہے کہ بھارت امن چاہتا ہے۔ لیکن ملک کے اندر، وزیر اعظم، ان کی کابینہ کے ساتھی اور پارٹی کے سینئر ساتھی انتخابی ریلیوں سے الگ رنگ میں خطاب کر رہے تھے، جس میں وہ جنگ کا مطالبہ کر رہے تھے۔ " اپوزیشن کانگریس پارٹی کی رکن پرینکا چترویدی نے بی جے پی کی پالیسی پر یوں تبصرہ کیا تھاکہ "حساس معلومات صرف نامعلوم سرکاری عہدیداروں کے لیک کے ذریعہ آرہی ہیں"۔انہوں نے کہا کہ "یہ طریقہ جعلی خبروں کو جنم دے رہا ہے اور غیر ذمہ دار میڈیا آؤٹ لیٹس آزادانہ یہ کام کر رہے ہیں۔" انہوں نے بھی کہا کہ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں 14 فروری کو ہونے والے خودکش حملے کے جواب میں بھارتی لڑاکا طیاروں کی طرف سے سرحد پار سے فضائی حملے کئے جانے کے بعد سے مودی حکومت کے کسی سینئر وزیر نے میڈیا کو بریفنگ نہیں دی۔ یہ اسی واقعہ کی طرف اشارہ تھا جس میں پاکستانی ہوا بازوں نے بھارت کے دو طیارے مار گرائے تھے اور ایک پائلٹ، ونگ کمانڈر ابھینندن ورتھمان کو گرفتار کر لیا تھا۔ بھارتی وزیر اعظم دو ہزار انیس کی طرح ایک بار پھر اینٹی پاکساتن تیل سے اشتعال کی آگ بڑھکا رہے تشویشناک بات یہ ہے کہ بی جے پی کی انتخابی مہم، جسے مستقبل کے لیے بھارتکے امکانات پر فوکس کرنا چاہئے تھا ، اس کے بجائے پاکستان مخالف جذبات سے فائدہ اٹھانے پر مرکوز ہے۔ اگر بی جے پی کے اگلے انتخابات جیتنے کا امکان ہے تو بھی اس کی جاری پاکستان مخالف مہم سے علاقے کا امن و استحکام خطرے میں پڑ سکتا ہے۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے 2019 میں اعلان کیا تھا کہ اگر پاکستان گجرات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران بھارتی فضائیہ کے پائلٹ ابھینندن ورتھمان کو واپس نہ کرتا تو یہ ’قتال کی رات‘ ہوتی۔ اس بیان کے نتیجے میں بی جے پی نے کامیابی حاصل کی، لیکن خطے میں امن و استحکام خطرے میں پڑ گیا۔اس دوران پلوامہ کے چرچے باہر آئے۔مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے سابق گورنر اس واقعہ کو بھارت کی اپنی کارروائی قرار دے چکے ہیں۔ سیاسی پنڈتوں کے مطابق مودی انتظامیہ انتہا پسند ہندو ووٹروں کو مسلم مخالف، پاکستان مخالف اور کشمیر مخالف بیان بازی کے ذریعے متحد کر رہی ہے۔ مودی اس فارمولے کی بدولت 2019 کے عام انتخابات میں بھاری اکثریت کے ساتھ دوبارہ اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے تھے۔اس فارمولے کو وہ ایک بار پھر آزما رہے ہیں۔ بھارت اپنی خارجہ پالیسی کے لیے ’’پاکستان میں دہشت گردی کا آغاز‘‘ کے بیانیے کو استعمال کرکے ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سیاسی فوائد حاصل کر رہا ہے۔پاکستان اور بھارت نے باہمی تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے متعدد کوششیں کی ہیں، خاص طور پر شملہ سربراہی اجلاس، آگرہ سربراہی اجلاس اور لاہور سربراہی اجلاس کے ساتھ ساتھ مختلف امن اور تعاون کے اقدامات۔ ان کوششوں کے باوجود کچھ برسوں سے تعلقات میں بہتری نہیں ہو پا رہی۔ کشمیرپاک بھارت تعلقات کابنیادی مرکزہے،سوائے 1971ء کی پاک بھارت جنگ کے، جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی ہوئی تھی۔ اقتصادی، جغرافیائی، ثقافتی اور لسانی روابط کے ساتھ قریبی پڑوسی ہونے کے باوجود پاک بھارت تعلقات پیچیدہ ہیں۔حالیہ دنوں دو مئی کو وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی پارٹی کو اشتعال دلاتے ہوئے، پاکستان کے ساتھ کانگریس کی شراکت داری کے بارے میں اسی طرح کے الزام کو دہرایا، انہوں نے کہا کہ پاکستان والے راہول گاندھی کو بھارت کا وزیر اعظم بنانے کے خواہشمند ہیں۔نریندر مودی نے مسلمانوں اور پاکستان کو انتخابی ڈسکورس میں گھسیٹنے کا رجحان دکھایا ہے۔ اس بار انہوں نے کہا ہے کہ کانگریس پارٹی اور پاکستان کے درمیان شراکت داری ہے۔ تجزیہ کار کہتے ہیں کہ نریندر مودی نے کانگریس اور پاکستان شراکت داری کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا جس پر انہوں نے الزام لگایا، سوائے ایک پاکستانی رہنما کی دعا کا حوالہ دینے کے۔ پاکستان کے ایک رہنما نے راہول گاندھی کی تعریف کرتے ہوئے سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک ویڈیو پوسٹ کی تھی۔ بی جے پی کے آئی ٹی سیل کے سربراہ امیت مالویہ نے یہ کہتے ہوئے اس موقع کو غنیمت جانا کہ "ایک ایسے منشور سے جس میں مسلم لیگ کے نقوش ہیں، کانگریس کا پاکستان کے ساتھ اتحاد زیادہ واضح ہوتا ہے ۔" بی جے پی کے کئی دیگر لیڈروں نے بھی اسی طرح کے خیالات کا اظہار کیا۔ لیکن وزیر اعظم کا کانگریس پر پاکستان کے ساتھ گٹھ جوڑ کا الزام لگانے کا مطلب بالکل مختلف ہے۔بی جے پی یہ ماننے کو تیار نہیں کہ وہ آگ سے کھیل رہی ہے،اس نے بھارتی سماج کو نفرت اور پاکستان دشمنی کی راہ پر ڈال دیا ہے۔