بھارت کا چندریان مشن کامیاب رہا۔دنیا نے بھارتی سائنسدانوں اور حکومت کو مبارکباد دی۔ پاکستان کے لوگوں نے بھی کھلے دل کے ساتھ اپنے ہمسائے کی اس کامیابی کا اعتراف کیا۔ لیکن پاکستان کے جذبہ خیر سگالی پر بھارت کا ردعمل خاص طور پر بی جے پی کی طرف سے تکبر پر مبنی رہا۔ میرے سامنے مئی 1998ء کے وہ ایام گھوم گئے۔ ان دنوں میرا کام بین الاقوامی اور قومی میڈیا پر نشر اہم خبروں کی مانیٹرنگ کرنا تھا۔ سہ پہر کا کوئی وقت تھا جب سی این این نے بھارت کی طرف سے ایٹمی دھماکوں کی خبر دی۔ اس خبر کے چند منٹ کے بعد زی نیوز اور بھارت کے سرکاری ٹی وی پر پاکستان کے خلاف اشتعال ابل پڑا۔ وزیر دفاع جارج فرنینڈس کو میں ایک تحمل مزاج سیاست دان سمجھتا تھا۔ زی نیوز کی مسلسل مانیٹرنگ کی وجہ سے مجھے مایا وتی‘ سشما سوراج‘ جارج فرنینڈس ‘ لالو پرشاد یادیو ‘ ممتا بینر جی‘ جوتی باسو‘ جے لیلتا ‘ شردپوار جیسے ریاستی سطح کے بہت سے رہنمائوں کے بارے میں جاننے کا موقع ملا۔ ایک دن زی نیوز کے ساتھ بڑا زبردست پروگرام تھا جسے بعد میں پاکستان میں کاپی کیا گیا۔ لالو پرشاد ‘ جوتی باسو‘ ممتا بنرجی اور ایک آدھ دوسرے سیاستدان کے بارے میں میری رائے ان ہی دنوں مثبت بنی۔باقی ایڈوانی جی کے بہکاوے میں تھے۔ نریندر مودی تب سیاسی منظر نامے پر دکھائی نہیں دیتے تھے۔ مجھے لگتا تھا کہ اٹل بہاری واجپائی کے بعد قانون دان سشما سوراج میں قیادت کا کرشمہ ہے۔ کئی سال پہلے سشما سوراج کا انتقال ہو گیا اور پارٹی پر نریندر مودی کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئی۔ دھماکوں کے بعد بھارت کے صف اول اور صف دوم کے رہنمائوں نے پاکستان کو للکارنا شروع کر دیا۔ لگتا تھا کہ بھارت ایٹمی ہتھیاروں کے ساتھ ابھی پاکستان پر حملہ کر دے گا۔ اس تکبر ‘للکار اور اشتعال کا ہی نتیجہ تھا کہ پاکستان کو جواب میں ایٹمی دھماکے کرنا پڑے۔چندریان کی چاند پر لینڈنگ کے بعد ایک بار پھر یہی صورت حال ہے۔ پاکستان کو ناکام ریاست کہا جا رہا ہے اور بھارت خودکو عالمی طاقت قرار دے رہا ہے۔ اس ساری صورت حال کا تشویشناک پہلو یہ ہے کہ بھارت اپنی اس کامیابی کو جارحانہ ہتھیار بنا کر پیش کر رہا ہے۔ دنیا کے وہ ملک جنہوں نے ٹیکنالوجی و معاشی شعبوں میں ترقی کی انہوں نے یہ یقینی بنانے کی کوشش کی کہ ان کا سماج داخلی طور پر تمام افراد کو بلا امتیاز مذہب،رنگ اور زبان مساوی حقوق دے۔سماج میں اشتعال اور تشدد پھیلانے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے۔بھارت نفرت کی انتہاوں کو چھو رہا ہے۔ آنیوالے لوک سبھا انتخابات میں کامیابی کے لیے پر امید ہونے کے باوجود بی جے پی بظاہر ناقابل تسخیر بے چینی کی شکار ہے۔ کرناٹک میں حالیہ ذلت آمیز انتخابی شکست (مئی 2023) نے بی جے پی کی صفوں اور قیادت کو یہ احساس دلایا ہے کہ آئندہ ریاستی انتخابات بی جے پی کے لیے آسان ثابت نہیں ہوں گے ۔میزورم، چھتیس گڑھ، راجستھان اور تلنگانہ میں اسے چیلنجوں کا سامنا ہے۔بی جے پی کا وطیرہ رہا ہے کہ وہ سیاسی چیلنجوں کا حل پاکستان کے خلاف نفرت آمیز مہم چلا کر پیش کرتی ہے۔لائن آف کنٹرول پر گولہ باری ،دہشت گردی کے الزامات اور نئے ہتھیاروں کی خریداری کو پاکستان سے جوڑنا انتہا پسند ووٹروں کو ترغیب دیتا ہے۔ گورننس کے بظاہر اچھے گراف کے باوجود، بہت سے ایسے علاقے ہیں جہاں بد انتظامی اور عسکریت پسندی کی آگ جل رہی ہے۔ کچھ ارب پتی افراد کی سرپستی سے یہ سوال اٹھ رہا ہے کہ کیا بی جے پی غریب دشمن جماعت ہے۔ آنے والے ریاستی انتخابات میں بی جے پی کو بہت زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ پاپولسٹ ووٹوں پر پختہ یقین رکھنے کی وجہ سے بی جے پی سستی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے مسلم دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہو کر اپنی داخلی سیاست کو تقویت دینے کا ارادہ رکھتی ہے۔صرف مسلم دشمنی ہی نہیں مسیحیوں ، سکھوں اور دیگر اقلیتوں کے خلاف کارروائیاں بھی کم سنگین نہیں ۔اس نوع کی کارروائیوں کے نتائج جمع ہو رہے ہیں،شکایات کا ایک ڈھیر اکٹھا ہو چکا ہے جسے کسی بھی وقت آگ دکھائی جا سکتی ہے۔ بھارت کے سنجیدہ عناصر سماج کی فرقہ وارانہ تقسیم کو ناپسند کرتے ہیں۔یہ لوگ تجارتی مذاکرات اور کشمیر کا تنازع مل بیٹھ کر حل کرنے کی بات کرتے ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں ۔بھارت کے دانشور حلقے بی جے پی کی فرقہ وارانہ سیاست کی مذمت کر رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ معاشی قوت اور بین الاقومی رسوخ کو ہمسائیوں کو خوفزدہ کرنے کے لئے استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ بی جے پی کی خواہش ہے کہ پاکستان ختم ہو جائے۔دہشت گردی کے ذریعے بلوچستان اور خیبر پختونخوا کو بد امنی کا شکار بنایا جا رہا ہے۔کشمیر پر غاصبانہ قبضہ برقرار رکھا ہوا ہے،اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کے اداروں کی قرار دادیں مسلسل نظر انداز کی جا رہی ہیں۔ بی جے پی بھارت میں مسلمانوں کی آبادی کو نشانہ بنانے کے اقدامات پر یقین رکھتی ہے۔ اس کا تعصب بعض اوقات نفرت سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ بی جے پی کی ایک تاریخ رہی ہے کہ وہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لیے جھوٹی کارروائیاں شروع کر دیتی ہے۔پلوامہ کا واقعہ،جنگی طیاروں کے ذریعے پاکستان کی حدود میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانے تباہ کرنے کا جھوٹ اسی نوع کی کارروائیاں ہیں تاکہ سنگھ پریوار کو بی جے پی کے لیے ووٹروں کو راغب کرنے کا موقع دیا جا سکے۔ معروٖف صحافی کرن تھاپر کے ساتھ ایک انٹرویو میںمقبوضہ کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک کے انکشافات نے یہ واضح کر دیا ہے کہ وزیر اعظم مودی نے خود پلوامہ واقعہ (فروری 2019) کو ہونے دیا جس میں خودکش حملے کے نتیجے میں سکیورٹی فورس کے 40 سے زیادہ اہلکار مارے گئے تھے۔بھارتی مبصرین کا کہنا ہے کہ انتخابی شکست نریندر مودی کی مایوسی میں اضافہ کرے گی اور وہ پاکستان کے خلاف مزید اشتعال پھیلا کر اپنے جذبہء انتقام کو تسکین دیں گے۔