جمہوری نظام اور جمہوری سیاست کا جامع تصور علامہ اقبالؒ نے اپنی شہرۂ آفاق نظم ’’ابلیس کی مجلسِ شوریٰ‘‘ کے شعر میں ایسا پیش کیا ہے کہ اس کے پسِ پردہ تمام محرکات واضح ہو جاتے ہیں۔ اس نظم میں ابلیس اپنے خطاب میں زمین پر موجود تمام سیاسی نظاموں پر تبصرہ کرتے ہوئے جمہوریت کے بارے میں یوں روشنی ڈالتا ہے ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس جب کبھی آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر یہ شعر کرۂ ارض پر گذشتہ ڈیڑھ سو سال سے تدریجی مراحل طے کرتے ہوئے جمہوری نظام کی وجۂ تخلیق سے پردہ اُٹھاتا ہے۔ انسان زمانۂ قدیم سے بادشاہتوں کے زیر سایہ زندگی گزارتا چلا آ رہا تھا۔ فراعینِ مصر کی وسیع و عریض سلطنت، نمرودانِ بابل کی دجلہ و فرات، ہرقل یا قیصر کا روم، کسریٰ کا ایران اور اسی طرح دُنیا بھر میں پھیلی ہوئی چھوٹی چھوٹی حکومتیں، سلطنتیں، راجواڑے۔ علاقے اور لوگ اس شخص کے زیر نگیں ہوتے، جس کے پاس طاقت، قوت اور فوج ہوتی۔ ایک علاقے کا بادشاہ سلطنت کو وسعت دینا چاہتا تو اپنے گھوڑوں کی ٹاپوں تلے دوسرے ملکوں کو روندتا چلا جاتا۔ اس مقصد کے لئے وہ سب سے پہلے اس علاقے میں اپنے لئے وفاداروں کی ایک کھیپ خریدتا جو اپنے ہی ملک پر مسلّط حکمران کے خلاف اس بیرونی حملہ آور کی مدد کے لئے آمادہ ہوتی۔ فتح کے بعد ان لوگوں کی وفاداری کا انعام ان کو حکومتوں میں منصب دے کر دیا جاتا۔ صدیوں پرانا یہ سلسلہ گذشتہ صدی تک جاری رہا۔ برصغیر میں انگریز صرف چند ہزار سپاہی لے کر آیا تھا، لیکن پھر اس کی خرید و فروخت سے مقامی لوگ اس کی فوج کا حصہ بنتے چلے گئے اور پھر ایک دن ایسا آیا کہ صرف تیس ہزار انگریز برصغیر کے کروڑوں لوگوں پر تقریباً نوے برس حکمرانی کرتے رہے۔ غزنوی ہو یا غوری، خلجی ہو یا مغل جب بھی اپنے وطن سے چلتے تو ان کے پاس افواج کی تعداد بہت کم ہوتی مگر وہ مفتوحہ خطوں میں موجود آپس کی چپقلشوں، رنجشوں اور لڑائیوں کا بھر پور فائدہ اُٹھاتے اور چند گروہوں کو اپنے ساتھ ملا کر باقیوں پر حکومت کرتے۔ بادشاہوں کی سیاسی پارٹی ان کی وفادار فوج ہوا کرتی تھی۔ اس فوج میں مکمل وفاداری شرط تھی۔ غداری کی سزا بہت کڑی ہوتی۔ پکڑے جانے والے کی زندہ کھال کھنچوائی جاتی، آنکھوں میں سلائیاں پھروا کر عمر بھر زندان میں قید کر دیا جاتا یا دیوار میں زندہ چنوا دیا جاتا۔ غداروں کو نشانِ عبرت بنانا اس لئے بھی ضروری تھا تاکہ آئندہ کوئی شخص بادشاہ کی سیاسی پارٹی سے ’’فلور کراسنگ‘‘ کی جرأت نہ کر سکے۔ عدم اعتماد تو مکمل بغاوت تھی اور اس کے لئے بھائی اور بیٹے کو بھی معاف نہیں کیا جاتا تھا۔ جلال الدین اکبر اپنے اکلوتے لاڈلے بیٹے نورالدین جہانگیر کے خلاف تلوار سونت کر میدان میں اُتر آیا اور اسے شکست دی، بعد میں معافی طلب کرنے پر اسے معاف کر دیا۔ اسمبلی کی نشستوں کی طرح دس ہزاری اور پنج ہزاری منصب ہوا کرتے تھے۔ جس شخص کے زیرِ سایہ اس کے قبیلے، برادری یا خویش و اقارب کے جتنے زیادہ مردانِ میدان ہوتے اسے اتنا ہی بڑا منصب عطا کیا جاتا۔ یہ پنج ہزاری یا دس ہزاری دراصل ہمارے قومی و صوبائی اسمبلی کے ممبران کی طرح ایک درجہ بندی کا نام تھا۔ بادشاہ انہیں اُمورِ مملکت میں شریک بھی کرتا، رائے بھی لیتا لیکن آخری رائے بادشاہ کی ہوتی۔ بالکل ویسے ہی جیسے جمہوریت میں پارٹی کا سربراہ آخری فیصلہ صادر فرما دے تو سب چُپ ہو جاتے ہیں۔ ہر کسی کو بادشاہوں کے سامنے رائے دینے کی آزادی ہوا کرتی تھی، بات سنی بھی جاتی اور کبھی کبھی مانی بھی جاتی تھی۔ لیکن ایک جرم ناقابلِ معافی تھا اور وہ تھا بادشاہ پر عدم اعتماد۔ اقبالؒ نے اسی جدید جمہوریت کو دراصل شاہی کا دوسرا روپ قرار دیا ہے۔ غور کریں تو اس کے دو اجزائے ترکیبی اسے بادشاہت اور آمریت کا حقیقی نعم البدل بناتے ہیں۔ ہر جمہوریت میں سیاسی پارٹیوں کا وجود لازمی ہے۔ آپ غیر جماعتی انتخابات کی بات کریں ، مثلاً ضیاء الحق کی طرح کروا کر دکھائیں تو فوراً آپ پر غیر جمہوری ہونے کا لیبل لگ جائے گا۔ وفاداری بدلنا پوری مغربی جمہوری دُنیا میں مذہب بدلنے سے بھی بڑا جرم تصور ہوتا ہے۔ پارلیمانی تاریخ میں صرف چرچل نے جنگِ عظیم دوم کے ہنگاموں میں ایسا کر تو لیا لیکن جنگ ختم ہوتے ہی اس فاتح اور ہیرو کو بدترین شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس وفاداری کے پیچھے کیا ہے۔ دراصل پہلے بادشاہ فوج کے بل بوتے پر حکومت کیا کرتے تھے مگر اب پسِ پردہ رہ کر عالمی اور مقامی سرمایہ دار طبقہ اپنے سرمائے کے زور پر ملکوں پر حکومت کرتا ہے۔ دُنیا کے ہر جمہوری ملک میں ان سرمایہ داروں کا ایک گروہ ہوتا ہے جو ان جمہوری رہنمائوں اور سیاسی پارٹیوں کو الیکشن کے لئے کثیر سرمایہ فراہم کرتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہی سرمایہ داروں کا خریدا ہوا میڈیا ان کی جیت کی راہیں ہموار کرتا ہے۔ کوئی سیاسی پارٹی سرمایہ دار کے پیسے اور اسکے میڈیا کے بغیر جیت کا تصور نہیں کر سکتی۔ ایک امریکی صدر سات سے آٹھ ارب ڈالروں کے بغیر الیکشن میں کودنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ یہی عالم برطانیہ، فرانس، جرمنی بلکہ بھارت کا بھی ہے۔ ان پسِ پردہ حکمران سرمایہ داروں کے لئے یہ بہت ہی مشکل ہے۔ ایک ایک رکنِ اسمبلی یا ممبر کانگریس سے براہِ راست معاملات طے کریں۔ وہ اس بکھیڑے میں ہرگز پڑنا نہیں چاہتے ہیں۔ اس لئے وہ پوری پارٹی کو پارٹی فنڈنگ کے ذریعے خرید لیتے ہیں۔ اس سارے نظام کو عوامی بنانے کے لئے ایک سے زیادہ پارٹیاں رکھی جاتی ہیں۔ ان میں رسہ کشی کے ذریعے عوام کو یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ انتخابات میں دراصل تم ہی فیصلہ کرنے والے ہو جو دو یا تین اُمیدواروں کے درمیان انتخاب کرتے ہو، تم ہی حاکم ہو۔ عوام بس اسی میں خوشی سے پھولے نہیں سماتے۔ حالانکہ ہوتا یہ ہے کہ سب کی سب سیاسی پارٹیوں کو سرمایہ فراہم کرنے والا سرمایہ داروں کا ایک ہی گروہ ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے جمہوری طور پر طفلِ مکتب ملک میں بھی بڑے بڑے سرمایہ دار ہر پارٹی کو حصہ بقدر جثہ فنڈ فراہم کرتے ہیں۔ اس لئے جو بھی پارٹی جیتے ان فنڈ فراہم کرنے والوں کی غلام ہوتی ہے۔ اتنی بڑی سرمایہ کاری ہو تو پارٹی کے سربراہ کو خوفناک حد تک آزادانہ اختیارات دینا بہت ضروری ہوتے ہیں۔ پارٹی بدلنے والوں کو عبرت کا نشان بنانا اس سارے جمہوری نظام پر پسِ پردہ حکومت کرنے والوں کی اصل طاقت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دُنیا بھر میں پارٹی کو چھوڑ کر، فلور کراسنگ کرتے ہوئے عدم اعتماد کرنے والے ارکان کا سیاسی مستقبل عمر بھر کے لئے تاریک کر دیا جاتا ہے۔ وہ جمہوری سیاست کے ’’مرتد‘‘ ہوتے ہیں، جنہیں قتل تو نہیں کیا جاتا لیکن ان کی سیاسی زندگی کو چوراہے میں رکھ کر ذبح کر دیا جاتا ہے۔ جمہوری سیاست میں دوسری اہم بغاوت جو جدید دَور کا تحفہ ہے، وہ یہ ہے کہ ارکانِ اسمبلی بجٹ بناتے وقت پارٹی کا ساتھ نہ دیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ جن سرمایہ داروں نے سیاسی پارٹیوں پر مال لگایا ہوتا ہے، وہ اپنی مرضی کے بنوائے گئے بجٹ کے ذریعے ہی تو اپنا سرمایہ کئی گنا واپس وصول کرنا چاہتے ہیں۔ یہ ہیں وہ بظاہر آزاد نظر آنیوالے ’’غلام ممبرانِ اسمبلی‘‘ جنہیں آپ ’’جمہوری نمائندے‘‘ کہتے ہیں۔ یہ اپنی پارٹی کے سربراہ سے ہمیشہ خوفزدہ اور سہمے ہوئے رہتے ہیں۔ آپ انہیں جلسوں، جلوسوں اور ٹی وی ٹاک شوز میں دیکھیں تو یہ لوگ اللہ کا نام اتنی دفعہ نہیں لیتے جتنی دفعہ یہ اپنے لیڈر، اپنے قائد اور اپنے رہنما کا نام لیتے ہیں۔ ان کی وفاداری صرف اور صرف اس قائد سے ہوتی ہے جس کی اگر نظریں بدل گئیں تو ان کی سیاسی زندگی تاریک ہو جائے گی۔