اگرچہ بھارت کے متعفن معاشرے میں مسلمان خواتین کادم پہلے سے ہی گھٹ رہا تھا تاہم سے جب سے بھارتیہ جنتا پارٹی کی شکل میںہندو، فاشزم برسراقتدار آئی تواس نے مسلم خواتین کاجیناحرام کردیااور اس طرح انڈیا عورتوں بالخصوص مسلم خواتین کے لئے بدستور خطرناک بناہوا ہے۔واضح رہے کہ طاقت کے بل بوتے پرکوئی معاشرہ یا قوم کسی دوسرے معاشرے یا قوم پر اپنی مرضی مسلط کرے تواسے فاشزم یا فسطائیت کہاجاتاہے۔چونکہ اس وقت بھارت میں ہندو فاشزم کادوردورہ ہے تو آیئے دیکھتے ہیں کہ ہندو فسطائیت کے اس دور میںبھارت کس قدر عورتوں کے لئے غیرمحفوظ ملک بن چکا ہے۔ بدھ 26 جنوری 2022ء کواڑیسہ یاجھارکھنڈکے کسی شہر میں نہیں بلکہ بھارتی دارالحکومت دلی میں پیش آنے والا دلخراش واقعہ ہے کہ جب بھارت دنیاکو دھوکہ دینے کے لئے یوم جمہوریہ منارہاتھا تودہلی کے علاقے شاہدرہ میں21سالہ شادی شدہ اور ایک جوان ماں کے اغوا اور پھر گینگ ریپ کے بعد مبینہ ملزمان نے اسے دن دیہاڑے نئی دہلی کی سڑکوں پرگھمایا۔ سوشل میڈیا پر فوٹیج میں متاثرہ خاتون کو دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کلپ میں دکھائی دیتا ہے کہ اس جرم کا نشانہ بننے والی خاتون کے چہرے پر سیاہی مل دی گئی ہے اور اس کے بال بھی کاٹ دیے گئے ہیں۔ اس ویڈیو فوٹیج میں یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ راہ گیروں میں سے کوئی اس خاتون کوبچانے نہیں آتابلکہ اس علیٰ الرغم وہ خوشی کا اظہار کر رہے ہیں بلکہ اپنے اپنے موبائل فونز کے ذریعے اس واقعے کی ویڈیوز بھی بنا رہے ہیں۔ 26 جون 2018ء کوایک عالمی ادارے کے سروے میں بتایاگیاکہ انڈیا دنیا میں خواتین کے لیے سب سے خطرناک جبکہ امریکہ خواتین کے خلاف جنسی تشدد کے معاملے میں تیسرے نمبر پر ہے۔یہ سروے برطانیہ میں قائم ادارے تھامسن روئٹرز فانڈیشن کی طرف سے سامنے آیاتھا۔اسے قبل 2011ء میں بھی تھامسن روئٹرز فانڈیشن نے اسی قسم کا سروے کیا تھا جس میں انڈیااس وقت چوتھے نمبر پربتایاگیا تھا۔اس سروے سے دنیاپریہ حقیقت آشکار ہوئی کہ انڈیا میں خواتین کو لاحق خطرات روزبروزبڑھتے ہی چلے جارہے ہیں۔ تھامسن رائٹرز فانڈیشن کے ایک نئے سروے کے مطابق دنیا میں چوٹی کی 19 بڑی معیشتوں کے مقابلے میں بھارت میں خواتین کے ساتھ ہونے والا سلوک انتہائی افسوس ناک اور مایوس کن ہے۔ 2012ء کے اواخر میں دلی میں ایک چلتی ہوئی بس میں ایک طالبہ کے ساتھ گینگ ریپ کے بعد جب پورے بھارت میں کہرام مچاتھاتو پھراس وقت کی حکومت نے ریپ کے قوانین میں سختی لائی گئی تھی لیکن یہ صرف دفتروں کی فائلوں تک ہی محدودہوکررہ گئے۔ تھامسن رائٹرز فانڈیشن کی رپورٹ پربھارت کے معروف ٹی وی نیٹ ورک این ڈی ٹی وی کے تجزیوں اورتبصروں میں کہاگیا ہے کہ انڈیا میں خواتین کے ساتھ انتہائی نا روا سلوک کیا جاتا ہے، ریپ، جنسی تشدد اور ہراساں کیا جانا اور بچیوں کو رحم مادر میں ہی قتل کیا جانا بلا کسی روک ٹوک کے جاری ہے۔اقوام متحدہ کے اقلیتوں کے امور کے خصوصی مندوب ڈاکٹر فرنینڈ ڈی ویرینس نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ بھارت میں مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف کارروائی کی جانا چاہیے اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانا چاہیے۔جبکہ دہلی ہائی کورٹ کی خواتین وکلاء کی ایک تنظیم نے بھی بھارتی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو ایک خط لکھ کرمجرموں کے خلاف ازخودنوٹس لیکر انہیں کیفر دار تک پہنچانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بھارت میں نفرت و فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز مہم میں مسلمان خواتین کو بھی مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بھارت میں نفرت و فرقہ وارانہ تعصب کی بنیاد پر یکے بعد دیگرے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس نفرت انگیز مہم میں مسلمان خواتین کو بھی مختلف طریقوں سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔بادی النظر میں حکومت کی طرف سے ’’بیٹی بچاؤ، بیٹی پڑھاؤ‘‘ نعرہ لگادیاگیاہے لیکن اس نعرے کی ہوااس وقت اکھڑ گئی ہے کہ جب ملک میں مسلم خواتین کو ہراساں کرنے کے واقعات نہ صرف گلی کوچوں اور بازاروں میں پیش آ رہے ہیں بلکہ سوشل میڈیا بھی اس کا پلیٹ فارم بن گیا ہے۔مسلم خواتین کو بے عزت اور بدنام کرنے کے لیے’’نیلامی ‘‘کے ایپ بنائے جاچکی ہیں اور ان کا سوشل میڈیا پر منظم انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے۔ہندوفاشزم کے پیروکاروں اورکارکنوں کی طرف سے سال 2021ء کے ماہ دسمبر میں گِٹ ہب پر’’سولی ڈیل‘‘ ایپ کے بعد ایک نیا ایپ’’بلی بائی‘‘کی شکل میں سامنے آیا، جس میں کم عمر لڑکیوں سے لے کر 65 سال سے زیادہ عمر کی معمر خواتین کو بھی نہ بخشا گیا۔’’بلّی بائی‘‘دراصل ہندی زبان میں ایک توہین آمیز اصطلاح ہے، جسے ہندوفاشزم کی ہندو ٹرول آرمی مسلمان خواتین کو رسوا کرنے کی غرض سے استعمال کرتی ہیں۔ہندو فاشزم نظریے کے حاملین نے’’بلی بائی‘‘ ایپ میںمسلم خواتین کی تصاویر اپ لوڈ کیں اور انہیں گِٹ ہب پلیٹ فارم پر’’نیلام‘‘ کے لیے پوسٹ کیا ہے۔اس شرمناک حرکت کا ایک دلخراش پہلو یہ بھی ہے کہ دہلی کی جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے’’جبری گمشدہ‘‘ طالب علم محمد نجیب کی بوڑھی والدہ کا نام بھی اس نیلامی میں درج ہے، جو اپنے بیٹے کی تلاش کے لیے سرگرم تھیں۔محمدنجیب جے این یو کا طالب علم تھا، جو کنہیا کمار کی’’آزادی‘‘ ایجی ٹیشن کے دوران کیمپس سے غائب ہو گیا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا ہے کہ نجیب کو کیمپس میں ہندوانتہا پسندوں نے مبینہ طور پر قتل کر کے اس کی لاش کو کہیں دبا دیا ہے۔ اس ایپ سے قبل جولائی 2021ء میں’’سولی ڈیلز‘‘ کے عنوان سے ایک ایپ منظر عام پر آئی تھی، جس میں مختلف شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی نامور مسلم خواتین کو نشانہ بنایا گیا تھا۔اس ایپ میں ان خواتین کی تصویروں کے علاوہ ان کے’’پروفائل‘‘ یا ان کی زندگی کی تفصیلات کو نہ صرف عام کیا گیا بلکہ اسے’’ڈیلز آف دی ڈے‘‘کے طور پر بھی پیش کیا گیا۔ ’’بلّی بائی کی طرح’’سولی‘‘ بھی ایک تضحیک آمیز لفظ ہے جو ہندوتوا نظریے کے علمبردار مسلم عورتوں کو آن لائن ٹرول یا دق کرنے کی غرض سے برتتے ہیں۔ درحقیقت یہ کوئی نیلامی کا معاملہ نہیں تھا بلکہ اس ایپ کا مقصد ایسی مسلمان خواتین کی کردار کشی کرنا تھا جو اپنے اپنے میدانوں میں ایک مقام رکھتی ہیں۔دراصل مودی کی سرپرستی میں حکمران جماعت کے آئی ٹی سیل میں تقریباً20,000 کارکن کام کرتے ہیں، جو بالخصوص سوشل میڈیا پر سرگرم رہتے ہیں۔ لگتا ہے کہ انہوں نے ایک ایسا سائبر سسٹم بنا رکھا ہے، جو ملک میں نفرت کا ماحول گرم کرنے میں ہر وقت مستعد رہتا ہے۔