وزیر اعظم شہباز شریف نے پاکستان کی ترقی میں سعودی عرب کے کردار کو بنیادی قرار دیتے ہوئے معیشت کی بحالی کا عزم ظاہر کیا ہے۔ریاض میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران وزیر اعظم نے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان، امیر کویت شیخ مشعل احمد الصباح،اسلامی ترقیاتی بینک کے صدر سلیمان الجاسر ، ایم ڈی انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ سمیت متعدد اہم شخصیات سے ملاقات میں پاکستان میں سرمایہ کاری، تجارت اور حکومتی کوششوں کے بارے میں آگاہ کیا۔رواں ماہ اپریل کے شروع میں پاکستان اور سعودی عرب نے 5 بلین ڈالر کے سرمایہ کاری پیکیج پر تیز رفتار پیشرفت کرنے کے عزم کا اعادہ کیا تھا۔وزیر اعظم ان دنوں سعودی عرب کے دورے پر تھے ۔ملاقات کے دوران ولی عہد نے وزیر اعظم شہباز شریف کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد پیش کی جب کہ وزیر اعظم نے بدلے میں مملکت کی ثابت قدمی اور مہمان نوازی پر شکریہ ادا کیا تھا۔ وزیر اعظم کے دورے کے دوران دونوں ملکوں میں باہمی اقتصادی تعاون کا معاملہ زیر گفتگو رہا جس کے نتیجے میں سعودی عرب نے ایک اعلیٰ سطحی وفد پاکستان بھیجا۔ وزیر خارجہ شہزادہ فیصل کی قیادت میں آنے والے وفد نے صدر مملکت، وزیر اعظم ، آرمی چیف اور خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل کی کمیٹی سے ملاقات کی۔وفد نے پاکستان میں سرمایہ کاروں کو لاحق شکایات اور کاروبار کے ماحول میں بہتری کے امور پر خاص طور پر توجہ دی۔وزیر اعظم شہبازشریف عالمی تعاون، ترقی اور توانائی کے لیے عالمی اقتصادی فورم کے خصوصی اجلاس کے لیے ہفتہ کو ریاض پہنچے تھے۔کانفرنس میں 700 سے زائد شرکاء کو مدعو کیا گیا ہے، جن میں حکومتوں اور بین الاقوامی تنظیموں کے اہم سٹیک ہولڈر، ورلڈ اکنامک فورم کی پارٹنر کمپنیوں کے کاروباری رہنما، ینگ گلوبل لیڈر، ماہرین اور اختراع کار شامل ہیں۔ وزیر اعظم نے سعودی وزراء تجارت، توانائی، ماحولیات اور زراعت کے ساتھ ملاقاتوں میں متعدد منصوبوں میں شراکت داری کے امکانات پر بات کی ہے۔وزیر اعظم کے پہلے دورے، سعودی وفد کے دورہ پاکستان اور اب وزیر اعظم کی سعودی قیادت سے ملاقاتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان معیشت کی بحالی کے عمل میں سعودی شراکت داری کو اہمیت دے رہا ہے۔ سعودی عرب، چین، ایران یا ترکی سے تجارتی و مالیاتی تعاون پاکستان میں اہم تصور کیا جاتا رہا ہے۔گزشتہ دو عشروں کے دوران آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک مالیاتی امور میں پاکستان کے مددگار رہے۔دوست ممالک اور عالمی مالیاتی اداروں سے ملنے والے تعاون کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان نے بہت سے قابل قدر مواقع ضائع کئے ہیں۔ماہرین پاکستان کے معاشی بحران کو تسلیم نہیں کرتے ، ان کا کہنا ہے کہ خرابی کی جڑ وہ نظام ہے جو تجارت، سرمایہ کاری اور برآمدی مواقع سے فائدہ نہیں اٹھانے دیتا۔ پاکستان پر حکمران اشرافیہ کی غیر معمولی گرفت ہے ۔ عام شہری اشرافیہ کے اس شکنجے کے باعث معیشت بحالی کے لئے اپنا کردار ادا نہیں کر پا رہا۔اس کی معاشی استعداد کا تعین اشرافیہ کرتی ہے ۔ اس اشرافیہ کے برتاؤ اور کام کرنے کے طریقے میں بنیادی تبدیلی لائے بغیر، اور اس کے بین الاقوامی سپورٹ سسٹم کے رویے میں تبدیلی کے بغیر، ملک میں ایسی اصلاحات کی امید کم ہے جو معیشت میں دیرپا بہتری لا سکیں۔ماہرین کا یہ سوال قابل غور ہے کہ کیا پاکستان جس حالت میں ہے اس کی وجہ صرف معیشت کی خراب کارکردگی ہے، یا، جس طرح پاکستان میں حکومت کی گئی ہے وہ مسئلہ ہے ؟یا پھر جس وجہ سے معیشت نے خراب کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے؟ دوسرے لفظوں میں پاکستان معیشت سے زیادہ انتظامی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اسے ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ناکامیاں اتفاقی نہیں ہیں، انہیں حکمرانی کے معاملے سے مکمل طور پر الگ تھلگ رکھ کر، ایک کمزور معیشت کی نظر سے نہیں دیکھا جا سکتا۔ مختصراً یہ کہ ملک کو ایک اصولی خرابی اور پالیسی سازی کے ساتھ نظام کے مجموعی رویئے کے مسئلے کا سامنا ہے، جہاں 77 برسوں سے ایک زہریلا گورننس ماڈل چل رہا ہے ۔ جس سے نہ صرف معیشت بلکہ سیاست کے تمام پہلو زہر آلودہوئے ہیں۔آمرانہ حکومتوں کو انتظامی بگاڑ کی وجہ بتانا ایک آسان جواز ہے۔کئی سطحوں پر مزید جواز تشکیل دیئے جا سکتے ہیں ۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں حکمران طبقات نے نطام کو صرف اپنی خدمت کے لئے استعمال کیا۔یہ نظام صرف ان کا قانونی تحفظ کرتا ہے، ان کے کاروباری مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔جہاں عام آدمی کی بات آتی ہے نظام مفلوج ہو جاتا ہے۔ سنگاپور، جنوبی کوریا اور چین کو معمول کے مطابق غیر جمہوری نظاموں کی چمکدار مثالوں کے طور پر پیش کیا جاتا ہے، تاریخ میں مطلق العنان حکومتوں کی ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے، جیسے شمالی کوریا، میانمار، مصر، نائیجیریا، فلپائن، تیونس، جمہوری جمہوریہ کانگو ، ہیٹی، پیرو، گوئٹے مالا، نکاراگوا، وینزویلا، لیکن پاکستان میں ان کا موازنہ نہیں کیا جاتا ۔ افریقہ اور لاطینی امریکہ کا بیشتر حصہ آمریتوں کے باعث دائمی طور پر غریب ہے۔پاکستان میں طبقاتی آمریت قائم ہے جو معاشی بحالی کے راستے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ پاکستان کی واحد امید حکمران اشرافیہ کی جمہوری روایات سے رجوع پر ہے، جس کا آغاز پاکستان کے شہریوں کو شراکتی نمائندگی دینے اور انتخابات میں دیے گئے عوامی مینڈیٹ کا احترام کرنا ہے۔ لوگوں کی اجتماعی رائے کو نظر انداز کرنے سے کوئی پالیسی مفید ثابت نہیں ہو پائے گی۔پاکستان نے دوست ممالک خصوصا سعودیہ کے کہنے پر خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل قائم کر دی ہے ،اسی طرح نظام کو عوام کے تابع رکھنے اور بد انتظامی سے بچانے کے لئے ہنگامی بندوبست درکار ہے۔