عمران خاں جب 2013 ء کی الیکشن مہم چلا رہے تھے تو اس وقت ان کا سب سے زیادہ زور اس بات پر تھا کہ ہم آئی ایم ایف سے قرض نہیں لیں گے۔ ان کا اس وقت کہنا تھا جو قوم امداد یا قرض لیتی ہے اس کی کوئی عزت نہیں رہتی۔ ہم آئی ایم ایف کے بھکاری نہیں بنیں گے۔ اسد عمر ہر پروگرام میں آئی ایم ایف کے قرض کی خامیاں گنواتے تھے۔ وہ کہتے تھے ہم نے پوری تیاری کی ہے کہ کس طرح آئی ایم ایف کے بغیر ملک کو چلانا ہے۔ مگر حکومت کی کارکردگی کا یہ عالم ہے کہ اب تک تین بجٹ پیش ہوئے ہیں اور ہر ایک بجٹ سے پہلے وزیر خزانہ تبدیل ہو جاتا ہے۔ اس لحاظ سے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ملک میں تبدیلی آگئی ہے پہلے پانچ سال ایک ہی وزیر خزانہ بجٹ پیش کرتا تھا اور اس کو اس بات کا ڈر بھی ہوتا تھا کہ اس نے آنے والا بجٹ بھی پیش کرنا ہے۔ اس کو کچھ باتیں کہتے کوئی رکاوٹ ہوتی تھی۔ اب ہر سال ایک نیا بجٹ اور نیا وزیر خزانہ ہوتا ہے۔ اس سلسلہ میں شاید ہم عالمی ریکارڈ بنا چکے ہیں۔ اس حکومت کی مثال اس بس کی ہے جس کا عملہ ہر ایک سٹاپ پر بدل جاتا ہے۔ ابھی تک تو کنڈکٹر تبدیل ہو رہے ہیں شاید آنے والے سال میں ڈرائیور بھی بدل جائے۔ڈرائیور بدلنے کے بعد سفر جاری رہتا ہے یا سواریاں کسی اور بس میں بٹھائی جائیں گی۔ یہ غور طلب بات ہے۔ اس سال بجٹ میں اس بات کا بہت تذکرہ تھا کہ کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا اور بہت سے ٹیکسوں میں چھوٹ دی گئی ہے۔ اب حکومت آئی ایم ایف سے مذاکرات کرتی پھرتی ہے کہ نیا منی بجٹ پیش ہوگا اور جس میں ٹیکسوں کی چھوٹ ختم ہو گئی اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہو گا۔ پاکستان کی امداد آئی ایم ایف نے اپریل میں معطل کر دی تھی۔ پاکستان آئی ایم ایف سے مدد کا طلب گار ہے۔جس میں سے ایک ارب ڈالر فوری درکا ر ہیں اب آئی ایم ایف نے پانچ شرائط رکھی ہیں جن کو پورا کرنے کے بعد پاکستان کو ایک ارب ڈالر مل سکتے ہیں۔ان پانچ شرائط میں سٹیٹ بنک کی خود مختاری، ٹیکسوں میں دی گئی چھوٹ کا خاتمہ، کچھ نئے ٹیکسوں کا اجرا اور بجلی کے بلوں میں اضافہ شامل ہیں۔ اب یہ منی بجٹ حکومت کے لئے سانپ کے گلے میں چھچھوندر کا معاملہ ہے۔ یہ بل منظور ہوتا ہے تو مہنگائی کا ایک سیلاب آجائے گا اور ملک میں پھیلی بے چینی بہت بڑھ جائے گی اور تحریک انصاف کے لئے بہت مشکل ہو گی کہ وہ اپنی مدت پوری کر سکے۔ دوسری صورت میں اگر یہ بل نامنظور ہوتا ہے تو حکومت ختم ہو جائے گی۔ اگر بل پیش نہیں ہوتا تو آئی ایم ایف قرض نہیں دے گا اور ملک دیوالیہ ہو سکتا ہے جس کے بہت برے نتائج ہو سکتے ہیں۔ بل کو منظور کروانا بھی ایک مشکل کام ہے۔ بہت سے اتحادی ممبر اس بل کی حمایت میں ووٹ نہیں دینگے۔ پاکستان تحریک انصاف کے بہت سے لوگ اس بل کی حمایت نہیں کرینگے ۔ یہ بل حکومت کے گلے پڑ گیا ہے۔ پہلے اسمبلی کا اجلاس ہونا تھا جو اب موخر کردیا گیا ہے۔ اس بل کی وجہ سے پاکستان مسلم لیگ نواز کے بت میں پھر سے جان پڑ گئی ہے۔ نواز شریف کی واپسی کی بات ہورہی ہے۔ ایک صحافی یہ دعوی کر چکے ہیں کہ نواز شریف 25 دسمبر سے پہلے پاکستان آسکتے ہیں۔ نواز شریف کی آمد کے بعد کیا منظر نامہ ہوگا کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ان کو دوبارہ جیل بھیجا جا سکتا ہے اس سلسلہ میں پاکستان مسلم لیگ نواز اپنی تحریک کو تیز کر سکتی ہے۔ اگر نواز شریف کو آزاد چھوڑا جا تا ہے تو وہ حکومت کے خلاف اپنی مہم شدت سے چلا سکتے ہیں۔ اس بات میں کوئی شک نہیں ہے کہ اب بھی ملک کا ایک بڑا طبقہ نواز شریف کو حق پر سمجھتا ہے اور اسکا خیال ہے نواز شریف پاکستان کے مسائل کا حل نکال سکتا ہے۔ اتحادی جماعتیں اس بل کو بلیک میلنگ کا ایک سنہرا موقع بھانپ رہی ہیں وہ اپنے مطالبات مزید بڑھا سکتی ہیں۔ حکومت کو ان کے ووٹ لینے کے لئے بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ سب امکانات میں حکومت کے لئے مشکلات ہی مشکلات ہیں۔ پاکستان کے مسائل کا واحد حل طبقہ اشرافیہ کی بے جا مراعات کا خاتمہ ہے۔ جب تک عوام کے خون پسینے کی کمائی اس اشرافیہ کی نظر ہوتی رہے گی ملک کا حال برا ہی رہے گا۔ ان دنوں سوشل میڈیا پر انجلینا جولی کا ایک بیان بہت وائرل ہے جس میں اس نے حکومتی ارکان کی بے حسی کی طرف اشارہ کیا ہے کس طرح ایک طرف لوگ بھوک سے مر رہے تھے اور دوسری طرف ہمارا حکمران طبقہ اس کو تیس تیس ڈشز کی دعوت دے رہا تھا۔ ہم وہ بھکاری ہیں جو گھوڑے پر سوار ہوکر اس آدمی سے امداد لینے جاتے ہیں جو گھوڑے کی سواری کو عیاشی تصور کرتا ہے۔ ہم لینے امداد جاتے ہیں اور حکمرانوں کا ایک لائو لشکر ہوتا ہے جس کی آن بان شان دیکھ کر وہ حکمران یاد آجاتے ہیں جو دنیا کی امیر ترین ریاستوں کے حکمران تھے۔ اس طبقہ شرافیہ میں سب لوگ شامل ہیں۔ پاکستان کے حالات انقلاب فرانس کی جیسی صورت حال کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ مگر ایک فرق ہے فرانسیسی حکمراں طبقہ کا سب کچھ ملک میں تھا جب وقت کا پہیہ چلا تو سب اس میں پس گئے سب کی اولاد وہاں تھی اور جائیداد وہاں تھی ، ہمارا طبقہ اشرافیہ اتنا بیوقوف نہیں ہے اس کی اولاد اور جائیداد سب ملک سے باہر ہے۔ ہم ایک نو آبادی نظام سے تعلق رکھتے ہیں حکمران طبقے کا جب دل کرے گا وہ اپنے اصل وطن کو چلے جائیں گے۔ امریکہ، برطانیہ، فرانس، کنیڈا، آسٹریلیا ، نیوزی لینڈ، کنیڈا سب ان کے ملک ہیں اور پاکستان ایک نو آبادی ہے اور اس کے عوام ان کے غلام۔آئی ایم ایف کا پھندا یا اس حکمراں طبقہ کا پھندا۔ گردن پاکستان کے عوام کی ہے۔