پاکستان کی سیاست میں مارچ اور نومبر کا شور بہت ہوتاہے۔ اپریل کا مہینہ شروع ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ حکومت نومبر میں چلی جائے گی اور جب دسمبر آتا ہے تو کہتے ہیں مارچ میں مارچ ہو جائے گا۔ کوئی نہیں کہتا بھٹو صاحب کی حکومت 5 جولائی کو گئی تھی۔ نواز حکومت اپریل میں گئی تھی غلام اسحاق کے ہاتھوں۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 1985 سے لیکر ابتک کوئی تحریک اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دو بار تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور دونوں بار ناکام ہوئی۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے خلاف تحریک عدم اعتماد یکم نومبر 1989 کو پیش ہوئی اس وقت ایوان 236 ممبر پر مشتمل تھا اور تحریک کی کامیابی کے لئے 119 افراد کی ضرورت تھی اور اپوزیشن کل 102 ووٹ لینے میں کامیاب ہوئی اور یوں 12 ممبر کی کمی سے یہ تحریک نامنظور ہو گئی۔ پاکستان کی تاریخ میں دوسری بار تحریک عدم اعتماد 2006 میں وزیر اعظم شوکت ترین کے خلاف پیش ہوئی اس وقت تحریک کی کامیابی کے لئے 171 ووٹ کی ضرورت تھی اور تحریک کی حمایت میں کل 136 ووٹ ملے اور یوں یہ تحریک 35 ووٹ کم حاصل کر سکی۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کی جمالی صاحب کی حکومت صرف ایک ووٹ کی اکثریت سے کامیاب ہوئی تھی۔ اب آتے ہیں ہم عمران خاں کی حکومت کی طرف۔عمراں خان نے اس وقت 176 ووٹ لئے تھے جبکہ انکو 172 ووٹ کی ضرورت تھی۔اس وقت شہباز شریف 96 ووٹ حاصل کر سکے تھے اور 53 ممبران غیر موجود تھے جنہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ اس وقت پاکستان تحریک انصاف کے پاس 151 ممبر اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے پاس 81 ممبران تھے۔پاکستان پیپلز پارٹی 53 ممبر تھے اور پاکستان مسلم لیگ ق کے تین ممبر تھے۔متحدہ قومی موومنٹ کے کے 7 ممبر تھے۔ 6 مارچ 2021 کو عمران خان نے اسمبلی سے اعتماد کا ووٹ لیا اور اس وقت 178 ووٹ حاصل کئے جو انکے وزیر اعظم بننے کے ووٹوں سے دو زائد تھے۔ اب ایک سال میں کوئی نئی پیش رفت تو نہیں ہوئی عمران خان کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پہلے کی طرح مضبوط ہیں۔ ملک کو مہنگائی کے علاوہ کوئی اور مسئلہ درپیش نہیں ہے۔ برآمدات میں اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان نے ابھی تک اپنے سب سے طاقتور ہتھیار کا استعمال نہیں کیا۔ اس وقت ملک میں نوجوانوں کی بہت تعداد ہے ۔ انڈیا کی آئی ٹی کی برآمدات 125 ارب ڈالر سے زائد ہیں اور پاکستان کی 4 ارب ڈالر سے کم۔ پاکستان کی آئی کی برآمدات کا پوٹینشل 50 ارب ڈالر تک ہو سکتا ہے آنے والے پانچ سال میں اگر منصوبہ سازی ٹھیک کی جائے۔ پاکستان میں چینی کی پیداور میں 10 فی صد سے 20 فی صد تک اضافہ صرف ایک سال میں ہو سکتا ہے۔ اس وقت کسان 50 ارب سے زائد کا گنا بیج کی شکل میں کھیت میں پھینک رہے ہیں۔ اگر گنے کی نرسری لگائی جائے تو 70 من سے 100 من فی ایکڑ کی بچت ہو سکتی ہے۔ پیداور میں اضافہ کی بات ہم ابھی نہیں کر رہے صرف ایک بات سے چینی کا بحران ختم ہو سکتا ہے۔ مہنگائی میں اضافہ تین چیزوں کا زیادہ کردار ہوتا ہے۔ آٹا، چینی، اور گھی۔ اگر بنیادی تین آئٹم پر قابو پا لیا جائے تو مسئلہ 50 فی صد تک حل ہو جاتا ہے۔ اس وقت ساری دنیا میں آرگینک فوڈ کا چرچا ہے اور ہمارا کسان ابھی تک اس سے لا علم ہے۔ کھاد اور پیسٹیسائیڈ کی کمپنی کسان کو اس طرف آنے ہی نہیں دے رہی۔ ڈی آے پی کی در آمد اور کیڑے مار ادویات کی درآمدپر ہر سال اربوں روپے خرچ ہو رہے ہیں۔ اگر یہ حکومت اپنا قبلہ آنے والے دو سالوں میں درست کر لیتی ہے تو اگلے پانچ سال بھی اس حکومت کے ہیں۔ اپوزیشن کے پاس شور مچانے کے علاوہ کچھ ٹھوس اقدامات کی فہرست نہیں ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ یہاں پر کبھی بھی تحریک اعتماد کامیاب نہیں ہوئی۔ ہمارے پڑوسی ملک میں بھارت میں 27 بار تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور تین بار کامیاب ہوئی ہے۔ وی پی سنگھ، اٹل بہاری باجپائی اور ایچ ڈی گوڈا کی حکومت تحریک عدم اعتماد کی بنا پر برخاست ہوئی۔ اندرا گاندھی کے خلاف 15 بار تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی اور ہر بار ناکام ہوئی،لال بہادر شاستری اور نرسمہاراو کے خلاف تین بار تحریک عدم اعتماد پیش ہو ئی ، مرار جی ڈیسائی کے خلاف ایک دو بار اور جواہر لال نہرو، راجیو گاندھی ، باجپائی اور مودی کے خلاف ایک بار تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی۔ 1999 میں باجپائی کے خلاف تحریک عدم اعتماد صرف ایک ووٹ کے مارجن سے کامیاب ہوئی ہے۔تاریخ میں سب سے پہلی تحریک عدم اعتماد 1782 میں برطانوی وزیر اعظم لارڈ نارتھ کے خلاف پیش ہوئی جب برطانوی افواج کو 1781ء میں امریکی انقلابی افواج کے ہاتھوں شکست ہوئی اس وقت سے اب تک کوئی 100 وزیر اعظم اور صدر تحریک عدم اعتماد کی شکل میں اپنی حکومت کھو چکے ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ عمران خان کا نام ان سو سے زائد حکمرانوں میں نہیں ہوگا جو تحریک عدم اعتماد کی بنا پر حکومت گنوا بیٹھے۔ اس وقت چوہدری برادران کا ساتھ عمران خان کے پاس ہے ، ایم کیو ایم بھی عمران کی اتحادی ہے اور بلوچستان عوامی پارٹی (باپ) کا ساتھ بھی عمران خان کو میسر ہے بظاہر حکومت محفوظ ہے۔ جب تک اتحادی جماعتیں عمران کے ساتھ ہیں اس وقت تک عمراں حکومت کو کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جہانگیر ترین گروپ بھی عمران خان کے ساتھ ہے ۔ جب تک مقتدر حلقے عمراں کے ساتھ ہیں انکی پارٹی قائم ہے۔ اس وقت حالات عمران خان کی فیور میں ہیں۔ ای کامرس پورٹل اور راست کے افتتاح کے موقع پر جو اعتماد عمران خان کے چہرے پر تھا وہ سب نے محسوس کیا ہے اور خاص طور پر وہ فقرہ۔ میں اپوزیش کو کہتا ہوں گھبرانا نہیں۔ اب گھبرانے کی باری اپوزیشن کی ہے کہ وہ 2023 میں کس طرح عمران کا راستہ روکے گی۔