ترکیہ اور شام میں 7.9 شدت کے تباہ کن زلزلے سے ہزاروں افراد جاں بحق جبکہ ہزاروں ہی زخمی ہو ئے ہیں ۔ جب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ترکیہ میں ایک اور زلزلے کی اطلاع ملی ہے جس کی شدت 5.6 ریکارڈ کی گئی ہے۔ زلزلے سے جاں بحق افراد کی تعداد کا صحیح اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ ملبے سے لاشیں اور زخمیوں کو نکالنے کا سلسلہ جاری ہے ۔ زلزلے سے ترکیہ اور شام میں سینکڑوں عمارتیں ملبے کا ڈھیر بن چکی ہیں ۔ ریسکیو اہلکاروں کو زلزلے سے سڑکیں تباہ ہونے اور بارش کے باعث امدادی کارروائیوں میں مشکلات کا بھی سامنا ہے ۔ اقوام متحدہ نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اموات کی تعداد ایک لاکھ ہو سکتی ہے۔ امریکی جیولوجیکل سروے کا کہنا ہے کہ اتوار اور پیر کی درمیانی شب آنے والے زلزلے کی شدت ریکڑ سکیل پر 7.9 اورگہرائی 17.9 کلو میٹرتھی، زلزلے کا مرکز ترکیہ کے جنوب مشرقی صوبے غازیان کے نردوی کے قریب تھا۔ زلزلے کے شدید جھٹکے اردن، قبرص اور یونان میں بھی محسوس کیے گئے۔ ترکیہ اور شام میں زلزلے سے تباہی پر پورا پاکستان سوگوار ہے اور پورے ملک میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ بلاول بھٹو نے ترکیہ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وزیراعظم اور وزیرخارجہ کے دورے کا مقصد مصیبت کی گھڑی میں اظہار ہمدردی کرنا ہے، وزیراعظم شہباز شریف ترک صدر طیب اردوان سے بھی ملاقات کریں گے۔ پاکستان میں سیلاب آیا تو ترک حکومت نے سیلاب متاثرین کی بہت مدد کی۔ مظفر گڑھ میں ترک ہسپتال ترکیہ کی محبت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بہت اچھی بات ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کی ہدایت پر پاک فوج کے دو دستے ترکیہ روانہ ہو گئے ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق ترکیہ روانہ ہونے والے پاک فوج کے دستوں میں آرمی ڈاکٹرز، نرسنگ اسٹاف اور ٹیکنیشنز شامل ہیں۔ فوجی امدادی دستے پاکستانی سفارت خانے کے ساتھ قریبی رابطہ رکھ کر کام جاری رکھیں گے اور ریلیف کاموں کی تکمیل تک دستے وہاں موجود رہیں گے، امدادی سامان میں خیمے،کمبل اور دیگرامدادی اشیاء بھی شامل ہیں۔ آئی ایس پی آر کے مطابق پاک فوج کی میڈیکل ٹیم 30 بستروں کا موبائل اسپتال قائم کرے گی۔ حکومت پاکستان کی ہدایات پر 51 رکنی ریسکیو ٹیم پی آئی اے کی پرواز پی کے 707 میں اپنے خصوصی آلات لے کر صبح سویرے لاہور سے استنبول روانہ ہوئی جس میں امدادی سامان بھی بھیجا گیا ہے۔ ترکیہ سے پاکستان کی محبت کا ایک حوالہ یہ بھی ہے کہ ترکیہ کے 81 صوبوں میں سے ایک صوبے کا نام اردو بھی ہے ، پاکستان کی جو سرکاری زبان ہے اس کا نام ترکی سے لیا گیا ہے۔ سرائیکی زبان میں زلزلے کو بھوئیں امب کہتے ہیں ، جس کا مطلب ہے زمین کا لرزنا ۔ جغرافیائی حوالے سے ترکیہ کی سرحدیں8 ممالک سے ملتی ہیں جن میں شمال مغرب میں بلغاریہ، مغرب میں یونان، شمال مشرق میں گرجستان (جارجیا)، مشرق میں آرمینیا، ایران اور آذربائیجان کا علاقہ نخچوان اور جنوب مشرق میں عراق اور شام شامل ہیں۔ علاوہ ازیں شمال میں ملکی سرحدیں بحیرہ اسود، مغرب میں بحیرہ ایجیئن اور بحیرہ مرمرہ اور جنوب میں بحیرہ روم سے ملتی ہیں۔ترکیہ ایک آئینی جمہوریت ہے جس کا موجودہ سیاسی نظام 1923ء میں سقوط سلطنت عثمانیہ کے بعد مصطفٰی کمال اتاترک کی زیر قیادت تشکیل دیا گیا۔ یہ اقوام متحدہ اور موتمر عالم اسلامی کا بانی رکن اور 1949ء سے یورپی مجلس اور 1952ء سے شمالی اوقیانوسی معاہدے کا رکن ہے۔ جبکہ یورپی اتحاد میں شمولیت کے لیے مذاکرات طویل عرصے سے جاری ہیں۔یورپ اور ایشیا کے درمیان میں محل وقوع کے اعتبار سے اہم مقام پر واقع ہونے کی وجہ سے ترکیہ مشرقی اور مغربی ثقافتوں کے تاریخی چوراہے پر واقع ہے۔ محل وقوع کا ذکر آیا ہے تو یہ بھی بتاتے چلیں کہ ترکیہ دو حصوں میں تقسیم ہے، ایک حصہ یورپ میں دوسرا ایشیاء میں ہے۔ ترکیہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ تاریخی حوالے سے دیکھا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے جدید ترکیہ کا موجودہ علاقہ دنیا کے ان قدیم ترین علاقوں میں سے ہے جہاں مستقلاً انسانی تہذیب موجود ہے۔ چتل خیوک، چایونو، نیوالی جوری، خاجی لر، گوبکلی تپہ اور مرسین کے علاقے انسان کی اولین آبادیوں میں سے ایک ہیں۔ترکیہ کے اناطولیہ خطہ کی تاریخ بہت قدیم ہے۔ یہاں پتھر کے زمانے سے انسان موجود ہے۔ بحر اسود کے ارد گرد کے علاقے میں اب سے دس ہزار سال پہلے آبادی کے آثار ملتے ہیں۔ یکم نومبر 1922ء کو ترک مجلس (پارلیمان) نے خلافت کا خاتمہ کر دیا اور یوں اس طرح 631 سالہ عثمانی عہد کا خاتمہ ہو گیا۔ 1923ء کو معاہدہ لوزان کے تحت بین الاقوامی برادری نے نو تشکیل شدہ جمہوریہ ترکیہ کو تسلیم کیا۔ پاکستان کے ترکیہ کے ساتھ برادرانہ تعلقات ہیں ۔ ترکیہ اور پاکستان نے دو طرفہ تجارت پانچ ارب ڈالر سالانہ تک لے جانے کاہدف مقرر کیا ہوا ہے جو کہ زلزلے کے باعث ہدف کے متاثر ہونے کا خدشہ پیدا ہو گیا ہے۔ ترکیہ کے علاوہ شام بھی برادرانہ اسلامی ملک ہے۔ شام ایک عرصہ سے فرقہ واریت کے عذاب کے ساتھ ساتھ طاقت ور ممالک کی مداخلت کے صدمات بھی بھگت رہا ہے۔ موجودہ زلزلے نے شام کے سماجی ڈھانچے اور معیشت کو متاثر کیا ہے۔ تاریخی ، ثقافتی اور جغرافیائی حوالے سے دیکھا جائے ملک شام کی سرزمین پہاڑوں اور وسیع صحرائوں کا مجموعہ ہے، علوم جغرافیہ والے اس کے صحرا کو ’’صحرائے شام‘‘ بھی کہتے ہیں ۔ ترکیہ سے شروع ہونے والا ایک دریا ملک شام میں داخل ہوتا ہے جو یہاں کیلئے قدرتی پانی کا واحد بڑا ذریعہ ہے۔ پہاڑی علاقوں میں چھوٹی بڑی قدرتی جھیلیں بھی موجود ہیں جو علاقے کے حسن کو دوبالا کرتی ہیں ، پہاڑی علاقوں پر کبھی کبھی برف باری بھی ہوتی ہے لیکن بہت کم ، بارشیں بھی کم ہوتی ہین، سال میں ایک دو دفعہ ریت کے ایسے طوفان اٹھتے ہیں کہ آسمان سیاہ ہو جاتا ہے۔ 1962ء میں یہاں تیل دریافت ہوا جس کے بعد اسے اب تک تیل ہی ملک شام کی سب سے نقد آور صنعت ہے۔ دعا ہے کہ ہمارے خوبصورت اسلامی ممالک ترکیہ اور شام کو قدرتی آفات سے نجات دے۔ (آمین)