کوئی بیس سال پرانی بات ہے، سرکاری احکام کی بجاآوری کے لیے سیالکوٹ جانا ہوا،مفوضہ ذمہ داریوں سے فراغت کے بعد ،پروفیسرعبدالجبارشیخ،کے زیر اہتمام قائم شدہ’’سیرت سٹڈی سنٹر‘‘جانے کا موقع مل گیا،پروفیسر صاحب سیالکوٹ ہی میں علوم اسلامیہ کے استاد اور مرحوم صدر ضیاء الحق کے عہد میں معروف اور معتبر ہونے والی سیرت کانفرنسز اور مشائخ و علماء کے اجتماعات میں نمایاں ہوئے اورپھر اسی عہد میں، انہوں نے سیالکوٹ میں اس سنٹر کا آغاز و افتتاح کیا۔ دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ سیرتِ طیبہ ﷺ کے حوالے سے ایسا مرکز تو لاہور میں بھی ہونا چاہیے، زیادہ دن نہ گزرے کہ پنجاب کے ایک سینئر بیوروکریٹ شوکت علی شاہ کی کتاب’’پہنچے تیرے حضور میں‘‘کی تقریب رونمائی،الحمراہال I میںانعقاد پذیر ہوئی،یہ16جنوری2003ء کا سرد،لیکن سورج کی تمازت سے آراستہ،خوبصورت دن تھا،جب صوبے کی چیف ایگزیکٹو کا کارواں اس تقریب میں شرکت کے لیے رواں دواں تھا،اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل پبلک ریلشنز پنجاب شعیب بن عزیز نے،فون پر استفسار کیا،اس نوعیت کی تقریب برپا ہے،اس مناسبت سے حکومت کی طرف سے کیا اناونسمنٹ ہو سکتی ہے۔ بلکہ ان کا سوال بڑا دلچسپ اور دوٹوک تھا،کہ حجازِ مقدس اور دربار اقدس میں حاضری سے مستنیر کتاب کی پذیرائی کی اس تقریب میں،اگر آپ کو چیف گیسٹ کے طور پر کوئی اعلان کرنے کا اختیار میسر ہو، تو آپ کیا کریں گے،’’بلی کے بھاگوں چھکا ٹوٹا‘‘کے مصداق،ایک لمحہ ضائع کیے بغیر،لاہور میں سیرت ریسرچ سنٹر کے قیام کا ادعا بیان ہو گیا،ٹوٹل تیس سیکنڈ کی اس گفتگو کے بعد، فون پر سلسلہ کلام اختتام پذیر ہوا ،خطّے میں قدرے خوشحالی کا دور تھا،ترقیاتی کاموں کی ریل پیل تھی، کوئی ایک گھنٹہ نہ گزرا کہ لاہور میں’’سیرت ریسرچ سنٹر‘‘ کے قیام کی خبر آن ایئر ہو گئی اور اگلے ہی روز اس پراجیکٹ کی تفصیل کے ساتھ طلبیدہ ٹھہرا۔ ابتدائی طور پرجی پی او چوک میں واقع، ایوانِ شاہ چراغ ، اس پراجیکٹ کے لیے موزوں تھا، اس کے مطابق ابتدائی فزیبلٹی پر کام شروع ہو گیا۔ اسی اثنا میں اپرمال پر انٹرنیشنل ہوٹل کے عقب میں حضرت میاں میرؒ کے مزار سے متصل تقریباً 54کنال وقف اراضی جس پر بڑی طویل جدوجہد کے بعد ،سپریم کورٹ سے محکمہ اوقاف کے حق میں فیصلہ ہواتھا، کا اوقاف نے قبضہ حاصل کیا، اسی قطعہ اراضی پر تقریباً 4کنال پر مشتمل ایک پرانی عمارت، جس کے ایک حصّے میں جمعیت علماء پاکستان کا دفتربھی تھا ، جہاں اس وقت مجاہد ملّت مولانا عبدالستار خاں نیازی کی سطوت و عظمت کا پھریرا لہراتا،اوریہ بوسیدہ عمارت اہلسنت کی اس واحد نمائندہ سیاسی جماعت کی سرگرمیوں کا مرکزٹھہری، اس وقت کی اس دینی قیادت میں کیا سادگی اور درویشی تھی،مولانا نورانی اور مولانا نیازی ، جرأت و استقامت اور اصابتِ فکر سے آراستہ ایک پُرنور کارواں کے قائد وسپہ سالار تھے،جنہوں نے صوفیاء کے اسلوبِ محبت اور طرزِ تبلیغ و دعوت کو مضبوطی سے تھاما اور اہلسنت کی اس عظیم اکثریت کو تشدّد اور انتہا پسندانہ رحجانات سے محفوظ و مامون رکھا۔اَسّی کی دھائی میں جب طلبہ سیاست خون آلود ہوئی اور ہماری درسگاہیں،جامعات، کالجز اور یونیورسٹیاں لہو لہو ہونے لگی تو انہی صفوں سے امن کی خوشبو عام کرنے اور طلبہ کی بصیرت کو جگانے بلکہ جگمگانے کا اہتمام ہوا،اور پھر یہی سُنّی لیڈر شپ،جو تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے قائدین کے وارث و جانشین تھی،نے 1978،1979ء میں ملتان اور رائیونڈ میں عظیم تر سُنّی کانفرنسز منعقد کیں،تو نشانے پر آگئے،اور پھر توڑ پھوڑ کا ایک ایسا عمل شروع ہوا،جس کے نتائج ملک و قوم کے سامنے ہیں۔بہرحال۔۔۔اسی طرح اس عمارت کے کچھ اور دعویدار بھی تھے،لیکن جے،یو،پی اور مولانا نیازی صاحب کا معاملہ مختلف نوعیت کا تھا،اس دور کی حکمران جماعت کے عمائدین اور جمعیت علماء پاکستان کے قائدین کے درمیان 12فروری 1990ء کو،قومی اسمبلی کے حلقہ 99کے ضمنی انتخاب میں جمعیت علماء پاکستان کے امیدوار مولانا عبدالغفور الوری کو،اسلامی نظریے کے حامل ووٹوں کی تقسیم کے تدارک کے سبب،مسلم لیگ کے امیدوار کے حق میں، اس شرط پر دستبردار کروا دیا گیا کہ اس کی قدردانی میں جمعیت علماء پاکستان کو سینٹ میں ایک نشست اور ایک عظیم الشان دینی مرکز کی تعمیر وتشکیل کے لیے گراں قدر قطعہ اراضی فراہم کیے جانے کے ساتھ اوقاف کے امور کے نگرانی کے لیے قائم، ممکنہ پانچ رکنی مجلس منتظمہ میں، کم از کم تین ممبران جے یو پی کے نامزد شدہ، شامل ہوں گے۔ اس معاہدہ پر مولانا عبدالستار خان نیازی، میاں محمدنوازشریف ، چوہدری شجاعت حسین، پیر سید برکات احمد ، میاں محمد شہباز شریف، صاحبزادہ ابوالخیر زبیر، غلام حیدر وائیں اور محمدسعیداسدی کے دستخط تھے۔ صوفیاء کی فکر کے امین اور نظام مصطفی ﷺ کے نفاذ اور مقامِ مصطفی ﷺ کے تحفظ کے دعویدار ہونے کے سبب مولانا نیازی اور ان کے رفقاء اس قطعہ اراضی کے حصول کے لیے کوشاں بھی رہے۔ لیکن عدالتی احکام کے تناظر میں اس وقف اراضی کو سرکاری پراجیکٹ کے لیے فوری طور پر زیر استعمال لانا ناگزیر ہوا۔ اور اس پر یکے بعد دیگرے مختلف منصوبہ جات، جن میں سپورٹس کمپلیکس ، انفارمیشن ٹیکنالوجی پارک، میاں میر میڈیکل کمپلیکس ، شاہ میر انسٹی ٹیوٹ آف انفارمیشن ٹیکنالوجی، اوقاف اسلامک سنٹر جیسے گراں قدر پراجیکٹس زیر غورآئے۔ دریں اثنا جون 2003ء کو مشیر برائے سفارتخانہ متحدہ عرب امارات کی وساطت سے شیخ محمد بن راشد المکتوم ٹرسٹ کے زیر اہتمام ابتدائی طور پر ’’میاں میر سیرت ریسرچ سنٹر و پبلک سکول ‘‘کی تجویز زیر غور آئی، ازاں بعد جس کو مزید واضح کرتے ہوئے اس منصوبے کو دو الگ الگ حصّوں میں تقسیم کر دیا گیا، جس کے تحت صوبائی سیرت ریسرچ سنٹر کی تشکیل کے لیے سولہ کنال، جبکہ پبلک سکول بوساطت شیخ محمد بن راشد المکتوم ٹرسٹ کی تعمیر و تشکیل کے لیے 36کنال مختص ہوئے۔ مذکورہ دینی طبقات جن سے یہ اراضی واگزار ہوئی، وہ بھی بنظرِ غائر ایسی سکیموں اور منصوبہ بندیوں پر پوری طرح نظریں جمائے، بلکہ گھات لگائے ہوئے تھے، زمیں کی تقسیم اور بورڈ آف ڈائریکٹرز کی تشکیل اور فارمولے سے متعلقہ حلقے زیادہ مطمئن نہ ہو سکے۔ مذہبی زعماء کے ممکنہ اختلاف و احتجاج کے پیش نظر، شیخ محمد بن راشد المکتوم ٹرسٹ کی شراکت سے حکومت کو مجبوراً دستبردار ہونا پڑا اور یہ ساری اراضی جو محکمہ کے نوٹیفیکیشن کے مطابق 54کنال ، 2مرلے پر محیط ہے، کو قرآن و سنت سے منسوب کرتے ہوئے ، مورخہ 03جون2006ء کو وزیراعلیٰ پنجاب نے سیرت اکیڈمی و قرآن کمپلیکس کے نام سے اس پراجیکٹ کی "Earth Breaking"کردی۔ میرے ذہن میں وہ منظر اچھی طرح نقش ہے، جب اس چٹیل میدان میں اہلِ اوقاف کا کاررواں اُترا، اور پھر یہاں پر ’’سنگ بنیاد‘‘کی رونمائی اور نقاب کشائی کے ساتھ، ایک پُرشکوہ تقریب کا بھی انعقاد ہوا، جس میں مذہبی قائدین ، سیاسی زعماء اور عمائدین سلطنت ۔۔۔ کثیر تعداد میں موجود ہوئے۔ عمارت کے لیے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ 8۔کلب روڈ کی عمارت کا معیار مانا گیا، محکمہ مواصلات و تعمیرات ان ذمہ داریوں کا حامل ٹھہرا۔ ابتدائی طور پر پچپن کروڑ کا تخمینہ برائے تعمیر متعین ہوا، جس میں بیس فیصد محکمہ اوقاف کے ، جبکہ اسی فیصد پنجاب گورنمنٹ کے ذمہ آیا۔ تعمیرات کا آغاز ہنگامی بلکہ جنگی بنیادوں پر ہوا۔ عمارت کے ایک حصّے کی تکمیل پر ، چوہدری پرویز الٰہی نے اپنی وزارت اعلیٰ کے آخری روز مورخہ 18نومبر 2007ئ، بلڈنگ کا افتتاح کر کے ، اپنے نام کی تختی آویزاں فرما دی۔ اس کے بعد۔۔۔۔ پھر کئی سال گُم ہوگئے اور یہ گراں قدر اور عظیم منصوبہ تساہل کا شکار ہو گیا۔ تآنکہ 17دسمبر2014ء ، پنجاب اسمبلی نے "پنجاب انسٹیٹیوٹ آف قرآن اینڈ سیرت سٹڈیز ایکٹ 2014 " منظور کرتے ہوئے، اس عظیم عمارت کو قرآن و سنت کی ترویج کے لیے "سنٹر آف ایکسیلنس "کے طور پر معتبر گردانا۔