کیا با برکت زندگیاں تھیں ہمارے اسلاف اور اکابرین کی، یہاں تو ساٹھ،اور ستر کے پیٹے میں پہنچ کر بھی،ابھی کچھ کرنے اور کر گزرنے کے لیے راستوں،راہوں اور زاویوں کا تعین ہی ہو رہا ہوتا،اور کیریئر پلاننگ کا سلسلہ جاری رہتا ہے، اور وہ لوگ پچاس،پچپن سال کی زندگی میں وہ کچھ کر گئے، جہاں لوگوں کا پہنچنا اور سوچنا بھی محال۔حضرت اقبالؒ اِکسٹھ برس کی عمر میں راہی ملکِ عدم ہو گئے،آخری لمحوں میں اپنے خادمِ خاص سے فرمایا کہ علی بخش ہم جا رہے ہیں،اور گواہ رہنا ہم اِکسٹھ برس میں جا رہے ہیں،پھر فرمایا کہ ایک خادم اور غلام اپنے آقا سے دو قدم پیچھے ہی چلتا اچھا لگتا ہے۔بلکہ حکیم احمد شجاع،جو اقبال کے مصاحبِ خاص تھے،کہتے ہیں کہ اقبال عمر کے آخری حصّے میں اس بات پر متفکر اور مضطرب رہتے تھے کہ کہیں اس کی عمر،اس کے رسول ﷺ کی ظاہری حیات یعنی تریسٹھ برس سے زیادہ نہ ہو جائے،ملک الشعرا حضرت خواجہ غلام فریدؒ محض 54سال کی عمر میں داعی اجل کو لبیک کہہ گئے۔امام غزالیؒ کی عمراس سے بھی کم،لیکن ایسا عبقری اور جینئس کہ اُمّت کی رہبری اور راہنمائی کیلیے کوئی ایسا موضوع نہ چھوڑا، جس پر قلم اٹھانے کی ضرورت تھی اور پھر انہوں نے نہ اُٹھایا ہو۔ بہرحال،ہمارے آج کے ممدوح حضرت خواجہ غلام فریدؒ جن کے بارے میں اقبال نے کہا تھا کہ جس قوم میں خواجہ غلام فریدؒ جیسے صوفی شعرا ء اور نابغہ موجود ہوں،وہاں سوزو گداز اور عشق و مستی کی فراوانی کیسے ممکن نہیں، حُسنِ اتفاق،یوم اقبال کی تقریبات کا غُلغلہ ابھی جاری ہی تھا کہ اُس سے متصل، یعنی اگلے ہی روز ملک الشعراء حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے 124ویں یوم وصال کی تقریبات کا آغاز الحمرا ہال میں ’’تصوّف سیمینار‘‘کے انعقادواہتمام سے ہو گیا،پھر11نومبر بمطابق 5ربیع الثانی کو آپکے آستانِ قدس میں،آپکے عرس کی سالانہ تقریبات کا آغاز و افتتاح رسم چادر پوشی کا اعزاز میسر ہوا۔موٹروے نے جہاں اور بہت سے سفر آساں کئے،ان میں کوٹ مٹھن شریف کا بھی شامل ہے، دس گھنٹے پہ محیط یہ طویل مسافت اب سمٹ کر پانچ گھنٹے تک محدود ہو گئی ہے اور اب ظاہر پیر انٹرچینج سے،دریائے سندھ کا پل عبور کرتے ہوئے، آپ کوٹ مٹھن پہنچ جاتے ہیں، کچھ عرصہ پہلے تک یہاں کشتیوں کا پُل تھا۔دریائے سندھ کا شباب اور زور،میں نے یہاں پر جس طرح اپنے عروج اور نقطہ کمال پہ دیکھا،ویسا کہیں اور نہ دیکھ سکا، یہیں پر چاچڑاں شریف ہے،جسکا تذکرہ حضرت خواجہ غلام فریدؒ نے اپنے کلام میں جابجا فرمایا،تقریباً دس سال قبل اپنے ایسے ہی ایک سفر میں مجھے چاچڑاں شریف اور پھر’’فریدی محل‘‘دیکھنے کا موقع بھی میسر آیا،جو اگرچہ1960ء کے ایک سرکاری نوٹیفیکیشن کے مطابق،سرکار کی تحویل میں ہے،مگر عملاً یہاں پر اِس وقت بھی حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے نبیرہ اور خانوادہ کے لوگ ہی آباد ہیں،اسی محل میں حضرت خواجہ غلام فرید ؒ کی ولادت ہوئی۔ویسے کوٹ مٹھن کی آبادی اور آبادکاری بھی حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے آباؤ اجداد ہی کے رہینِ منت ہے،آپؒ کے دادا کے دادا مخدوم محمد شریف کا ایک راسخ العقیدہ مرید’’مٹھن خان‘‘،جو اس علاقے کا رئیس تھا،اس نے اپنے شیخِ طریقت کی خاطر،دریائے سندھ کے مغربی کنارے پریہ بستی آباد کی، جس کا نام ان دونوں پیر اور مرید کے نام پر’’کوٹ مٹھن شریف‘‘رکھا گیا، یعنی یہاں لفظ ’’شریف‘‘ ذاتی ہے نہ صفاتی ۔ حضرت خواجہ غلام فرید ؒ (1845ئ۔1901ئ)نسباً فاروقی ، مسلکاًحنفی اور مشرباً چشتی نظامی تھے۔ آپؒ کا تاریخی اسم گرامی ’’خورشید عالم‘‘تھا، لیکن ’’فرید‘‘کے نام سے معروف ہوئے ۔ علوم شریعت وطریقت میں کمال پایا،پوربی، ہندی،سندھی،اُردو اور فارسی کے شعر کہے لیکن اپنے احساسات وجذبات ،عقائد ونظریات،مسائل تصوف اور بالخصوص’’وحدت الوجود‘‘کو سرائیکی زبان میں زوردار اور دلکش انداز میں پیش کیااور خوب کیا ۔ انہیں سرائیکی زبان کا ’’رومی‘‘ ہیوم اور ملک الشعرا کہا گیا۔ ان کی’’ہمہ اوستی‘‘ فکر نے تصّوف کی دنیا میں ایک انقلاب برپا کر دیا۔ ان کی سوچ اور فکر کا راستہ جہاں حُسنِ فطرت کے نظاروں، روہی رُت رنگیلڑ ی کی بہاروں، اُجڑی جھوکوں، ٹیلوں، ویرانوں، جنگلوں، ٹوبھوں، نخلستانوں، صحرائی قافلوں اور روہی کی تہذیب و ثقافت کے خارجی مناظر سے ہوکر گزرتا ہے، وہیں ان کی نظر اپنی قطار سے بچھڑی کُونج پر بھی پڑتی ، وہ فطرت کے ہر رنگ میں جلوۂ یار کو دیکھتے اور اس کا بر ملا اظہار فرماتے: ہمہ اوست دے بھید نیارے ہر ہر شے وچ کرن نظارے جانن وحدت دے ونجارے اصل تجلی طوری نوں یعنی: ’’ہمہ اوست(وحدت الوجود) کے اسرار و رموز عجیب و غریب اور نرالے ہیں، انہیں تو صرف وحدت کے متلاشی (وجودی نظریات رکھنے والے) ہی جان سکتے ہیں، جو ہر چیز میں ذاتِ حق کا جلوہ دیکھتے ہیں۔‘‘ حضرت خواجہ غلام فریدؒ 9سال کے تھے کہ آپؒ کے والد ،اللہ کو پیارے ہوگئے۔ والی ٔریاست بہاولپور نواب فتح یار جنگ ،جوکہ آپؒ کے والد ماجد حضرت خواجہ خدابخشؒ کے مرید تھے ، نے آپؒ کے برادرِکلاں اور شیخ ، حضرت خواجہ غلام فخر الدینؒ کی اجازت سے آپ ؒکے قیام کا اہتمام ،ڈیرہ نواب کے شاہی محل میں فرمایا ۔ آپؒ صاحب ِ کرامت بزرگ تھے۔ایک مرتبہ ملک میں خشک سالی ہوگئی ، نواب صاحب نے آپ ؒسے بارش کے لیے دعا کی درخواست کی ،آپؒ نے کچھ دیر مراقبہ کیا ، اور پھر دُعا فرمائی اور اللہ کے فضل سے ایسی بارش ہوئی کہ تمام ملک سیراب ہوگیا ۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ اپنے برادرِکلاں حضرت خواجہ غلام فخر الدینؒ کے وصال،بمطابق5؍جمادی الاوّل 1288ھ،27سال کی عمر میں مسند ِرُشد وہدایت پہ متمکن ہوئے ۔آپ ؒ کے علمی تبحر اور باطنی کمالات کا شُہرہ ،جوکہ پہلے ہی چار دانگ عالم میں تھا، سریر آرائے مسند ہونے پر نقطۂ عروج کو پہنچ گیا۔ لوگ جوق در جوق حاضر ہو کر شرفِ بیعت سے سرفراز ہونے لگے ۔ آپؒ کے دیگر کمالات کے علاوہ ایک اہم ترین یہ تھا کہ آپؒ از خود مسندِ تدریس پر جلوہ گر ہوتے اور بالخصوص یارانِ طریقت کو تفسیر ، حدیث کے ساتھ بطورِ خاص کتبِ تصوّف جن میں عوارف المعارف ،فصوص الحکم ، لوائح جامی اور احیاء العلوم شامل ہیں، کا درس دیتے۔نشست کے اختتام پر بطورِ خاص علماء اور طلبہ کے لیے دسترخوان آراستہ کرتے ۔ حضرت خواجہ غلام فریدؒ کے تذکرہ نگار اس امر پر متفق ہیں کہ آپؒ نے اٹھارہ سال روہی(چولستان) کے صحرا میں زُہدوریاضت اور عبادت ومجاہدہ میں صَرف کیے۔آپؒ نے راہِ طریقت و تصوف میں نئے انداز بھی متعارف کروائے، عشق حقیقی و مجازی کی عمومی بحثوں اور رحجانات میں ایک نئی راہ اور اسلوب "عشق و جودی" کی طرح ڈالی۔ ان کے نزدیک عشق،حصولِ معرفت کی اساس اور بنیادہے جس سے انسانوں کو حقیقی سکون میسر آتا ہے۔ حضرت خواجہ صاحبؒ کا کلام اور افکار و نظریات امید ، زندگی اور حرارت کا پیغام اور سراسر عمل کی دعوت ہے اور اس پیغام اور دعوت کو عام کرنے کی آج بھی اتنی ہی ضرورت ہے، جتنی کہ کل تھی۔حضرت خواجہ صاحبؒ کا کلام کامل توحید، کامل تقویٰ اور کامل محبت کا آئینہ دار اور عشقِ رسولﷺ سے منور ہے اور یہی ان کے فکروفن کاحقیقی فلسفہ واصل حکمت ہے، اور اسی کی ترویج اور تشہیر کی ضرورت ہے تاکہ ایسے اکابر صوفیا کے فکر و فلسفہ پر بلاوجہ آنے والے اعتراضات کا تدارک ہو سکے۔