ایران کے ساتھ مشترکہ جوہری معاہدے سے امریکہ کے نکلنے کے بعد یورپ اور امریکہ کے درمیان خلیج وسیع ہوگئی ہے ۔ایک طرف یورپ ہے جس نے ایران کے ساتھ اس معاہدے سے کماحقہ فائدہ اٹھایا اور تیل اور دیگر اجناس کی کھل کر تجارت کی جس سے طرفین کے معاشی حجم میں اضافہ ہوا۔اس معاہدے کے دوران ایران کے ساتھ باہمی تجارت سے فائدہ اٹھانے والے یورپی ممالک میں جرمنی، فرانس، اٹلی اور برطانیہ سرفہرست رہے۔گزشتہ سال کے صرف پہلے نو ماہ میں یورپی یونین اور ایران کے مابین درآمدات وبرآمدات کا حجم پندرہ بلین یورو رہا جوجوہری معاہدے کے پہلے سال کے مقابلے میں دوگنا تھا۔ایران کی اٹھائیس یورپی ممالک کو برآمدات 7.3بلین یورو جبکہ یورپ سے ایران کی درآمدات 7.5بلین یورو رہیں جو نہ صرف پچھلے سال کے مقابلے میں دگنی تھیں بلکہ ان میں اضافہ ہوتا جارہا تھا۔اسی سال یورپ کے زراعتی کمشن کے سربراہ فل ہوگن اپنے ساتھ انیس یورپی ممالک کا ستر رکنی وقد تہران لے گئے جس میں چالیس یورپی کمپنیوں کے نمائندے اور تجار بھی شامل تھے۔اس وفد نے زراعت و خوراک کے بڑے معاہدے ایران کے ساتھ کئے جن میں ان یورپی کمپنیوں کے اپنے پیداواری یونٹ کی ایران میں تنصیب بھی شامل تھی ۔ایران اور یورپ کے پاس خوراک اور لائیو اسٹاک کی مد میں ایک دوسرے کو دینے کے لئے اتنا کچھ ہے کہ اس جوہری معاہدے کے بعد ایران اور یورپی یونین کی صرف خوراک اور لائیو اسٹاک کی مد میں تجارت کا حجم پچانوے فیصد تک بڑھ گیا۔سب کچھ ٹھیک چل رہا تھا اور ایران اور یورپ کی پینگیں آسمان کو چھو رہی تھیں کہ امریکہ میں ٹرمپ آگئے ۔اور یہ طے تھا کہ وہ آئیں گے تو ایران کے ساتھ جوہری ڈیل کا مستقبل کیا ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے سامنے جو میڈیا کی منفی مہم اور رائے عامہ کے برخلاف غیر متوقع طور پہ وائٹ ہاوس میں پدھارے تھے ، اپنی ساکھ بنانے کے لئے وقت کم تھا۔ ان کو سب سے بڑے جس اسکینڈل کا سامنا تھا وہ امریکی انتخابات میں روسی مداخلت تھی ۔ یہ ایسا داغ تھا جسے دھونا ان کے لئے ناممکن تھا۔ وہ اس قضیے میں الجھے رہیں گے ایسا طے ہوچکا ہے۔ ممکنہ طور پہ یہ امریکہ میں صیہونی لابی اور روس میں صلیبی لابی کا مشترکہ پھندہ ہے جو صدر ٹرمپ کو قابو میں رکھنے کے لئے بنا گیا تھا۔ اس لئے گمان یہی ہے کہ وہ اس سے نہ صرف یہ کہ نکل نہیں پائیں گے بلکہ وہ اگر گئے تو اسی قصے میں جائیں گے۔ اس داغ کو دھونے کے لیے ان کے سامنے امریکہ کی گرتی معیشت ، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور ہیلتھ کیئر کے مسائل تھے جنہیں حل کرکے وہ امریکی عوام کو مطمئن کرسکتے تھے اور یہ حقیقت ہے کہ انہوں نے ایسا کرکے دکھایا ہے ۔یہ وہ مسائل تھے جنہوں نے صدر ٹرمپ کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے پہ نظر ثانی کرنے سے دور رکھا۔ فیصلہ وہ کرچکے تھے بس درست وقت کا انتظار تھا۔ ابھی شام میں محاذ گرم تھا اور روس کو بشار الاسد کی ضرورت تھی۔ایران اپنے منجمد اثاثوں کی روانی شام میں استعمال کررہا تھا ساتھ ہی یورپ کے ساتھ تجارت اور شمالی افریقہ سے حاصل ہونے والی آمدنی کا بڑا حصہ بھی وہیں جھونکا جارہا تھا۔ مشترکہ دشمن بس ایک تھا اور وہ تھے و ہ مسلح گروپ جن کا تعلق دوسرے مکتبہ فکر سے تھا۔ایران اس وقت سب کی ضرورت تھا۔ اس کے پاس حزب اللہ اور پاسداران انقلاب جیسی تجربہ کار اور خطے کو روس اور امریکہ سے زیادہ جاننے والی جنگجو افواج تھیں۔ ایران نے القاعدہ کی حمایت بھی ترک کردی تھی اور قطر پہ اسی الزام میں پابندی بھی لگ گئی تھی۔ جیسے ہی شام کا آخری محاذ بھی دشمن سے واگزار کروا کے خالی جگہ کو حسب منشا پر کردیا گیا، ایران کا کام ختم ہوگیا اور اسرائیل نے شام میں ایرانی اڈوں پہ سنجیدہ حملے شروع کردیے۔ساتھ ہی امریکہ نے جوہری معاہدے سے نکلنے کا اعلان کردیا۔ اس اعلان کی سن گن ملتے ہی ا مریکہ کے سیاسی اتحادی برطانیہ،فرانس اور جرمنی جو اس معاہدے کو برقرار رکھنے کے لئے لابنگ کر رہے تھے ایک مشترکہ یونین بنا ئی جس کے تحت برطانیہ اور یورپی یونین کے اعلی عہدیداروں نے امریکی کانگریس ارکان سے مل کر جوہری معاہدے کو ختم نہ کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہوسکے۔اکتوبر میں جب صدر ٹرمپ نے اعلان کیا کہ ایران جوہری معاہدے کی پاسداری نہیں کررہا تو اس یونین نے واضح کردیا کہ اگر امریکہ اس معاہدے سے نکلا تو نہ صرف یہ کہ یورپ نہیں نکلے گا بلکہ اگر امریکہ کی طرف سے ایران کے ساتھ تجارت کرنے والی یورپی کمپنیوں پہ پابندی لگائی گئی تووہ ان قوانین کا استعمال کرے گا جو ان کمپنیوں کو کسی کے بھی ساتھ تجارت کا حق دیتے ہیں۔یہ قوانین نوے کی دہائی میں بھی یورپ استعمال کرچکا ہے جب ایران پہ ایران عراق جنگ کے دوران پابندیاں لگائی گئی تھیں۔اس سلسلے میں گزشتہ دنوں جوہری معاہدہ مشترکہ کمیشن کا اجلاس ویانا میں ہواجس میں روس اور چین سمیت امریکہ کے سوا تمام رکن ممالک نے شرکت کی اور جوہری معاہدے کو جاری رکھنے پہ زور دیا۔روسی صدر پوٹن نے بظاہر ایران کے ساتھ اپنی قربت کا ثبوت دیتے ہوئے امریکہ کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اس معاہدے سے نکلنا خود امریکہ اور اسرائیل کے لئے کتنا خطرناک ہوگا جبکہ امریکہ اس وقت اس معاہدے سے نکلا ہے جب عالمی جوہری معائنہ کار ادارے نے ایران سے سب اچھا کی رپورٹ دی تھی۔اگر ایران خود اس معاہدے سے نکل گیا تو اسے جوہری طاقت بننے سے کون روک سکتا ہے۔بات اصولی تھی لیکن فیصلہ ہوچکا تھا۔آپ نے دیکھا ہوگا کہ شمالی کوریا کے ساتھ معاملات بگڑے ، بنے اور پھر بگڑ گئے لیکن امریکہ کو ہر صورت میں شمالی کوریا کا مسئلہ نبٹانا ہے۔ اس لئے بارہ جون کو ہونے والی ملاقات ایک بار ملتوی کرکے دوبارہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کو سمجھانے کے لئے بھیجا گیا اور اب یہ ملاقات مقررہ وقت پہ ہوکر رہے گی۔وجہ سادہ سی ہے۔ ایران کا مسئلہ اہم ہے اور اسے نبٹانا ضروری ہے۔اس کے لیے غیر ضروری محاذ بند کیے جارہے ہیں۔جرمنی جو ایران کا اہم ترین تجارتی شریک ہے، اس پہ امریکہ نے پابندیاں نہیں لگائیں کہ وہ موثر نہیں ہونگی اور بدنامی کا باعث بنیں گی۔ اس مقصد کے لئے سعودی عرب کو آگے کیا گیا ہے اور اس نے جرمنی کو اقتصادی بائیکاٹ کی دھمکی دے دی ہے۔جرمنی کی ڈیملر کمپنی غالبا ًبن لادن گروپ کے لئے بڑی تعداد میں بسیں تیار کرتی ہے، اب اسے بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح امریکہ کے اتحادی خلیجی ممالک نے یورپی ممالک کا انفرادی بائیکاٹ شروع کیا تو صورتحال قابو سے باہر ہوجائے گی لیکن امریکہ کے حریف روس کے ساتھ خلیج کے معاملات دوسرے ہیں اور اوپیک روس کے ساتھ تیل کی پیداوار کے بڑے معاہدے کررہی ہے یہ ایک عجیب بات ہے۔ایران نے معاہدے کے دوران یورپ کی کمائی شام میں لٹائی اور اس کے اپنے نوجوان روزگار کو ترستے اور سڑکوں پہ احتجاج کرتے رہے۔ اب اسی ایران کے لئے بری خبریں دو ہیں۔ ایک عراق میں مقتدی المنصور کے اتحاد کی کامیابی دوسرے شام میں روس کی بے وفائی۔ جن پتوں پہ ایران کو تکیہ تھا وہ ہوا دینے لگے ہیں۔شام میں، دیر الزور میں پانچ روسی فوجی بلکہ پرائیویٹ عسکری کارندے داعش کے ہاتھوں مارے گئے۔ اس سے قبل صدر پوٹن اور نتن یاہو کی ملاقات نو مئی کو ماسکو میں ہوئی۔اس کے بعد روس نے شام میں پینترا بدلنا شروع کردیا اور اسرائیل کو کھل کھیلنے کی اجازت دے دی۔اس کے بعد ہی اسرائیل نے شام اور گولن ہائٹس میں حزب اللہ پہ بڑے حملے کئے۔اسرائیل اور روس کا یہ گٹھ جوڑ کوئی نیا نہیں تھا بات بس یہی تھی کہ ایران کا کام ختم ہوگیا تھا۔ اب صورتحال کچھ یوں ہے کہ روس شام سے اپنی فوجیں جلد واپس بلا رہا ہے ۔روس کا بنیادی مقصد شام میں بشار الاسد کی حکومت بچانے سے زیادہ یوکرین پہ قبضے کے بعد عالمی تنہائی سے نمٹنا اور دنیا کو دکھانا تھا کہ اس خاکستر میں ابھی چنگاری باقی ہے۔ ایران کی مدد سے اس نے یہ کردار بخوبی نبھایا ہے لیکن اس کے لئے وہ کوئی بڑی قیمت دینے کو تیار نہیں۔ ایک طرف وہ ایران کے ہاتھ مضبوط کرتا رہا اور جب ایران کو تنہا کرنے کا وقت آیا تو اسرائیل کے ساتھ ہاتھ ملالئے۔اس کے ساتھ ہی اس نے مشرق وسطی میں اپنے پیر مضبوطی سے جمالئے اور دنیا بھر کو یہ پیغام دیا کہ وہ اب بھی دنیا کے سب سے بڑے عسکری محاذ پہ پانسہ پلٹنے کی صلاحیت رکھتاہے۔حمامین ائیر بیس اور طرطوس میں عسکری اڈوں کی صورت میں روس خطے کی چوکیداری ضرور کرے گا لیکن شام میں ایران کی معاونت اب وہ نہیں کرے گا۔امریکہ کے بدلتے تیوروں کے ساتھ روس کی عین وقت پہ بے وفائی ایران کے لئے اچھا شگون نہیں ہے۔ یورپ پہ بھروسہ کرنا تو حماقت ہی ہوگی۔اس نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔