مجھے اس امر کا بالکل بھی اندازہ نہیں تھا کہ گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے اساتذہ اور طلبہ پروفیسر احمد رفیق اختر کی آمد پر اس قدر پُرجوش ہونگے،اس میں بنیادی اور کلیدی کردار تو بلاشبہ اس عظیم ادارے کے محترم اور معتبر سربراہ ڈاکٹر سید اصغر زیدی کا ہے،جو عمر اور کیرئیر کے اس حصّے میں بھی اس قدر مستعد اور عملی و تخلیقی جذبوں سے مالا مال ہیں،کچھ کرنے اور کر گزرنے کے حوالے سے حضرت عمرؓکا یہ فرمانِ ذیشان ۔۔۔جو امت مسلمہ کے لیے منزل نشان ہے ، کہ منصوبہ بندی سوسال کی کرو،لیکن عملدرآمد ایسے ۔۔۔جیسے یہ زندگی کا آخری دن ہے ۔ جی سی کے’’ اکیڈمکس‘‘اپنی جگہ،لیکن اس کی تقریباتی اور تعمیراتی سرگرمیاں۔۔۔جو قطرے کو گوہر بنادیں،گزشتہ روز حضرت داتا گنج بخشؒ کے 978 ویں سالانہ عرس کے سلسلے میں سہ روزہ عالمی کانفرنس کے دوسرے روز کا سیشن، ڈاکٹر زیدی کی سرکردگی میں جی سی یونیورسٹی کے ’’بخاری آڈیٹوریم‘‘میں منعقد ہوا۔ جس سے وی سی صاحب کے اُس وعدہ کی تکمیل ہوئی،جو گزشتہ برس داتاؒ دربار میں ، انہوں نے 977 ویں عرس پر منعقدہ،عالمی کانفرنس کے موقع پر کیا تھا ، ڈاکٹر صاحب جواں جذبوں کے امین اور صداقت و دیانت کے پیکر ہیں، وہ مہمانوں کا خیر مقدم کرنے اور کانفرنس کو بامقصد بنانے میں جس قدر پُر جوش اور سرگرم تھے ، اس کا بالعموم ہمارے ہاں رواج نہیں۔ اپنی مٹی کی محبت میں،ڈاکٹر صاحب آکسفورڈاورکیمبرج کوخیر باد کہہ کر لاہور،بلکہ جی سی یونیورسٹی میں مقیم ہوئے۔ بہت کچھ کرنے اور کرگزرنے کی لگن،طلب اور تڑپ ان میں ہمہ وقت موجزن،بلکہ جوش زن ہے۔امامِ مغرب الشیخ ابوالحسن الشاذلیؒ ریسرچ سینٹر کی تشکیل و تخلیق کا عمل پنجاب گورنمنٹ کی سرکردگی اور ڈاکٹر زید کی سربراہی میں جی سی یو نیورسٹی کے کالاشاہ کاکوکیمپس میں جاری ہے۔جس کے لیے اوقاف ومذہبی امور،جو ایسے متصوفانہ افکاراور روایات کی ترویج کے لیے ہمہ وقت اپنے بازو وَاکیے رکھتا ہے،’’مفاہمت کی یادداشت‘‘پر دستخط کر کے جی سی یونیورسٹی کا پارٹنربنے گا ،(انشا اللہ) اور یوں روادارانہ معاشرے کی تشکیل کے لیے سوسائٹی کو بنیادی طور پر ، تزکیہ، طہارت ،پاکیزگی اور حُسنِ عمل کے جس پراسیس سے گزرنے کی ضرورت ہے، اس کا اہتمام ایسے ہی اداروں کی ترتیب و تشکیل سے ممکن ہوسکے گا، اسی طرح، جی سی اور اوقاف کا ایک اور مشترکہ تحقیقی پراجیکٹ جی سی یونیورسٹی میں’’مسند علی ہجویری‘‘کا قیام ہے ۔ جس کا ہوم ورک ڈاکٹر زیدی صاحب نہایت تندہی اور اخلاص سے کر رہے ہیں، ان کی یہ بات بہت وزن رکھتی ہے کہ بالعموم ایسے کاموں کو مضبوط قانونی بنیادوں پر استوار کرنے کی بجائے، محض علامتی اور فرضی اہتمامات تک موقوف کردیا جاتا ہے، جس پر ایسے امور دیر پا قیام کے حامل نہیں ہو پاتے ۔ بہر حال آج توبات کرنا تھی،"عارف وقت"پروفیسر احمد رفیق اخترکی ، جو از خود اولڈ راوین ہیں، اور کم و بیش ساٹھ سال کے بعد آج ان کی یہاں آمد۔۔۔ایسے انداز میں ہوئی کہ یونیورسٹی کے درودیوارنظریں جھکائے اور پلکیں بچھائے ایستادہ محسوس ہوئے، پروفیسر صاحب حضرت علی ہجویری داتا گنج بخشؒ کو اپنا استاذ، شیخ،مرشد اور پیر طریقت مانتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اللہ ، اس کے رسول ﷺ اور اہل بیت اطہار کے بعد تصوّف کے حسب ذیل چاربڑے امام اور مضبوط ستون ہیں۔ سیّد الطائف جنیدی بغدادیؒ، غوثِ صمدانی سیّدنا الشیخ عبد القادر جیلانی ؒ، امام مغرب خواجہ ابو الحسن شاذلیؒ اور سیّد ہجویر داتا گنج بخشؒ۔۔۔ ان میں سیّد ہجویرؒ کو سب پرفوقیت میسر ہے کہ اتنا بڑا عالم مشرق و مغرب میں کوئی نہ گزرا ۔ اسقدر"Exactitude" یعنی قطعیت ، موزونیت اور مطابقت اور ان کی داخلی اور خارجی کیفیتیوں میں اتنا توازن، اور ان کے ارشادات، فرمودات اور تحریرات میں اتنی"Scientifice approach" کہ جب ایک سادہ شاگرد کے طور پر میں نے اپنا تھیسس اپنے انگریز پروفیسر کو پیش کیا ، تو اس نے مجھے ایک "Compliment" دیا ،جو کہ میرے لیے نہایت اہمیت کاحامل تھا ، اس نے کہا :۔ "His approach towards God is as we approach quantum and relativity" یعنی اتنی "Scientific approach" میں نے سیّد ہجویر کے علاوہ اور کسی صوفی میں، نہیں دیکھی۔ مجھے" ہجویرین" کی بڑی ٹوہ رہتی ہے ، اور ان کو دریافت کرتا رہتا ہوں ، چنانچہ پانچ سال قبل پروفیسر صاحب کو داتاؒ دربار مدعو کیا ، اورعرض گزار ہوا کہ مرید اپنے پیر کے عرس پر بڑی سج دھج اور اہتمام سے آتے ہیں، آپ کو ظاہری طور پر دیکھا نہیں گیا ، لیکن آپ کی ہر گفتگو اور تحریر اس امر کی گواہ ہے کہ آپ سیّد ہجویر ؒسے فیض یافتہ اور باقاعدہ رابطہ کا دعویٰ رکھتے ہیں ۔ بہر حال حاضری اور پھر مسلسل سالانہ حاضری کا اہتمام عمل میں آگیا ۔ یہ پانچواں سال ہے اس پُرمسرت موقعہ کا اور اکتسابِ فیض کی داستان یوں بیان ہے کہ اقبال کی طرح "عارف وقت" (یہ اصطلاح معروف کالم نگار ہارون الرشید کی ہے)نے اپنے مطالعاتی دور میں مشرق و مغرب کے علوم و معارف ممکنہ حدتک دیکھے ۔ہیگل، کانٹ اور برگساں کے ہزار ہا اوراقِ تحقیق سے استفادے کے باوجود، من میں اُجالا نہ اُترا اور روشنی نہ پھُوٹی ،اسی تذبذب اور تشکیک کے عالم میں۔۔۔ حق اور حقیقت کی طلب اور جستجو داتا ؒ دربار حاضری کے لیے کشاں کشاںلے گئی۔سائل شکوہ کنا ہوا، اور اپنا معاملہ بھی پیش کیا کہ آپ لوگ کہتے ہیں کہ اللہ نے اپنی زمین پر ہمہ وقت نجبأ، نقبا اور اغیاث و اوتاد متعین و مقررفرما رکھے ہیں،کوئی متلاشی،طلب رساں ان تک کس طرح پہنچے ۔ جواب کیا ملناتھا۔۔۔سو افسوس، غصّے اور صدمے سے واپس پلٹا۔ پروفیسر صاحب بیان کرتے ہیں کہ اتفاق دیکھیئے میری میز پر کشف المحجوب کھُلی پڑی تھی ، اور قدرے آزردگی اور بے اعتنائی سے آنکھوں کے سامنے کھُلے صفحہ پر نظر دوڑائی تو توجہ ابو سعید ہجویریؒ کے اس سوال پر گئی ۔۔۔جس کا جواب امام ہجویرؒاُسے مخاطب کرکے دے رہے تھے ۔ " اے ابو سعید! ایک وقت تھا کہ ہم زمین پر خدا کی تلاش کے لیے نکلے تھے ، ہمیں بے شمار رہبر و رہنما میسر آئے۔ اولیأ صوفیأ سے اکتساب کا موقعہ ملا، ہم نے سینکڑوں لوگوں سے فیض پایا، کسی سے حال لیا ، کسی سے مقال اور کسی سے مقام، کسی سے غیب اور کسی سے حضور، کسی سے صدق اور کسی سے صفا۔۔۔مگر اے طالب، الہہ! ایک وقت آئے گا کہ ایسے متلاشیاںِ حق پثرمردہ و بے چارہ اور درماندہ ہوں گے ، انہیں کوئی شخص میسر نہیں آئے گا ، جو رشد و ہدایت کے کسی سلسلے تک پہنچا سکے ۔ مجھے بتا کہ پھر کیا تو ایسے میں خدا کی جستجو اور تلا ش چھوڑ دے گا "۔مجھے لگا کہ بس یہ جملہ گویا میرے ہی لیے تھا۔ آپؒ فرماتے ہیں کہ اتنی بات ضرور یاد رکھنا، کہ وہ موجود ہے ۔۔۔ وہ موجود ہے ۔ وہ خلق کی رضا سے بہت بالا ہے ۔ وہ شکوک و شبہات سے بہت بلند تر ہے ، جو اسے تلاش کرے گا خواہ وہ کسی بھی زمانے میں ہو، کسی بھی وقت ہو ۔وہ اسے ہر حال میں اپنے رسوخ تک ، اپنی ملاقات تک ، اپنی شناسائی اور ہمسائیگی تک ضرورپہنچائے گا، یہ ہی میرے سوال کا جواب تھا اور اس کے ساتھ ہی یہ اس سوال کا بھی جواب تھا کہ بڑے بڑے صوفیأ و اولیأ نے حضرت سیّد ہجویرؒ کے بارے میں یہ کیوں کہا: گنج بخشِ فیضِ عَالم مظہرِ نورِ خُدا ناقصاں را پیرکامل کا ملاں را راہنما