علماء و خطبا اور دینی طبقات کی محافل و مجالس سے مستفید ہونے اور حَظ اُٹھانے کا موقع اور کچھ بات کرنے کی سعادت بھی میسر رہتی ہے۔اپنی معروضات میں نہایت نرمی اور درد مندی سے اس فکر کو ضرور پیش کرنے کی کوشش کرتا ہوں کہ ہمارے مسلکی تشخصات اپنی جگہ بجا اور معتبر‘ لیکن تھوڑا سا ان حزبی دائروں سے آگے نکل کر،ایک امت اور ملت بن کر بھی سوچنا چاہیے۔اس وقت علمی اور فکری سطح پر بہت سے مسائل ہیں، جن سے امت نبردآزما ھے،ان میں سب سے بڑا چیلنج شیعہ و سنی کا غلبہ یا بریلوی دیوبندی کا معرکہ نہیں، بلکہ عہد حاضر میں دنیا کے اندر بنیادی فکری تصادم خدا کو ماننے والوں اور نہ ماننے والوں، یعنی ملحدین کے درمیان ( (conflict between Atheism & faith))ہے۔آزادی کے غیر محدود تصور سے پیدا ہونے والی آذاد سوچ ‘ تشکیک پسندی اور مذہب پر گزشتہ صدیوں میں بے جا تنقید اور تنقیص کے سبب ملحدین میں اضافہ ہو گیاہے۔ الحاد کا بنیادی مفہوم یہ ہے کہ ایسا عقیدہ رکھنا جس میں خدا‘ رسول اور آخرت کا کوئی تصور موجود نہ ہو۔الحاد کی تاریخ اگرچہ بہت قدیم ہے ،تاہم موجودہ تحریک کا آغاز اٹھارہویں صدی میں اس وقت ہوا، جب یورپ میں مذہب کی مخالفت کا آغاز ہوا اور بالخصوص سیاسی سطح پر مذہب مخالف سوچ مضبوط ہونے لگی۔انیسویں صدی میں چارلس ڈارون کے نظریہ ارتقا کو قبول عام میسر آنے لگا تو گویا الحاد کو ایک الگ پہچان اور تقریباً مذہب کی حیثیت حاصل ہو گئی۔اس فلسفہ حیات نے سب سے زیادہ الہامی ادیان اور پھر ان کے وہ عقائد جن پر ان کی اساس تھی ‘ بالخصوص وجود باری تعالیٰ پر حملہ کیا‘ جس میں عیسائیت پر اسے کافی کامیابی حاصل ہوئی۔ آج الحاد (atheism)کے دنیا میں پھیلائو کا یہ عالم ہے کہ 2012ء کی رپورٹ کے مطابق دنیا میں مسیحیوں اور مسلمانوں کے بعد تیسرا بڑا گروہ ملحدین کا ہے جبکہ ہندو چوتھے پر آتے ہیں۔ محتاط اندازے کے مطابق دنیا کی 8ارب آبادی میں سے تقریباً ایک چوتھائی مسلمان ہیں۔دنیا میں سب سے بڑی مسلم آبادی جنوب ایشیا یعنی پاکستان‘ بھارت ‘ بنگلہ دیش وغیرہ میں ہے۔جو عالمگیر مسلم آبادی کا 29فیصد ہیں۔تیسرے نمبر پر زیر صحرا افریقی ممالک‘ جو عالمگیر مسلم آبادی کا 17فیصد ،چوتھے نمبر پر ایشیا کے ملائی زبان بولنے والے مسلمان جو کہ کل مسلم آبادی کا 15فیصد ہیں۔پانچویں نمبر مغربی ایشیا کے ترکی اور فارسی بولنے والے اور چھٹے نمبر پر یورپ و امریکہ او ردیگر متفرق ممالک ہیں۔یہ بات بڑی اہم ہے کہ عیسائیت کے مقابلے میں مسلم تہذیب میں عقیدے کی بنیاد پر فرقہ بندی غیر معمولی طور پر کم ہے۔ان کے بنیادی طور پر دو اہم فرقے ہیں:اہل سنت اور تشیع۔اپنے اختلافات کے باوجود ان کا دینی مرکزِ ثقل ایک ہے۔باہم مل کر حج کرتے ہیں‘ ایک دوسرے کی مساجد اور عبادت گاہوں میں آمدو رفت ممکن ہے۔ابھی 23مارچ کے موقع پر وزیر اعلیٰ پنجاب کی خواہش پر تمام مسالک‘ جن میں اہل تشیع بھی موجود تھے‘ نے باہم مل کر عصر کی نماز خطیب بادشاہی مسجد کی اقتدا میں ادا کی۔مگر یہ بات عیسائیت کے تین اہم فرقوں کے حوالے سے نہیں کہی جا سکتی۔عیسائیت جن کی عمر دو ہزار سال ہے‘ ابتدائی تقریباً سو سال تک یہ خود کو یہودیت ہی کا ایک فرقہ سمجھتے تھے‘ ان میں بغاوت کا عنصر غالب تھا اور اپنی یہودی لیڈر شپ اور مذہبی پشوائیت سے باغی تھے۔ رومی سلطنت بھی مختلف عقائد کے سبب‘ ان کو باغی گروہ سمجھتے اور ان پر ظلم و ستم روا رکھتے‘ یہ کیفیت تین سو سال تک قائم رہی ،حتیٰ کہ روم کے بادشاہ کانسٹنٹائن اوّل 337-272 نے عیسائیت قبول کر کے اسے اپنی بادشاہت اور ریاست کا سرکاری مذہب قرار دے دیا۔اسی کے سبب اس کا صدر مقام قسطنطنیہ(استنبول) ہوا۔عالمگیر عیسائیت میں اپنی ابتدا ہی سے شدید فرقہ واریت تھی۔رسمی تنظیم سازی اور علاقائی و جغرافیائی بنیادوں پر اختلافات تھے۔سولہویں صدی کے آغاز پر ایک بڑی بغاوت کے نتیجے میں ایک جرمن عیسائی پیشوا مارٹن لوتھر (1546-1483ئ) نے پروٹسٹنٹ عیسائی فرقے کی بنیاد رکھی، یوں مغربی عیسائیت دو بڑے گروہوں کیتھولک اور پروٹسٹنٹ میں تقسیم ہو گئی۔ کیتھولک جو ایک عالمگیر پیشوا کو مانتے ہیں اور پروٹسٹنٹ جو ہر قومی ریاست میں اپنا اپنا قومی مذہبی پیشوا متعین کرتے ہیں ،ان کے ہاں کسی مشترکہ عالمگیر مذہبی پیشوا کا کوئی تصور نہیں۔گزشتہ نصف صدی میں عیسائیت بتدریج کم ہو رہی ہے۔جس کا حصہ 34فیصد سے کم ہو کر 31فیصد جبکہ دنیا میں مسلم آبادی کا شیئر 15فیصد سے بڑھ کر 25فیصد ہو گیا ہے ،اگرچہ عالمگیر دینی تہذیب کی شرح میں بھی کمی واقعی ہوئی ہے۔ جس کی وجہ افزائش نسل میں کمی ہے۔جبکہ دنیا کے پانچ میں سے چار خطّوں میں مسلمان آبادی میں اضافہ افزائش نسل کے سبب ہے۔ اس وقت دنیا میں تہذیبوں کے مکالمے کی بات شدت سے ہو رہی ہے‘ اسی اثناء میں عالمگیر دینی تہذیب اپنے آپ کو انسانیت کا محور(Humanist)کہہ کر ‘ تمام دیگر تہذیبوں کو اپنے ’’اخلاقی معیارات‘‘ اختیار کرنے پر مجبور کر رہی ہے اور قومی ریاستوں کے عالمگیر اداروں سے ان کی توثیق کروا لیتی ہے۔دراندازی کے اس دروازے سے عالمگیر لادینی تہذیب کا سماجی نفوذ اور سیاسی غلبہ بالخصوص اسلام اور مسلمانوں کے لئے بڑی پیچیدگیاں پیدا کر رہا ہے اور وہ اپنے عقائد اور معاشرتی اقدار کو اپنے وسائل‘ مال اور جبر کی قوت پر پوری انسانیت پر نافذ کرنے کے درپے ہیں‘ اس کے لئے ان کا سب سے بڑا اور موثر ہتھیار تعلیمی ادارے اور سوشل میڈیا ہے۔اس وقت جب گرائمر سکولوں میں ہم اپنے بچوں کو بھاری فیسوں کے عوض پڑھا کر یک گو نہ اطمینان محسوس کرتے ہیں‘ وہ ادارے لادینی افکار اور الحاد کا سب سے بڑا مرکز ہیں‘ طلبہ پر سب سے ذود اثر ان کے اساتذہ اور سلیبس ہیں۔ اس کام کے لئے مخصوص فکر اور سوچ کے حامل اساتذہ جن میں بالخصوص لٹریچر وغیرہ کے ٹیچرز بطورِ خاص شامل ہیں‘ اپنے سٹوڈنٹس کے عقائد پر اثر انداز ہونے اور الحاد‘ تجرد اور آزاد خیالی کی ترویج میں سرگرم عمل ہیں‘ اس میں ماڈرن سکول سسٹمز کی معاونت اور سرپرستی بھی انہیں پوری طرح میسر ہے۔یہ امر محض سکولوں کی حد تک محدود نہیں‘ ہماری یونیورسٹیاں اور جامعات بھی اس الحادی فکر کے زیر اثر ہیں اور بالخصوص انگریزی زبان و ادب کے شعبہ جات میں دینی اقدار سے بغاوت کے اثرات کافی زیادہ ہیں‘ اس وقت اس چیلنج کو قبول کرنا اور ملحدین کے بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بندباندھنا ہمارے دینی طبقات کی اولین ترجیح اور ضرورت ہونی چاہیے۔محض ان کو فسطائیت سے تعبیر کر کے نظرانداز کرنے سے یہ معاملہ حل نہیں ہو گا۔ بلکہ مسلم معاشروں اور ہمارے دینی طبقات پر لازم ہے کہ وہ درپیش اس فکری چیلنج کو قبول کریں تاکہ ہماری نسلیں اس کے مضمرات سے محفوظ رہ سکیں۔ اس میں لبرلزم ہو‘ نیچر لزم جیسے عقل پرستی کہتے ہیں میٹلرزم جو مادہ پرستی کے نام سے موسوم ہے۔ہیومنزم جو بظاہر خود کو انسانیت کا علمبردار کہلانا پسند کرتا ہے اور اسی طرح الحاد مطلق (Gnosticism)جو ملحدین کی وہ قسم ہے جو وجود باری تعالیٰ کے انکار کے حوالے سے ازحد متشدد اور اس فکر پہ گامزن ہیں کہ یہ کائنات فطری قوانین ((law of nature)) کے تحت چل رہی ہے اسی طرح لاادریت (agnosticism) اور ڈی ایزم (deism)ہے۔