بزرگ قانون دان احمد رضا قصوری ایک تار یخ ساز شخصیت ہیں ذوالفقار علی بھٹو سے ان کے خاندان کی رفاقت اور پھر رقابت ایک مکمل داستان ہے اور تاریخ کا تلخ باب ہے وہ اپنی طبیعت اور مزاج کے منفرد انسان ہیں۔ ان سے پہلی ملاقات تحریک پاکستان کے کارکن انکل نسیم انور بیگ کی رہائش گاہ پر ہوئی جہاں وہ گاہے تشریف لاتے تھے۔ انکل نسیم انور بیگ کی میز پر ہمیشہ پر مغز اور فکری گفتگو ہوا کرتی تھی شام کے سایہ ڈھلتے ہی وفاقی دارالحکومت کے پوش سیکٹر میں سجنے والی یہ ایسی محفل ہوا کرتی تھی جہاں گفتگو کے ادب وآداب کا مکمل خیا ل رکھا جاتا تھا وہ ایک بردبار مربی تھے۔ ایک روز احمد رضا قصوری محفل میں تشریف لائے میں نے موقع غنیمت جانتے ہوئے ان سے ذوالفقار علی بھٹو سے ان کی خاندانی رفاقت اور رقابت کے بارے میں چند سوالات کردئیے۔ احمد رضا قصوری نے بھی ان سوالات کا جواب بڑے دھیمے لہجے میں دیا۔ اس روز محفل کی گفتگو کا موضوع ذوالفقار علی بھٹو ہی رہے، میں نے پو چھا کیا ذوالفقار علی بھٹو سے آپ کی ذاتی یا خاندانی رقابت تھی؟ احمد رضا قصوری نے جواب دیا نہیں بالکل نہیں،ذوالفقار علی بھٹو سے میری ذاتی یا خاندانی رقابت نہیں تھی میرے والد اور ذولفقار علی بھٹو میں مثالی تعلقات تھے بس کچھ حالات ایسے پیدا ہوئے کہ ہم ایک دوسرے کے شدید مخالف ہوگئے میرے ساتھ ان کی مخالفت کا آغازمیر ے ڈھاکہ میں منعقدہ قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت سے ہوااور پھرمیں نے مشر قی پاکستان بارے جو مؤقف اختیار کیا تھا اس پر بھی ذولفقار علی بھٹو سخت ناراض ہوئے تھے۔ میں جب قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کیلئے ڈھاکہ گیا اس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے سمجھا کہ میں نے بغاوت کر دی ہے ،میں سمجھتا ہوں اس واقعہ کے بعد ہم دونوں میں رقابت بڑھتی چلی گئی۔میں نے 1974ء میں ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف اپنے والد کے قتل کی ایف آئی آر درج کروائی۔ یہ وہ دور تھا جب ہر طرف ذوالفقار علی بھٹو کا طوطی بول رہا تھا مجھے معلوم تھا کہ اس ایف آئی آر کا فوری کچھ نہیں ہوگا لیکن ایف آئی آر کا اندراج میری بہت بڑی ایچومنٹ تھی، میں ایک حکمت عملی کے تحت چلتا رہا اور موقع کی انتظار میں رہا کیونکہ جب چڑیا کے پیچھے باز لگ جاتا ہے پھر اچانک وہ جھاڑیوں میں چھپ جاتی ہے اب باز اس کو یہ نہیں کہہ سکتا کہ تم نے یہ کیوں کیا، میں سمجھتا ہوں کہ محبت اور جنگ میں سب جائز ہے ۔پھر موقع آیا جب جولائی 1977ء میں فوج نے اقتدار سنبھالا میں بھی'' ایکٹو'' ہوگیا ۔میری مدعیت میں ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف قتل کی ایف آئی آر درج تھی اس ایف آئی آر کو زندہ رکھنا میرے لئے ایک چیلنج تھا۔ میں نے یہ چیلنج قبول کیا اور اسے ہر صورت زندہ رکھا اور جونہی ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار کا سورج غروب ہوا میں بھی میدان میں آگیا ۔احمد رضا قصوری نے بتایا کہ ذوالفقار علی بھٹو نے کئی بار ایف آئی آر واپس لینے کیلئے رابطہ کیا لیکن میں ان کی پیشکش کو طریقہ سے ٹالتا رہا۔7 جنوری 1977 کو ذوالفقار علی بھٹو نے آ خری بار ایف آئی آر واپس لینے کیلئے کہا ۔مجھے اچھی طرح یاد ہے اس روز قومی اسمبلی کے دو سیشن ہوئے تھے ،پہلے سیشن میں ذوالفقار علی بھٹو نے زرعی اصلاحات کا اعلان کیا ،دوسرے سیشن میں انہوں نے اسمبلی کی تحلیل کی ایڈوائس دیکر سب کو حیران کر دیا تھا کیونکہ کسی کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ آج ایسا ہونے والا ہے۔ ان دونوں سیشنز کے وقفے میں میجر طارق رحیم نے مجھے پیغام دیا کہ ذوالفقار علی بھٹو آپ سے ملاقات کرناچاہتے ہیں،میں انکے چیمبر میں گیا ،سیکریٹری نے فوری ملاقات کرادی ۔ وہ اپنے چیمبر میں میرا انتظار کر رہے تھے میرے داخل ہو تے ہی بولے ، آئو آئو کیسے ہو آپ ، میں نے جواب دیا اللہ تعالیٰ کا فضل وکرم ہے اس موقع پر ذوالفقار علی بھٹوسگار پی رہے تھے اور ہوا میں دھوئیں کے دائرے بنا رہے تھے۔ انہوں نے میرے اہل خانہ وغیرہ کا حال احوال بھی پوچھا اور پھر کچھ وقفے کے بعد ایک فائل میرے سامنے رکھی ،اس فائل میں مجھ سے منسوب ایک بیان موجود تھا جس میں تحریر تھا کہ جب میرے والد کو زخمی حالت میں ہسپتال لایا گیا لوگوں نے مجھے بھڑکایا کہ اس قتل میں ذوالفقار علی بھٹو ملوث ہیں ۔چنانچہ میں نے طیش میں آکر ذوالفقار علی بھٹو کا نام ایف آئی آر میں درج کروادیا لیکن یہ حقیقت نہیں کیونکہ یہ وہ شخص ہے جس نے اسلامی سربراہی کانفرنس کا انعقاد کیا، جس نے جمعہ کی چھٹی کی اجازت دی اور جس نے ایٹم بم کی بنیاد رکھی ،ایسا کام بھلا یہ کیونکر کر سکتا ہے۔اس بیان کے نیچے میرا نام اور قومی اسمبلی کا حلقہ درج تھامیں نے یہ بیان پڑھتے ہوئے یہ ظاہر کیا کہ میں بہت آہستہ پڑھ رہا ہوں لیکن درحقیقت میں سوچ رہا تھا کہ میں اسکا جواب کیا دوںپھر جب میں نے اپنا جواب سوچ لیا ،میں نے کہا، ذوالفقار علی بھٹو صاحب! آپ مجھے پاکستان پیپلز پارٹی میں دوبارہ لیکر آئے ہیں آپ کا شکریہ، لیکن اگر یہ بیان اس وقت دیا گیا اچھا نہیں ہوگا ۔اس کے باوجود میں عوام کی باتیں برداشت کرلوں گا مگر میری برادری مجھے کیا کہے گی؟ وہ کہیں گے میں نے کیا گھٹیا کام کیامجھے دستخط کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں ہے مگر ان دستخطوں کے بعد میری اخلاقی ویلیو ختم ہو جائے گی۔ اس لیے میں فی الحال دستخط نہیں کروں گا میرے جواب سنتے ہی ذوالفقار علی بھٹو اپنی سیٹ سے اٹھے اور تھنک یو کہہ کر چلے گئے ۔ پھر وقت آیا جب میری ایف آئی آر پر ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف کارروائی کا آغاز ہوااور پھر مجھے انصاف ملا اور میں یہ بات واضح کردوں میں نے یہ سب کچھ بڑے سوچ سمجھ کر کیا تھا اور میں نے موقع کا انتظار کیا اور موقع ملتے ہی اپنا کام کیا اس دوران وہ اپنے والد کی یاد میں آبدیدہ بھی ہوگئے جس کے بعد محفل برخاست ہو گئی ۔