سِدْرَۃٌ،عربی زبان میں بیری کے درخت کو کہتے ہیں ، مُنْتَہیٰ یعنی آخری کنارہ ، آخری سرحد.... اس کا لفظی ترجمہ یہ ہوگا کہ بِیر ی کا وہ درخت، جو مادی جہاں کی آخری سرحد پر ہے ۔ اسلامی عقائد کے مطابق ساتویں آسمان سے بھی اوپر، وہ مقامِ رفیع جہاں بیر ی کا ایک درخت.... جس سے آگے کوئی نہیں جا سکتا، حتی کہ جبرئیل امین ؑ بھی۔ اس درخت کے بارے قرآن و سُنت میں جو کچھ بھی بیان ہوا ہے ، اس کے آگے سرِ تسلیم خم ہے....حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا شبِ معراج جب ساتویں آسماں کا دروازہ کھُلا ، تو میں کیا دیکھتا ہوں کہ حضرت ابراہیم ؑ بیت المعمور کے ساتھ ٹیک لگائے تشریف فرماہیں ، "بیت المعمور".... جس میں ستر ہزار فرشتے روزانہ حاضری کی سعادت پاتے اور پھر دوبارہ حاضری کی حسرت ہی رکھتے ہیں ، مگر میسر نہیں آتی ،حضرت ابن عباس اور ابو حبہ انصاری روایت کرتے ہیں کہ حضورصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ شبِ معراج مجھے اوپر لے جایا گیا ، یہاں تک کہ میں اُس مقام پر پہنچ گیا ، جہاں سے مجھے اقلامِ تقدیر کے چلنے کی آواز سنائی دینے لگی ۔ قدسیانِ فلک.... دیدارِ فرحت کی لازوال نعمت سے مشرف ہوئے، اور مہمانِ عرشِ بریں سِدْرَۃُ المُنْتَہی سے آگے بڑنے لگے، تو حببرئیل امین ؑ رُک گئے ، حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جبرئیل چلو!تو عرض کیا : لَودنوتُ انملۃً لا حترقتُ"یعنی اگر میں ایک چیونٹی کے برابر بھی آگے بڑھا تو(تجلیاتِ الٰہی کے پَر تو سے) جَل جائونگا۔عرفأـنے یہاں سوال اُٹھایا کہ اگر حضرت جبرئیل ؑ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ چلے جاتے تو کیا وہ جَل جاتے ....؟ تو وہ کہتے ہیں کہ اگر وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہمراہ ہوتے ، تو ہر گزایسا نہ ہو تا ، کیا وجد آفریں اشعارکہے حضرت شیخ سعدی شیرازی نے : بدد گفت سالار بیت الحرام کہ اے حامل وحی برترخرام چوںدر ددستی مخلصم یافتی عنانم زصحبت چراتافتی بگفتا فراتر مجالم نماند بماندم کہ نیروے بالم نماند اگر یکسرے موئے برترم پرم فروغِ تجلی بسوزد پرم یعنی :بیت اللہ شریف کے سردار (حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے ان (حضرت جبرئیل ؑ) سے فرمایا کہ اے وحی کے اٹھانے والے (جبرئیل !) آگے چلو، جب تُو(حضرت جبرئیل ؑ)نے مجھے دوستی میں مخلص پایا تو میر ی رفاقت و صحبت سے اِعر اض کیوں کر رہا ہے ؟تو اس (حضرت جبرئیل ؑ) نے عرض کیا آگے بڑھنے کی مجھ میں طاقت نہیں، میں عاجز ہوگیا ہوں ۔ میرے پَروں میں آگے بڑھنے کی سَکت اور ہمّت نہیں رہی ۔ اگر میں ایک بال کے برابر بھی آگے بڑھوں گا تو (آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یا اللہ تعالیٰ کی) تجلیات اور شعاعیں میرے پَروں کو جلادیں گی ۔ مولانا روم نے اس مقام پر بڑا دلچسپ مضمون باندھا، وہ کہتے ہیں کہ جبرئیل ؑ نے تو جَل جانے کے خوف سے ، آگے جانے سے معذرت کرلی ، لیکن اگر یارِ غار صدیقِ اکبر ؓ ہمراہ ہوتے تو جَل کر راکھ ہونا گوارا کر لیتے ، مگر پیچھے نہ ہٹتے، مولانا روم فرماتے ہیں: جبرئیلا گو شریفی گو عزیز تو نہ ای پروانۂ آں شمع نیز یعنی اے جبرئیل ؑ جا ! تُو اس شمع (محمدی) کا پروانہ نہیں ہے، اس پر جلنے والے کوئی اور ہیں ۔ عالمِ خلق میں ہر چیز کے لیے اللہ تعالیٰ نے ایک حد مقرر فرمائی ہے ،" سِدْرَۃُ المُنْتَہی" کو منتہیٰ اس لیے بھی کہتے ہیں کہ وہ نیچے والوں کے لیے " منتہیٰ" ہے ، یعنی وہ اس سے اوپر نہیں جاسکتے ، اور اوپر والوں کی بھی منتہیٰ ہے کہ وہ اس سے نیچے نہیں آسکتے ، یہ اعزاز اور طاقت اللہ تعالیٰ نے صرف اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ہی عطا فرمائی کہ وہ ہر حد سے آگے گزر گئے ، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سدرہ کو عبور کر کے اوپر بھی گئے اور پھر واپس بھی تشریف لائے ،ان باتوں کا ورود اور نزول الحاج سرورحسین نقشبندی کے تحقیقی مقالہ کی طباعت و اشاعت کے موقع پر ، ان کے فکر و فن کے حوالے سے کچھ لکھنے اور کہنے کے تناظر میں ہوا، کہ موصوف مستند اور معتبر ثناخوان تو تھے ہی ، لیکن ان کے مشہور و معروف مدحیہ کلام: حدودِ طائرِ سدرہ حضورؐ جانتے ہیں کہاں ہے عرشِ مُعلّٰی حضورؐ جانتے ہیں نے قبولیت اور مقبولیت کی جو منزلیں سَر کیں ، اس نے انہیں بطور نعت گو شاعر بھی مستند اور معتبر بنادیا اور اب.... وہ نعتیات کے محقق و نقاد ہو کر ایک اور سنگِ میل عبور کر رہے،اور "نعتیہ ادب" میں حفیظ تائب کی علمی، ادبی و تحقیقی خدمات کا تجزباتی مطالعہ .... کے عنوان سے ان کا تحقیقی مقالہ ایم فل کی ڈگری کا حق دار قرار پانے کے بعد ، اب زیور طباعت سے آراستہ ہو رہا ہے ۔ سرور نقشبندی صاحب متنوع شخصیت کے حامل ہیں ، خوبصورت لکھتے ، سوچتے ، بولتے ہیں، وجہ شہرت نعت گوئی اور نعت خوانی ہے ، ان کا اخلاص ان کے شعبے کے روایتی پروفیشنلزم پہ ہمیشہ غالب رہا، انہوں نے اپنے جذبوں اور ولولوں کے اظہار کے لیے نِت نئے افق تلاش کیے ، نعت فورم انٹر نیشنل ، سہ ماہی مجلہ "مد حت"، پہلی قومی ادبی نعت کانفرنس اور" نعت زندگی ہے" جیسے سنگِ میل عبور کرنے کے ساتھ اگرچہ آج کل "بولتاکالم" بھی ان کے کریڈٹ میں ہے ، تاہم ان کا اصل اور حقیقی حوالہ اور اوّل، آخر پہچان نعت گوئی اور نعت خوانی ہی ہے، اور اسی میں دنیا و آخرت کی کامیابیاں اور کامرانیاں سمیٹنے کو، انہوں نے سعادت جانا ہے۔سرور صاحب کا عہد.... نعت گوئی ،نعت خوانی اور نعت آرائی کے عروج کا زمانہ ہے ، ان کے دور میں عہد ساز ثنا خوان پید اہوئے ،جن میں اپنی انفرادیت اور پہچان کو بنانا اور منوانا چنداں آسان نہ تھا ، لیکن الحاج سرور حسین نقشبندی نے ان سارے مراحل اور مراتب کو سَر کیا اور کم وبیش گذشتہ پچیس سال سے اس شعبہ میں نمایاں اور معتبر ہیں ۔میرے ذہن میں ان کی یاد کے اوّلین نقش نوّے کی دہائی کے اوائل کے ہیں ، جب وہ ایک نو آموز، مگر پختہ اور دلرُبااسلوب کے ساتھ اس شعبے میں وارد ہوئے ، لاہور سمیت پورا خطّہ نعت کے انوار و برکات سے منور و مزین تھا، وسطی پنجاب میں مارچ، اپریل اور اکتوبر کی خوبصورت شامیں اور خوشگوار راتیں محافلِ نعت کے لیے مختص ہو جاتیں، کراچی کے ثنا خوان ہماری مضافاتی محافل کی دسترس میں آئے، تو جوش و خروش دو چند ہوگیا ۔مسابقت کے ماحول میں محافل کی کامیابی کے جو اشاریئے "Indicators" مروج ہوئے، ان میں محافل کی طوالت بھی دیگر معیارات میں سے ایک ٹھہری، اور یہ کہا اور سُنا جانا بڑا مرغوب تھا کہ اُدھر مسجد کے میناروں سے بوقتِ سحر" اَ شہَدُ اَنَّ مُحَمَّدً ا رَّ سُولُ اللَّہِ" کے صدا بلند ہورہی تھی ، اور اِدھر محفل سے اختتامی درودو سلام کے زَمزمے اور نغمے فضائوں اور ہوائوں کے دوش پہ ، بارگاہ َ سید کونینؐ میں پیش ہورہے تھے ،میرے آبائی علاقے جڑانولہ میں میرے والدِ گرامی رحمتہ اللہ علیہ کے زیر سایہ، جو پُر نور ماحول ترتیب پایا، ان میں صابری مسجد کی مرکزیت بہت ممتاز اور معتبر تھی کہ جس کی بنیاد،ترقی اور عروج ان کے دم قدم سے ایسی ہوتی کہ نصف صدی تک مرکزدین اور محور علم و معرفت ٹھہری، اسی سے متصل گلشن فاطمہ ؑ جس کا خوبصورت اور وسیع لان ایسی دینی تقریبات اور بالخصوص نعتیہ محافل کا مرکز ہوتا، اس کے ساتھ ہی آستانہ پیر بخاری کا مہمان خانہ ، ان محافل وتقریبات کا" فوکل پوائنٹ" بنتا ، اس کے درودیوار آنے والے مشائخ و سجاد گان اور مہمانوںو ثنا خوانوں کے لیے فرشِ راہ ہو جاتے ۔کیا کیا مہمان اورکیا کیا یادیں....پیر نصیر الدین نصیر گولڑوی ، پیر معین الحق گیلانی ، پیر محمد کرم شاہ الازہری ، پیر سیّد ریاض حسین شاہ ، ڈاکٹر محمد طاہر القادری ، پیر قاضی فضل رسول حیدررضوی.... میرے عہد کی تابندہ وروشن ہستیاں ،اسی طرح ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی، راجا رشید محمود جیسے فنِ نعت کے مقتدأومقتد ر،اختر سدیدی جیسے سخنور.... میں کس کو ترک کروں، کس کا انتخاب کروں ایسی شخصیات یہاں اُتر تیں اور محبت وعقیدت وارادت کا ایک عجب ساماں پیدا ہوتا ، اور مجھ سمیت ہمارے گھرانے کو، ان شخصیات کی میزبانی کا اعزاز و شرف میسر آتا ۔