دفتر خارجہ نے ایران اور افغانستان کے خلاف ڈرون نگرانی کے آپریشن کے لیے پاکستان کی جانب سے امریکہ کو "دو ایئربیسز" دینے کی "قیاس آرائیوں" کو مسترد کر دیا ہے ۔دفتر کارجہ کی ترجمان نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کا کسی بھی ملک کے خلاف کسی بھی غیر ملکی حکومت کو اپنا کوئی ایئربیس دینے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران سوالات کا جواب دیتے ہوئے، دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا کہ پاکستان ان بے بنیاد قیاس آرائیوں کو مسترد کرتا ہے، جن کی قطعی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔پاکستان طویل عرصہ خطے میں امریکی قیادت میں کام کرنے والے اتحاد کا سرگرم حصہ رہا ہے۔سوویت یونین کے خلاف جنگ میں پاکستان کا بنیادی کردار رہا۔پاکستان نے کئی لحاظ سے مدد کی۔ نائن الیون کے بعددہشت گردی کے خلاف امریکہ نے جنگ کا منصوبہ بنایا تو پاکستان اس کا کلیدی شراکت دار تھا۔پاکستان کو نان نیٹو اتحادی قرار دے کر امریکہ نے سپلائی، فضائی ٹریفک، سٹریٹجک نقل و حرکت کے لئے پاکستان کی خدمات حاصل کیں۔یہ ایک تلخ تجربہ تھا جس میں امریکہ نے پاکستان کا بد ترین استحصال کیا۔جنگ کے خاتمے سے پہلے ہی امریکہ نے آنکھیں پھیر لیں۔ پاکستان کا ایک سو ارب ڈالر کا نْقصان ہوا جس کی ادائیگی نہ ہوئی۔پاکستان کے شہریوں و سکیورٹی اہلکاروں نے اسی ہزار جانیں قربان کیں۔ پاکستان نے اپنی معیشت کی ترقی کے مواقع ضائع کئے۔ بدلے میں امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کا نا گوار سلوک ملا۔ دو ہزار اکیس میں فضائی اڈوں کے متعلق کچھ ایسی ہی چہ میگوئیاں سننے کو ملیں جن کو پاکستان نے بے بنیاد قرار دیا۔افغانستان سے انخلا کا منصوبہ امریکی حکام لگ بھگ طے کر چکے تھے۔یہ ایک مثبت پیشرفت تھی۔ تشدد میں کمی سے مذاکرات کے لیے سازگار ماحول فراہم کرنے میں مدد مل سکتی تھی۔پاکستان کے فوجی اڈوں اور زمینی راستوں نے خشکی سے گھرے افغانستان پر امریکی قیادت میں آپریشنکو سہل بنانے اور اسے برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔عوامی نا پسندیدگی کے باعث طویل عرصے بعد پاکستان نے امریکی افواج سے اپنے اڈوں کا کنٹرول دوبارہ حاصل کیا ۔ دفاعی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہو گا کہ اڈے ایک بار پھر واشنگٹن کے حوالے کر دیئے جائیں۔ امریکہ فوجیوں کے انخلاء کے بعد افغانستان میں اپنی نگرانی برقرار رکھنا چاہتا تھا، اسی لیے وہ خطے میں طیاروں، ڈرونز اور دیکھ بھال کے نظام کے لیے آپشنز تلاش کر رہا ہے۔کچھ حلقوں کے مطابق امریکہ بھارت میں اپنی موجودگی برقرار رکھ سکتا ہے جس کے ساتھ اس نے پہلے ہی لاجسٹک سپورٹ کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن اس کے باوجود افغانستان جانے والے ڈرون یا جیٹ طیاروں کی پرواز کے لیے فضائی راہداری استعمال کرنے کے لیے پاکستان کی اجازت درکار ہوگی۔ افغانستان میں امریکہ کی جنگ کی وجہ سیپاکستان پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکا ہے ۔ فوجی اڈے دے کر اسے مزید بڑھایا نہیں جا سکتا ۔پاکستان نئے حقائق سے آگاہ ہے کہ اگروہ امریکہ کو اڈوں کی فراہمی پر راضی ہو جاتا ہے، جہاں سے افغانستان پر بمباری کی جاتی ہے، اور افغان خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے تو پاکستان کو دوبارہ دہشت گردوں کے انتقام کا نشانہ بننا پڑے گا۔ رپورٹس کے مطابق، امریکہ نے 2008 سے 2018 تک سینکڑوں ڈرون حملے کرنے کے لیے بلوچستان میں شمسی ایئر بیس کا استعمال کیا ۔ ڈرون حملے بنیادی طور پر پہاڑی قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے مشتبہ کارندوں کو نشانہ بناتے تھے۔یہ سوال اہم ہے کہ اگر امریکہ، تاریخ کی سب سے طاقتور فوجی مشینری کے ساتھ، 20 سال بعد بھی افغانستان کے اندر سے جنگ نہیں جیت سکا تو پاکستان میں اڈوں سے کیسے حالات اپنے ھق میں کر سکے گا؟ پاکستان اور امریکہ کے افغانستان میں یکساں مفادات ہیں۔ سیاسی تصفیہ، استحکام، اقتصادی ترقی اور دہشت گردوں کی پناہ گاہوں کا خاتمہ ضروری ہے۔پاکستان مذاکرات کے ذریعے امن چاہتا ہے، خانہ جنگی نہیں۔پاکستان کہتا رہا ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ افغانستان میں امن کے لیے شراکت دار بننے کے لیے تیار ہے لیکن اب امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد پاکستان مزید تنازعات میں الجھنے کو تیار نہیں۔ امریکہ خطے پر گہری نظر رکھنے کے لیے آپشن تلاش کر رہا ہے اور اس بارے میں دوسرے ممالک سے بات بھی کر رہا ہے۔ تاہم پاکستان نے امریکہ سے کہا ہے کہ وہ اپنے اڈے نہیں دے گا۔ پاکستان افغانستان کے خلاف کسی دوسرے ملک کے عزائم میں شمولیت نہیں چاہتا۔طالبان سے ٹی ٹی پی کے حوالے سے شکایات ہیں۔ ان شکایات کا اظہار پاکستان طالبان قیادت سے کرتا رہتا ہے۔پاک فوج سول ایجنسیوں کے ساتھ مل کر ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر رہی ہیں۔پاکستان یہ سمجھتا ہے کہ افغانستان سے دہشت گردوں کا پاکستان میں کارروائی کرنا ایسا مسئلہ ہے جسے دونوں ممالک مل کر طے کر سکتے ہیں۔امریکہ کے متعلق پاکستان کی رائے عامہ بہت خراب ہوئی ہے۔ امریکہ سیاسی معاملات میں مداخلت کے الزامات کی زد میں ہے۔امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں تعاون کے بدلے جو مراعات دینے کا وعدہ کیا اسے پورا نہیں کیا۔فلسطین مین اسارئیل کی اندھی حمایت کی وجہ سے پاکستان ہی نہیں پورا عالم اسلام امریکہ سے بیزار ہے ۔ان ھالات مین بحرانوں کا شکار پاکستان خطے کے ممالک کے ساتھ اختلافات ختم کرنے پر توجہ دے رہا ہے۔امریکہ یا کسی دوسرے ملک کو اڈے دینے سے خطے میں پاکستان کے متعلق شکایات پیدا ہو سکتی ہیں اس لئے ایسے کسی فیصلے کا امکان دکھائی نہیں دیتا۔