کچھ حلقے اس بات پر حیرت کا اظہار کر رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کا وفد عمران خان سے ملاقات کرنے ان کی لاہور والی اقامت گاہ پر کیوں گیا۔اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں۔جو کچھ پاکستان میں چند سالوں سے ہو رہا ہے۔ اس نے عالمی برادری خصوصاً پاکستان کو قرض دینے والے مالیاتی اداروں کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر دیا ہے۔قرض دینے والے ادارے جن میں آئی ایم ایف‘ ورلڈ بنک‘ ایشیائی ترقیاتی بنک ‘ انٹرنیشنل فنانس کمیشن اور کئی دوسرے ادارے شامل ہیں۔ گزشتہ کئی دہائیوں سے پاکستان کو قرض دیتے چلے آئے ہیں، پاکستان یہ قرض سود سمیت واپس دیتا چلا آ رہا ہے۔عالمی مالیاتی ادارے قرض دینے کے ساتھ ساتھ پاکستان کو مشورہ دیتے آئے ہیں کہ وہ اپنی معیشت کو مستحکم کرنے کے لئے معاشی اصلاحات کا آغاز کرے۔آئی ایم ایف کے کہنے کے باوجود معاشی اصلاحات سے گریز کرتا رہا ہے۔لیکن بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے اور ریونیو میں اضافہ کے لئے ہر دفعہ عام آدمی پر ٹیکسوں کا بوجھ ڈالتا رہا ہے۔موجودہ سٹینڈ بائی پروگرام حاصل کرنے کے لئے کروڑوں روپے کے ٹیکس لگا دیے گئے، بجلی اور گیس کی قیمت بڑھا دی گئی ہے۔ آئی ایم ایف کو مطمئن کرنے کے لئے یہ نسخہ ہماری حکومتیں کئی دہائیوں سے استعمال کرتی چلی آئی ہیں۔معاشی اصلاحات کو موخر کرنے کی وجہ سے آج پاکستان خوفناک اقتصادی اور مالی صورت حال کی گرفت میں ہے۔ٹیکس کے نظام کو بہتر کرنا تھا الٹا ٹیکس چوری کھربوں روپے سالانہ کے حساب سے بڑھ گئی ہے ،ہر روز یہ انکشاف سامنے آتا ہے کہ فلاں تجارتی یا صنعتی گروپ دھوکہ دہی سے اربوں روپے کا ٹیکس یا ڈیوٹی چوری کر رہی ہیں،جو لوگ پاکستان کے لوگوں سے سالانہ اربوں کما رہے ہیں،وہ ٹیکس سے بچنے کے لئے بڑی بڑی فیسیں دے کر قانونی فرموں سے مدد لیتے ہیں۔وزیر دفاع خواجہ آصف قومی اسمبلی میں کہہ چکے ہیں کہ کروڑوں روپے کا ٹیکس چوری ہو رہا ہے۔خواجہ آصف نے بعض ارکان اسمبلی کو ٹیکس چوروں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔ بجلی کی پیداوار اور تقسیم کے نظام میں جو گھپلے ہو رہے ہیں،وہ کھربوں روپے کے ہیں۔بجلی چوری کے ذریعے قومی خزانے کو کھربوں روپے سے محروم کیا جا رہا ہے۔توانائی کے شعبے میں کرپشن اور بدانتظامی سے اس شعبے کا گردشی قرضہ اربوں ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔سرکاری شعبے میں چلنے والے ادارے بھی قومی خزانے سے خون نچوڑ رہے ہیں۔ان حالات میں کئی سیاسی جماعتیں باہم دست و گریبان ہیں۔یہ جماعتیں ایک دوسرے کا وجود برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ہم ان حالات کے عادی ہو گئے ہیں، اس لئے ہمیں احساس نہیں ہوتا لیکن عالمی برادری اور خصوصًا عالمی مالیاتی ادارے جو پاکستان کو اربوں ڈالر کا قرض دے رہے ہیں وہ اس بات کا بروقت جائزہ لے رہے ہیں کہ پاکستان کی بگڑتی ہوئی سیاسی اور معاشی صورتحال میں کہیں ان کا پیسہ ڈوب نہ جائے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد یورپی ممالک معاشی طور پر تباہ ہو چکے تھے۔ان ملکوں کو معاشی تباہی سے نکالنے کے لئے امریکہ نے مارشل پلان کے نام سے ایک پروگرام شروع کیا۔معیشت کا یہ پروگرام اس وقت کے امریکی سیکرٹری جارج مارشل کے نام پر رکھا گیا تھا۔اس پروگرام کے تحت یورپ کے تباہ حال انفراسٹرکچر اور صنعتوں کو بحال کیا گیا۔یورپی ممالک دسری جنگ کے خاتمے کے بعد چند دہائیوں میں صنعتی اور تجارتی طاقت بن کر ابھرے۔یورپی یونین وجود میں آئی، جو اس وقت معاشی اور سیاسی طاقت کا ایک نیا عالمی مرکز ہے جنوبی کوریا امریکی فوجوں سے جنگ کے بعد ایک بڑا صنعتی ملک بن کر ابھرا۔ان ملکوں نے قرضوں کو دیانتداری سے استعمال کیا اور اپنے ملکوں کو جدید دور کی معاشی طاقت بنا ڈالا۔جنوبی کوریا کے صنعت کاروں نے قرض کی رقم سے صنعتیں لگائیں اور وہ کامیاب نہ ہوئیں تو ان صنعت کاروں میں سے بعض نے خودکشی کر لی۔بات پاکستان اور آئی ایم ایف کی ہو رہی تھی۔آئی ایم ایف سے تین ارب ڈالر کاپیکیج ملنے کے بعد پاکستان میں حکومت اور کچھ حلقے جشن منا رہے ہیں کہ ہم ڈیفالٹ سے بچ گئے ہیں۔دنیا کے نامور معیشت دان اور خود پاکستان کے آزاد معیشت دان یہ سوال اٹھا رہے ہیں کہ پاکستان کا معاشی بحران ابھی ختم نہیں ہوا اگر ہم نے معاشی دانشمندی کا مظاہرہ نہ کیا تو ہم چند ماہ میں ایک اور معاشی گرداب میں پھنس جائیں گے۔دنیا ہمیں مشورہ دے رہی ہے کہ پاکستان کی سیاسی جماعتیں مل کر ایک معاشی اتفاق رائے پیدا کریں۔وزیر اعظم بار بار چارٹر آف اکانومی پر زور دے رہے ہیں۔لیکن اس مسئلے پر کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا جا رہا۔ خبروں کے مطابق خان صاحب نے آئی ایم ایف سے اس سال فری اینڈ فیئر الیکشن کی گارنٹی مانگی ہے۔جس پر آئی ایم ایف نے کوئی کمٹمنٹ نہیں کی۔البتہ یہ کہ آئی ایم ایف کے بورڈ کے اجلاس میں پاکستان کی سیاسی صورتحال پر غور کیا جائے گا۔ادھر یورپی یونین نے برسلز میں پاکستانی صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے پاکستان میں اگلے انتخابات کے بارے میں اپنے تحفظات کا اظہار کیا اور کہا ہے کہ بتایا جائے کہ اگلے انتخابات کا مشاہدہ کرنے کے لئے ابھی تک الیکشن کمیشن نے دعوت نہیں دی۔الیکشن کمیشن نیے جواباً کہا ہے کہ یورپی یونین کے وفد کو انتخابات کا جائزہ لینے کا دعوت نامہ بھیجا جائے گا۔یورپی ارکان پارلیمنٹ نے یہ بھی اشارہ دیا ہے کہ جی ایس پی پلس سمجھوتے‘ جس کے تحت پاکستان اپنا مال رعائتی ڈیوٹی پر یورپی ممالک کو امپورٹ کرتا ہے۔اس میں توسیع کرتے وقت پاکستان نے جمہوری حقوق پریس کی آزادی اور ان ساری شرائط کی پاسداری کو پیش نظر رکھا جائے گا، جن کی بنیاد پر پاکستان کو جی ایس پی پلس کے لئے سٹیٹس کے لئے اگلے دس سال کے لئے کوالیفائی کرنا ہے۔اگلے عام انتخابات اور پاکستان میں جمہوری اصولوں فریڈم آف پریس اور شہری آزادیوں پر نظر رکھی جائے گی۔