45 سال کی عمر ہوگی حاجی انور صاحب کی تین بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ بیوی اکثر بیمار رہتی تینوں بیٹیوں کی شادی کر دی۔ بیٹا غیر شادی شدہ تھا جو انکے ساتھ منڈی میں کاروبار کرتا۔ یار دوستوں نے چند رشتہ داروں نے دوسری شادی پہ اکسانا شروع کر دیا۔ پہلے پہل انکاری رہا مگر آہستہ آہستہ ذہن اس طرف آمادہ ہونا شروع ہو گیا ظاہر ہے ایسا مشورہ دینے والوں نے کوئی رشتہ بھی ڈھونڈھا ہوگا جوان کنوارے بیٹے کے ہوتے ہوئے دل ہچکچا رہا تھا پھر ایک دن ایسا آیا اس نے شادی کا فیصلہ کر ہی لیا اور چند قریبی رفقا کے ذریعے دوسری شادی کر لی۔ نئی دلہن کی عمر 30 سال کے لگ بھگ ہوگی اور ایک غریب گھر سے تعلق رکھتی تھی اسے علیحدہ گھر لے کر دیا۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد ہی پہلی بیوی کے بچوں نے طبل جنگ بجا دیا جب بھی وہ گھر جاتا کوئی اسے نہ بلاتا۔ بیٹے نے اسی آڑھت میں اپنا علیحدہ کام شروع کر دیا۔ ملازمین دو حصوں میں تقسیم ہو گئے اس نے پہلے گھر جانا ہی چھوڑ دیا دوسری بیوی سے بھی ایک بیٹا پیدا ہوا پہلی بیوی حالانکہ بیماری کی وجہ سے ہی دنیا چھوڑ گئی مگر بچوں نے سارا ملبہ والد پر ڈال کر مکمل بائیکاٹ کر دیا۔ آج زندگی تو وہ گزار رہا ہے مگر اس کے رہن سہن سے صاف عیاں ہے کہ وہ اپنے اس فیصلے پر شدید رنج اور پچھتاوا رکھتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں جو ایک اسلامی معاشرہ بھی کہلاتا ہے آپکو ہزاروں واقعات ایسے ملیں گے دوسری شادی ایک عذاب تصور کی جاتی ہے۔ شدید ضرورت میں بھی ایسا قدم اٹھانے سے ہر کوئی ڈرتا ہے سارے جانتے ہیں کہ اسلام میں چار شادیوں کی اجازت ہے اور سوکن کا تصور تک نہیں اگر آپ عرب میں جائیں تو وہاں آپکو ایسا کرنا معمولی بات نظر آئے گا بلکہ باپ نے بیٹے یا بیٹی کی شادی کی اور ساتھ اپنی بھی کر لی۔ شادی کا سب سے اہم اور بنیادی مقصد افزائش نسل ہوتا ہے مگر گاڑی کے دونوں پہیے ایک ساتھ دوڑتے ہوئے اچھے لگتے ہیں۔ لفظ سوکن کن سے نکلا ہے کن بھاپ والے انجن سے اڑنے والے پتھر کے کوئلے کی چنگاری کو کہتے ہیں اگر ٹرین کے مسافر کی آنکھ میں پڑ جائے تو اس کی تکلیف کا کوئی اندازہ نہیں لگا سکتا اسی طرح کسی عورت کو اپنے شوہر کے ساتھ ایک اور عورت برداشت کرنا پڑ جائے تو اس کو اتنی تکلیف ہوتی ہے جتنی سوکن یعنی کوئلے کی چنگاری آنکھ میں پڑنے سے ہوتی ہے اصل میں ہم ہندوؤں سے مسلمان ہوئے دوسری شادی کا تصور ہمارے کلچر میں نہیں ہے جبکہ مذہب میں ہے اس کا صاف مطلب ہے کہ کلچر آج بھی ہم پر زور آور ہے۔ 50 یا 60 سالہ رفاقت بہت معنی خیز اور دنیا میں ایک ریکارڈ ہے کیا ایسا فائدہ مند ہے یا نقصان دہ یہ ابھی تک معمہ ہی ہے۔ اب یہ کیسے اندازہ لگایا جائے کہ مرد کتنی قربانی دیتا ہے جذبات و احساسات سے یہ بشر مبرا نہیں اگر دوسری شادی ہمارے ہاں عام ہوتی تو کیسے مسائل ہو سکتے تھے ہمارے ہاں بیوہ یا طلاق یافتہ سے شادی کرنے کا رواج ہی نہیں کنوارہ تو بالکل ہی نہیں کرتا۔ ہر ماں باپ یہ تو چاہتے ہیں کہ اس کی طلاق یافتہ بیٹی سے کوئی نہ کوئی شادی کرے مگر اپنے بیٹے کے متعلق کبھی نہیں سوچیں گے کہ یہ کسی طلاق یافتہ سے شادی کرے صاحب حیثیت آدمی اگر دوسری شادی کرے گا تو عجیب دلیل دے گا کہ دنیا میں اس کا کوئی تھا ہی نہیں میں نے خدا ترسی کی ہے ۔شادی تھوڑا کی ہے ہم اس آدمی کو حیران کن نظروں سے دیکھتے ہیں جس نے دو شادیاں کر رکھی ہوں۔ دنیا میں صرف عرب میں یہ تجربہ کامیاب رہا ہے بیوی بیمار ہو جائے یا بڑی عمر کی ہو چکی ہو دوسری شادی ممکن ہی نہیں ہمارا خاندانی نظام ایسا ہے کہ بے جوڑ شادیاں عام ہیں اس سے بھی تلخ ترین صورتحال کہ جب خاوند بیمار ہو جائے یا کوئی اور مسئلہ بن جائے تو پھر اس عورت کا کیا قصور یہ ایک ایسا حساس معاملہ ہے مذہب نے یہاں صبر کا درس دیا ہے جب بچے بھی ہو چکے ہوں یقیناً اس کا اجر بہت عظیم ہے جب شادی کا مقصد ہی افزائش نسل ہے عورت کے صبر کی داد بنتی ہے دوسری شادی کو تسلیم نہ کیا جانا یا اس کا رواج نہ ہونا سب سے اہم معاملہ ہے ہنستے بستے گھر اجڑ جاتے ہیں تعویز دھاگے پھوکا پھاکی اور پتہ نہیں کون کون سی سازشیں شروع ہو جاتی ہیں۔ دوسری شادی سے قبل عزت و احترام کی انتہا ہر کام داماد سے پوچھ کر کیا جاتا ہے اور جب دوسری شادی ہوئی ایک دم سے سب صفر اگر مرد جوان ہے یا عورت جوان ہے اور ضرورت ہے تو بالکل اسے دوسری شادی کرنی چاہیے میرے ایک دوست ہیں ان کی بیوی وفات پا گئی اولاد بھی جوان ہے اور 50 سال کا ہے باقا عدگی سے بالوں کو سیاہ کرتا ہے تازہ شیو ہوتی ہے میں نے دوسری شادی کا مشورہ دیا تو آگے سے بولا توبہ بس اب آخرت کی فکر ہے نماز پڑھی اللہ توبہ کر لی یہی زندگی ہے اکثر اداس اور ہجر والے موبائل پر گانے سنتا رہتا ہے یہ تو محبت ہے اور مزے کی بات ہے ہمارے ہاں بیوی سے محبت آپ کو ہر حال میں اپنے دل میں ہی رکھنی پڑے گی اس کا اظہار آپ کو مشہور زمانہ طعنہ رن مرید کی طور پر سننا پڑے گا بلکہ یہ تو تقریباً ہر مرد کو سننا پڑتا ہے میرے انکل اسے رن مرید نہیں کہتے بلکہ وہ کہتے ہیں اسے بیٹر ورکنگ ریلیشن شپ کہا کرو۔ محبت میں کسی دوسرے کا تصور بے وفائی ہے اسی طرح سے شادی میں بھی ہے مگر یہاں مطلب معانی و مفہوم اپنی ذات تک ہی محدود ہوتے ہیں میں اکثر دیکھتا ہوں کہ ساری زندگی بیوی سے بنتی نہیں اور آخری عمر میں ایسی فکر کے جان جائے۔ آزاد اور ترقی یافتہ ممالک کے یہ مسائل نہیں شاید وہ اسی وجہ سے ترقی کر گئے چونکہ ہمارے پورے خاندانی نظام کی بنیاد ہی انہی رسوم و روایات و رواجات پر کھڑی ہیں ایسا کرنے سے یہ زمین بوس ہو جائیں گی ۔