قومی اسمبلی توڑنے کی تاریخ کا اعلان حکمران اتحاد کی طرف سے کر دیا گیا ہے لیکن ابھی تک نگران حکومت کی تشکیل اور انتخابات کی تاریخ کے بارے میں بے یقینی کی صورت حال ہے۔ کہا جارہا ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے پانچ نام شارٹ لسٹ کر لیے گے لیکن یہ نام ابھی سامنے نہیں آئے۔ حکمران اتحاد کے سرکردہ لیڈروں کے درمیان مشاورت جاری ہے۔ اسمبلی توڑنے کی تاریخ کا جواعلان کیا گیا ہے ابھی اس میں ایک ہفتہ باقی ہے لیکن ملک کا سیاسی منظر بہت غیر واضح ہے۔ یہ بھی دعوی کیا جا رہا ہے کہ نگران حکومت کی مدت میں توسیع بھی ہو سکتی ہے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو انتخابات ایک سال یا اس سے زیادہ عرصے تک مؤخر ہو سکتے ہیں۔ انتخابات میں تاخیر ملک کو ایک غیر یقینی صورت حال کی طرف دھکیل دے گی۔ نگران حکومت بننے کے بعد اندازہ ہو سکے گا کہ یہ حکومت انتخابات کرانے کیلئے بنائی گئی ہے یا ملک کا نظام چلانے کیلئے زیادہ عرصہ تک رہے گی۔ اس وقت بہت سے نظریات اور دعوے اہم حلقوں میں گردش کر رہے ہیں۔ پاکستان اور اس کے عوام کیلئے چیلنجز بڑھتے جا رہے ہیں۔ معاشی بحران نے دو تین سال سے جکڑ رکھا ہے۔ روپے کی قدر گھٹ رہی ہے۔ برآمدات میں بھی کمی ہو رہی ہیں۔ آئی ایم ایف سے قرض کیلئے جو شرائط مانی گئی ہیں، ان شرائط نے عوام کو مہنگائی کے عذاب میں مبتلا کر دیا ہے مگر اسی دوران مستقبل کے بارے میں خوشنما اور امید افزا اعلانات بھی ہو رہے ہیں۔ مثلا فوج اور دوست ملکوں سعودی عرب، متحدہ عرب عمارات ' چین کی امداد سے پاکستان میں ایک اور 'سبز انقلاب' لانے کا پروگرام بنایا گیا ہے جس کے تحت لاکھوں ایکڑ زمین جو ابھی تک زیر کاشت نہیں اسے قابل کاشت بناکر اس سے اربوں ڈالر مالیت کی فصلیں پیدا کرنے کی خوش خبری سنائی جا رہی ہے،دیکھیں یہ محض اعلان ہی رہتا ہے یا پھر اسے عملی جامہ پہنا کر حقیقت میں سبز انقلاب کی داغ بیل ڈالی جاتی ہے ۔ایوب خان کے دور کا سبزانقلاب حقیقت میں ایک سبز انقلاب تھا۔تب اس کیلئے امریکہ نے مدد کی تھی۔اس بار امریکہ کی بجائے ہمارا درینہ دوست چین اور اس کیساتھ عرب ملک میدان میں آئے ہیں ۔ ایوب خاں کے دور میں جو سبز انقلاب آیا تھا ،اس سے گندم' چاول اور کپاس کی فی ایکٹر پیداوار میں زبردست اضافہ ہوا تھامگر اب جدید ٹیکنالوجی آ چکی ہے ،اگر حقیقت میں سبز انقلاب لانے کی کوشش کی گئی تو پاکستان زرعی اجناس میں خود کفیل ہو سکتا ہے ۔ایوب خان کے دور میں پاکستان کو اپنے قیام کے بعد غذائی قلت کا سامنا تھامگر اس سبز انقلاب کے بعد گندم اور دوسری اجناس کی پیداوار میں خود کفیل ہو گیا۔ زیادہ پیداوار دینے والے بیج دریافت کیے گئے۔ زرعی تحقیق کیلئے ادارے بھی بنے۔ زراعت نے جو جست لگائی تھی اسکے بعد حسب روایت سستی اور عدم دلچسپی کا شکار ہو گئے۔ اگر دیکھا جائے تو ایوب دور کے بعد نہ تو زراعت پر کوئی جدید تحقیق سامنے آئی ہے نہ ہی نئے بیچ دریافت کیے گئے ہیں حالانکہ اس کے بعد پاکستان خود بھی ٹیکنالوجی میں بڑی ترقی کی ہے ۔پچھلے کچھ برسوں سے ہمیں گندم باہر سے درآمد کرنا پڑ رہی ہے۔ اب جس سبز انقلاب کی باتیں اور منصوبہ بندی ہو رہی ہے اس پر سنجیدگی سے عمل کیا جائے تو اچھے نتائج نکل سکتے ہیں۔ کم از کم گندم،چاول اورکپاس کی پیداوارمیں ہم خود کفیل ہو سکتے ہیں۔ دوسری خوشخبری یہ بھی سنائی جا رہی ہے کہ وزیرستان میںبہت سے ذخائر دریافت ہوئے ہیں جن کی مالیت ایک ارب ڈالر سے زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ اس خبر پر بھی اگر سنجیدگی سے کام کیا جائے اور یہ محض ایک خوش کن تبصرہ ہی نہ رہے تو یقینا یہ ملک کیلئے ایک بہت بڑی خبر ہے۔ اس کے علاوہ ریکوڈیک منصوبے پر از سر نو کام شروع ہوا ہے۔ پہلے یہ سفر غلط انداز میں شروع کیا گیا اور تنازع کا شکار ہوا، جس کے باعث یہ بین الاقوامی عدالت میں جا پہنچا اور ملک کا وقت اور پیسہ برباد ہوا، اب خدا کرے ریکوڈیک سے حاصل ہونیوالے تانبے، سونے اور دوسری معدنیات پاکستان کے کام آ سکیں۔ سب سے اہم منصوبہ سی پیک کا ہے ۔اس کا مقصد پاکستان میں انفراسٹرکچرکی بہتری ، ریلوے کے نظام کو جدید بنانے ، بجلی کی پیداوار بڑھانے، گوادر کی بندرگاہ کو جدید بندرگاہ بنا کر اسے بین الاقوامی تجارت کیلئے آپریشنل کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں ملک بھر میں موٹرویز کا جال تو بجھا دیا گیا ہے ،اب دوسرے فیز میں اکنامل زون بنائے جا رہے ہیں تاکہ معیشت کو ترقی دی جا سکے ۔چینی نائب وزیر اعظم پاکستان پاک چین اقتصادی راہداری سی پیک کی دسویں سالگرہ منانے کیلئے پاکستان میں ہیں۔ کوئلے اور دوسرے ذرائع سے بجلی کی پیداوار بنانے کیلئے جو منصوبے شروع ہوئے ہیں ان کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی پیداوار میں خاصا اضافہ ہوا ہے۔ سی پیک پاکستان کو معاشی طور پر ترقی کی راہ پر ڈالنے میں کلیدی کردارادا کرے گالیکن اس پر کام کو برق رفتاری سے جاری رکھا جائے تاکہ قوم جلد از جلد اس کے ثمرات سے مستفید ہو سکے ۔ یہ سب ترجیحات ہیں لیکن سیاسی اورسیکیورٹی مسائل پریشانی کا سبب ہیں۔ پشاور کی پولیس لائن میں دھماکے کے بعد باجوڑ میں جے یو آئی کے کنونشن میں دھماکے نے ملک کو افسردہ کر دیا ہے اور وہ ممالک اور کمپنیاں جو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنا چاہتی ہیں، ان کے ذہنوں میں شبہات پیدا کر دیے گئے ہیں۔سیکیورٹی کے مسائل کی وجہ سے گزشتہ تیس سال میں پاکستان کو سخت نقصان ہوا ہے۔ یہ دعوی کیا جا رہا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کو سو ارب ڈالر کا معاشی نقصان ہوا ہے۔ سیکیورٹی کی صورت حال کو بہتر بنانے کیلئے سنجیدگی اور دلجمعی کے ساتھ مسلسل محنت کی ضرورت ہے ورنہ پاکستان میں سرمایہ کاری رک جائیگی۔جہاں تک صنعتی ترقی کا تعلق ہے وہاں صورت حال مایوس کن ہے۔ ٹیکسٹائل کو پاکستان کی صنعت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے۔ اس سیکٹر کو سب سے زیادہ مراعات اور ترغیبات دی گئی لیکن ہماری ٹیکسٹائل برآمدات 20 ارب ڈالر سے زیادہ نہیں بڑھ سکیں۔اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں ،جن میں مہنگی بجلی اور جان لیوا ٹیکسز ہیں،جبکہ بنگلہ دیش ، ویت نام اور کئی دوسرے ملک اس شعبے میں اپنی برآمدات کئی گنا بڑھا چکے ہیں۔ اب آئی ٹی سیکٹر سے توقع لگائی جا رہی ہے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانی تیس ارب ڈالر سے زیادہ سالانہ ملک کو بھیج رہے ہیں۔یہ ترسیلات نہ آتیں تو پاکستان کا کباڑہ ہوچکا ہوتا۔ماضی کی نسبت ترسیلات زر میں بھی کمی آئی ہے ،حکومت کو ا س جانب خصوصی توجہ دینا ہوگی ۔