شاہ جی صاحب بھی نقوی اور حسینی سادات کے سرخیل اور حضرت سیّد جلال الدین سرخ پوش کے خانوادے کے بطلِ جلیل ہیں، گزشتہ ہفتے مدیۃ السادات اوچ شریف کے اس تاجدار کا 752 واں یوم وصال او رعرس مبارک تھا ، آپؒ کے صاحبِ خاص نے اس بابت استفسار کیا ، استدعا گزاری گئی ، مارگلہ کا دامن بھی اگر ان سادات کی یاد سے آراستہ ہوجائے تو کچھ مضائقہ نہیں ... بہرحال آپ ان کے ملفوظات و ارشادات سے اکتسابِ فیض کا سلسلہ جاری ہے ، میرے قارئین چونکہ اس کے لیے ہمہ تن متوجہ اور سراپا منہمک و منتظم ہیں، اس لیے اپنی بات چھوڑتا اور ان کی بات شروع کرتا ہوں ، جن کی باتیں روشنی اور نور میں رچی بسی ہیں۔تو سُنیے اور جانیے کہ ایک سالک ِ راہ طریقت کو کیسا ہوناچاہیے اور کیا کرنا چاہیے ۔قرآن مجید کی تلاوت اس کے معانی میں غوروفکر ، اس کی حفاظت کے لیے کوشش ،طمانیت کا باعث ہوتے ہیں، بلکہ تھوڑی یا زیادہ تلاوت کو اپنی منزل بنا لے ، شروع سے پڑھے، آخر تک جائے او ر تلاوت کاآغاز کردے ، خاص معانی جن کا القاء ہو،ا نہیں ضبطِ حروف میں لے آئے ۔ عمل کا جذبہ محنت کے اجر میں اضافہ کردیتا ہے ۔تلاوت سے طبیعت میں یکسوئی اور ذکر میں دوام پیدا ہوتاہے ۔پڑھنے کے ساتھ ساتھ قرآن مجید سننے کا بھی شوق ہونا چاہیے ۔ قرآن جس وقت زبان اور کانوں کے ذریعے دل میں سما جاتا ہے تو وسوسوں کا زور خود بخود ٹوٹ جاتا ہے ۔ حلال اور حرام کی تمیز:ایک سالک اورمرید کے لیے لازم ہے، حلال کو نور سمجھے اور حرام کو بہرطور بَرا سمجھے ۔ حرام کھانے میں ہو یا لباس میں ہو یا اعمال میں حرام چیز کا ارتکاب ہو، جیسے جنسی بے اعتدالی ۔ ایک اللہ والے انسان کو مشکوک چیزیں بھی چھوڑ دینی چاہییں اور احتیاط اورپاکیزگی کے ساتھ زندگی کی گزارنی چاہیے ۔ صحبت کا درست ہونا:اپنا بیٹھنا اور اُٹھنا ،نشست وبرخاست ،سفر وحضر اورمحبت ونفرت سب میں ایک کوشش ہونی چاہیے کہ ُبرے آدمی کی صحبت میں نہیں جانا اور نیک کی صحبت سے محروم نہیں ہونا۔فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میرے ہاتھ مٹی لگی جس میں خوشبو رچی بسی ہوئی تھی ۔ میں نے پوچھا :’’تیرے اندر یہ خوشبو کیسی ؟‘‘ مٹی بولی یوں تو حقیر چیز ہوں لیکن پھولوں کی صَحبت نے مجھے خوشبودار بنا دیا ہے ۔ درود شریف:حضورﷺ سے محبت کا تقاضا یہ ہے کہ کثرت کے ساتھ رحمت عالم ﷺ پر درود پڑھا جائے ۔ آپ پر سلام حق رسالت کیا جائے ۔ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا:’’ جس نے مجھ پر ایک مرتبہ دورد پڑھا اللہ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے۔‘‘ درود شریف کی برکت سے روحانیت محکم ہوتی ہے ۔ طبیعت نرم پڑ جاتی ہے ۔ محسوس ایسے ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی حقیقت سالک کے ساتھ ساتھ ہے ۔ حدیث ہے کہ جس شخص نے آپ ﷺ پر ہر روز ہزار مرتبہ درود پڑھا، اللہ تعالیٰ اس کی موت سے پہلے ہی اسے جنت میں اس کے مقام کی زیارت کرادیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کی زیارت نصیب فرمائے ۔ گوشہ نشینی:کچھ وقت تنہائی میں رہنا اہلِ صدق وصفا کا طریقہ ہے ۔بزرگ کہتے ہیں ـ:’’ دین داری کا محفوظ راستہ یہی ہے ۔‘‘حضرت سفیان ثوری کا ارشاد ہے:’’جوشخص خلوت گزیں ہو کر اللہ کی عبادت میں مشغول ہو، اللہ تعالیٰ اس کے دل پر حکمت کے دروازے کھول دیتا ہے ۔ دنیاسے رغبت ٹوٹتی ہے اور آخرت سے لگائو بڑھتا ہے ۔‘‘ یہ خاص وقت ہوتا ہے اس میں اپنے گناہوں کی معافی فرماتے رہنا چاہیے ،البتہ نماز با جماعت قائم ہونی چاہیے ۔ اللہ والے شخص کو اپنا مرتبہ لوگوں سے چھپا نا چاہیے ۔ کہتے ہیں روحانی لوگوں کی عادت میں یہ معمولات شامل ہوتے ہیں کہ وہ کم کھاتے ہیں، کم سوتے ہیں ،کم بولتے ہیں اور تنہائی اختیار کرتے ہیں ۔ ظاہر اور باطن کی ہم آہنگی:عصرِ حاضر منافقت اور جھوٹ کا دور ہے ۔ ہر آدمی کے دودو چہرے ہیں ۔ منافق شخص کا دل مکروفریب ، بغض، حسد اور خیانت ایسی برائیوں سے بھرا ہوتا ہے ۔زندگی میں جس شخص نے محاسبہ کرلیا اور خود کو تیار لیا کہ اس نے اپنے ظاہر اور باطن کو یکساں رکھنا ہے ،وہ سمجھے کہ کامیابی کا خزانہ اس کے ہاتھ لگ گیا ۔ اگر منافقت کوئی شخص ختم کر لے تو وہ تواضع کا پیکر بن جائے گا اور عزت داروں کی عزت میں کبھی وہ کمی نہیں کرے گا۔ مناجات و مسامرہ:اللہ سے مانگنا ،اس کے سامنے گڑ گڑانا اور درد مندانہ طرز میں اللہ کے سامنے اپنی ٹوٹی ہوئی حالت رکھ دینا۔ خلوص سے اللہ کی توجہ چاہنا ۔ اس کی نظر کا التماس دل میں رکھنا ۔خود کلامی کے انداز میں اللہ سے باتیں کرنا ۔ رحمت کے دروازے کھولتا ہے ۔ مسامرہ صوفیہ کی ایک اصطلاح ہے ۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ روحیں چپکے چپکے مناجات اور اللہ کی حمد سرائی میں مشغول رہیں اور دل کو باطن کا لطیف سا ادراک ہو۔ مسامرہ ایسی پوشیدہ مناجات ہوتی ہے جس سے روح قلب کی رفاقت کے بغیر لطف اندوز ہوتی ہے۔دعا، مناجات اور مسامرہ ہر ایک کا اپنا اپنا مقام ہے ۔ مریدوں کا طرزِ عمل:حضرت شہاب عمر ابو حفص سہرودری ارشاد فرماتے ہیں: ’’مرید کا طرزِ عمل اور طریقہ یہ ہونا چاہیے کہ اس کا اپنا کوئی ارادہ اور اختیار باقی نہ رہے ،وہ اپنی ذات اور مال میں شیخ ہی کا حکم قطعی جانے ۔ مرید شیخ کے سامنے بالکل خاموش بیٹھے اور شیخ کے سامنے کوئی اچھی بات بھی نہ کرے جب تک کہ اجازت نہ ہو۔ شیخ کے سامنے مرید کی مثال اس طرح سے ہے کہ جیسے کوئی سمندر کے کنارے اپنے رزق کے انتظار میں ہو۔ کان ہمیشہ شیخ کی طرف رکھے ۔ نظروں کا مطاف بھی شیخ ہی ہو،وہ او ر سوچ یہ رکھے میری روحانی روزی حضر ت کے کلام میں ہے ۔ مرید کوئی اپنے بار ے میں سوچے کہ میں یہ ہوں اور وہ ہوں تو یہ اس کی بھول ہوگی ۔ شیخ مریدوں کے لیے الہام کا محافظ ہوتا ہے اس لیے شیخ کی طرف سے عطا خیانت نہیں ہوتی قصور طلب میں واقع ہوتا ہے ۔‘‘ شوق اور وافتگی: ہمارے شیخ فرمایا کرتے تھے کہ شوق کمالات اور اوصاف حمیدہ سکھانے والا معلوم ہے ۔ ایک مرتبہ میں اپنے والد گرامی مرتبت کے ساتھ ٹھنڈا یانی کے علاقے میں ایک مجذوب سے ملا۔ وہ نصیحت کرنے لگا کہ شوق کی آگ لگانے والا کوئی مرشد تلاش کرو ، اس لیے کہ شوق کے بغیر منزلیں طے کرنا مشکل معاملہ ہے ، یہ ایک بے تابی کا نام ہے ۔ابن عطا کا قول ہے:" شوق دل کی آگ اور جگر کی سوزش ہے ۔ قرب کے بعد فراق میں جگر کے ٹکڑے ٹکڑے ہوجانے کا نام شوق ہے ۔"حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مقولہ قرآن نے نقل کیا ہے :"فرمایا وہ بھی میرے پیچھے آرہے ہیں اے میرے رب مجھے تیرے حضور جلدی صرف اس لیے آنا ہے کہ توراضی ہوجائے۔"یہ آیت بتاتی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام پر شوق کا غلبہ تھا کہ آپ تیز دوڑے اور عرض کرنے لگے میں جلدی اور شوق سے تیری طرف آیا ہوں۔ شیخ فارس فرماتے ہیں: اہل شوق کے دل اللہ کے نور سے منور ہوتے ہیں ۔ اہل شوق کی نورانی شعاعوں کی مقبولیت حاصل ہوگی اللہ فرشتوں سے فرمائے گا:" یہ وہ لوگ ہیں جو میرے مشتاق ہیں اے فرشتو! میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں بھی ان کا مشتاق ہوں۔"