مِشی گن سٹیڈیم جسے عرفِ عام میں ’دی بِگ ہاؤس‘ یا بڑا گھر کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے۔ یہ آن آربر میں یونیورسٹی آف مِشی گن کا فٹ بال سٹیڈیم ہے۔ یہ امریکہ کا سب سے بڑا جبکہ دنیا کا تیسرا بڑا فٹ بال سٹیڈیم ہے۔ واشنگٹن پوسٹ کی ایک خبر کے مطابق گزشتہ روز اِسی سٹیڈیم میں امریکہ بھر کی جامعات اور کالجز کے طلبہ و طالبات نے فلسطین میںاسرائیلی مظالم کے خلاف بھرپور احتجاج کیا۔ اخبار کہتا ہے کہ اِس سٹیڈیم میں تِل دھرنے کی جگہ نہ تھی۔اخبار نے احتجاج کرنے والوں کی تصویر بھی چھاپی ہے جسے دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔ اِس قدر شدید احتجاج امریکی تاریخ میں دوسری مثال نہیں رکھتا۔ یہ پہلا موقع ہے کہ امریکی جامعات، کالجز اور سکولز کے طلبہ و طالبات باہر نکل آئے ہیں۔ بچے، نوجوان، مرد و خواتین اور بزرگ حضرات احتجاج کا حصہ بن رہے ہیں اور امریکی حکومت پہ زور دے رہے ہیں کہ وہ صہیونی ریاست کی غیر مشروط معاونت ختم کرے اور غزہ میں جاری مظالم کا راستہ روکے۔ یہی وجہ ہے کہ اِس وقت جہاں صہیونی ریاست اور اِس کی کارپوریشنز نے روایتی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کی آزادیِ اظہار کا راستہ روک رکھا ہے وہیں سوشل میڈیا نے لاجواب کردار ادا کیا ہے۔ اب امریکی عوام کے اِس لازوال احتجاج کو روکنا شاید امریکی حکومت کے بس سے باہر ہوچکا ہے۔ اِسی تناظر میں امریکی سینیٹر برنی سینڈرز نے امریکی صدر جوبائیڈن سے کہا ہے کہ ’یہ احتجاج تمہارے لئے ویت نام کی جنگ ثابت ہوگا‘۔ برنی سینڈرز کے مطابق جب ویت نام جنگ میں امریکی حکومت کو ہزیمت اْٹھانا پڑی تو امریکہ میں اِنہی طلبہ و طالبات کی جانب سے اپنی حکومت کے خلاف احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے۔ حالانکہ تب 68سالہ امریکی صدر جانسن چاہ رہے تھے کہ وہ دوسری بار صدارتی الیکشن لڑیں مگراْنہیں نوشتہ ِ دیوار صاف صاف الفاظ میں لکھا ہوا نظر آگیا تھا۔ اِس لئے جوبائیڈن سے کہیں کم عمر ہونے کے باوجود جانسن الیکشن سے دستبردار ہوگئے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ امریکہ میں سکولز، کالجز اور جامعات میں احتجاج کی صورت میں امریکی حکومت کو ہمیشہ اپنی نوجوان نسل کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے ہیں۔ اِس بار بھی معصوم اور نہتے فلسطینیوں پہ جاری مظالم کی تازہ صہیونی لہر میں امریکی عوام جاگ اْٹھی ہے۔اِنڈیانا یونیورسٹی نے گریجوایشن وینیو کے باہر احتجاجی زون قائم کردیا ہے۔ یونیورسٹی آف مشی گن کی گزشتہ روز کی تقریبات کے دوران امریکی طلبہ و طالبات نے فلسطینی جھنڈے اور احتجاجی بینرز اْٹھا رکھے تھے۔ ایک پلے کارڈ پہ درج تھا’غزہ میں کوئی یونیورسٹی نہیں بچی‘۔ احتجاج کرتے ہوئے امریکی نوجوانوں کے پاس سے گزرتے امریکی نیوی سیکرٹری کارلوس ڈیل ٹورو نے کہا کہ ’شکریہ نوجوانو! اب دوبارہ اب توجہ پوڈیم کی طرف دیں‘۔ مگر ٹورو کے اِس جملے کا احتجاجی نوجوانوں پہ کوئی اَثر نہ ہوا۔ اِس احتجاج کا ڈیل ٹورو کی شخصیت پہ اِس قدر اَثر ہوا کہ اْنہوں نے سٹیج پہ چڑھتے ہوئے کہا کہ وہ امریکی نوجوانوں کے پرْ امن احتجاج کی قدر کرتے ہیں۔جبکہ یونیورسٹی آف مشی گن کے طلبہ و طالبات نے مشی گن سٹیٹ انتظامیہ سے مطالبہ کیا ہے کہ ریاست وہ تمام کمپنیاں جو صہیونی ریاست سے مسنلک ہیں اْن کے ساتھ مالی روابط ختم کرے۔ جبکہ گزشتہ جمعہ کے روز نیو یارک یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات، اساتذہ اور انتظامیہ نے فلسطین کے حق میں احتجاج کیا اور جامعہ کے باہر احتجاجی کیمپ لگادیے جس پر نیو یارک پولیس نے بائیس سو افراد کو گرفتار کرلیا۔ ڈپٹی کمشنر آف آپریشنز کازڈاتری نے ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’بہتر ہوگا کہ امریکی پراپرٹی پہ غیر قانونی کیمپنگ ختم کی جائے‘۔ اِسی طرح کولمبیا یونیورسٹی میں احتجاج کرتے ہوئے مظاہرین میں سے 100افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔ کیونکہ سارے مظاہرین یہ مطالبہ کررہے تھے کہ فلسطین اور فلسطینیوں پہ صہیونی مظالم بند کئے جائیں۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے باہر فلسطین کے حق میں احتجاج کرتے ہوئے 200طلبہ و طالبات اور اساتذہ کو گرفتار کیا گیا ہے۔ جبکہ ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق امریکہ میں چھپن منفرد واقعات میں 43افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے۔ امریکی مظاہرین مسلسل یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ امریکی حکومت اْن تمام اداروں اور کمپنیوں سے اپنے روابط ختم کرے جو براہِ راست یا بلاواسطہ صہیونی ریاست کی امداد کررہے ہیں۔ اگرچہ امریکی صدر جوبائیڈن دبے الفاظ میں مظاہرین کو پرْ امن احتجاج کے حق کا دفاع کررہے ہیں مگر ساتھ ہی صہیونی ریاست کی معاونت جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی مظاہرین امریکی حکومت سے جواب طلب کررہے ہیں کہ صہیونی ریاست کی جانب سے چھیڑی جنگ میں 34ہزا ر معصوم فلسطینی افراد بشمول چودہ ہزار معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کردیا گیا ہے۔ سکولز، کالجز اور جامعات تباہ کردی گئی ہیں۔ پورا غزہ کھنڈرات میں بدل دیا گیا ہے اور امریکی حکومت پھر بھی صہیونی ریاست کی معاونت کررہی ہے؟ یہ وہ سوال ہے جس کا امریکی حکومت کے پاس جواب نہیں ہے۔امریکی حکومت، صدر، سیکرٹری آف سٹیٹ اور امریکی کانگریس نے صہیونی ریاست کے ’حق ِ دفاع‘ کا ساتھ دیا ہے مگر وہ غزہ میں جاری صہیونی مظالم کا ذکر کرنا گوارا نہیں کرتے۔ یقیناً یہی وجہ ہے کہ امریکی عوام کو غزہ میں جاری انسانیت سوز مظالم پہ امریکی حکومت کی مجرمانہ غفلت نظر آگئی ہے۔ امریکی تھنک ٹینک یہ سوچنے پہ مجبور ہیں کہ اِس صورتحال سے کیسے نبرد آزما ہوا جائے کیونکہ حالیہ احتجاجی لہر میں جوبائیڈن کا دوبارہ صدر منتخب ہونا بظاہر ناممکن لگ رہا ہے۔کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کا طاقتور ترین دھڑا یعنی پروفیسرز اپنے طلبہ وطالبات کے ہمراہ جوبائیڈن کی حکومت کی اسرائیل نواز پالیسیوں کے خلاف احتجاج کررہے ہیں۔کاش ایسا احتجاج ہمیں کسی مسلمان ملک میں ہوتا ہوا نظر آئے۔