ہمیشہ کی طرح،اس مرتبہ بھی سجادہ نشین درگاہ شریف دہلی،دیوان سیّد طاہر نظامی نے،حضرت خواجہ سیّد نظام الدین اولیأ محبوب الہٰیؒ(1236ئ1325...ئ) کے 718 ویں سالانہ عرس کی دعوت ارسال فرمائی،جو ان دنوں دہلی میں،روبہ انعقاد اور آج،عرس کی اختتامی تقریبات جاری ہیں ، اور میں کہ سُست رَو اور حیلہ جُو...،حاضری سے قاصر اور محروم...اور ان سطور کو اپنی حاضری کا ذریعہ اور وسیلہ بنانے کی سعی اور کاوش میں مستغرق ومنہمک، ویسے آج داتاؒ دربار میں،جمعتہ المبارک کے عظیم اجتماع اور کارروائی کو آپؒ کی ذات اور شخصیت سے منسوب کرتے ہوئے ، آپؒ کے احوال و افکار اور اسلوبِ حیات سے اکتسابِ فیض کا اہتمام بھی ہوگا(انشا اللہ)جس کی ایک نسبت یقینا یہ بھی ہے کہ حضرت سلطان المشائخ کا حضرت داتا صاحبؒ سے ایک منفرد تعلق اور ربط ہے،جسکاسبب آپؒ کی تصنیف لطیف کشف المحجوب ہے،جسکا دہلی کی نظامی خانقاہ ،میں خواجہ نظامؒ باقاعدہ سبقاً سبقاً درس دیا کرتے اور اس معرکتہ الارأ کتاب کے اس قدر قائل کہ عمر بھر،اسکی تعریف میں یوں رطب للسان رہے ؛ "اگر کسے راپیر نباشد، چوں ایں کتاب رامطالعہ کند اور اپید اشد۔" یعنی اگر کسی کو مرشد میسر نہ ہو ، تو اس کتاب(کشف المحجوب) کا مطالعہ اس کے لیے مرشدِ کامل کی طرح (فیض رساں) ہے ۔ کالم کا سرنامہ اقبال کے شعر کے ایک مصرعے کے ابتدائی حصّے کو بنانے کا سبب یہ ہوا کہ حضرت خواجہ نظامؒ کے ساتھ میری عقیدتمندی کے مختلف اسباب میں سے ایک یہ ہے کہ آپؒ نے اپنے عہد ہمایوں میں ایک مضبوط اور موثر خانقاہی نظام قائم کیا،جسکے زیر اثر پورا ہندوستان تھا،جسکے سامنے اس عہد کے بڑے بڑے صاحبِ سطوت و جبروت حکمرانوں اور سلاطین کو بھی پَر مارنے کی مجال نہ ہوئی ۔ اقبال نے اپنے ان اشعار میں ان تمام خصائص و کمالات کواعلیٰ حُسن و خوبی سے بیان کیا ، اور اپنے ذاتی معروضات کو کمال ہی نہایت عجز اور نیاز مندی سے آپؒ کی بارگاہ میں پیش کیا ہے،اقبال اوائل عمری ہی سے جن شخصیات کے شیدائی اور فدائی تھے ، ان میں سے ایک اہم ترین ہستی سلطان المشائخ خواجہ نظام الدین اولیأ ؒکی ہے ، جنکے دربار ِ اقدس کی حاضری اور لحد کی زیارت کو،وہ اپنے دل کی زندگی اور روشنی سے تعبیر کرتے ہیں ؛ تیری لحد کی زیارت ہے زندگی دل کی مسیح و خضر سے اونچا مقام ہے تیرا حضرت اقبال،ستمبر1905ء میں حصول تعلیم کے لیے انگلستان تشریف لے جارہے تھے،توروانگی سے قبل حضرت سلطان المشائخ کی بارگاہ میں حاضری کے متمنی تھے،چنانچہ وہ 2 ستمبر1905ء کو علی الصبح دہلی پہنچے،سیّدغلام بھیک نیرنگ اور مخزن کے اسسٹنٹ ایڈیٹر شیخ محمد اکرام آپ کے ہمراہ تھے ، دہلی اسٹیشن پر خواجہ حسن نظامی سمیت دیگر احباب نے آپ کو خوش آمدید کہا اور پذیر ائی کی۔دہلی میں آپ منشی نذر محمد، جو کہ اسسٹنٹ انسپکٹر مدارس تھے،کے ہاں قیام فرماہوئے،دہلی میں آمد کے کچھ ہی دیر بعد،اقبال اپنے احباب سمیت حضرت خواجہ نظامؒ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے،اقبال نے اپنے احباب سے درخواست کی کہ وہ مزار شریف کے حجرۂ مر قد میں تنہائی کے عالم میں، اپنی کچھ مناجات پیش کرنا چاہتے ہیں،چنانچہ آپ کے رفقأ باہر رُک گئے اور اقبال حجرۂ مزارشریف کے اندر چلے گئے اور خلوت میں،مرقد شریف کے سرہانے کے پاس بیٹھ کر، آپؒ نے اپنی عقیدت وارادت کو اشعار کی صورت میں پیش کیا ، جو کہ " التجائے مسافر "(بہ درگاہ حضرت محبوب الہٰی رحمتہ اللہ علیہ) کے عنوان سے آپ ؒکے معروف شعری مجموعہ بانگ درا میں محفوظ و موجود ہوئی۔مزار شریف سے باہر تشریف لائے تو آپؒ پر ایک عجیب وارفتگی اور کیفیت تھی،صحن میں احباب انتظار میں تھے ، انہوں نے اصرار کیا، اور آپنے اپنی اس نظم کے ا شعار،صحن میں بروئے مزار ہوکر سنائے،جو کہ ابتداً36 اشعار تھے،مگر بانگ درا میں 21 درج ہوئے،جس میں سے چند ایک حسبِ ذیل ہیں؛ فرشتے پڑہتے ہیں جس کو وہ نام ہے تیرا بڑی جناب تری، فیضِ عام ہے تیرا ستارے عشق کے، تیری کشش سے ہیں قائم نظامِ مہر کی صورت نظام ہے تیرا نہاں ہے تیری محبت میں رنگ محبوبی بڑی ہے شان، بڑا احترام ہے تیرا اگرسیاہ دلم داغِ لالہ زار تو ام وگر کشادہ جینم، گلِ بہار تو ام چمن کو چھوڑ کے نکلا ہوں مثلِ نکہت گل ہوا ہے صبر کا منظور امتحان مجھ کو چلی ہے لے کے وطن کے نگار خانے سے شرابِ علم کی لذت کشاں کشاں مجھ کو فلک نشین صفت مہر ہوں زمانے میں تیری دعا سے عطا ہو وہ نر دباں مجھ کو مقام ہمسفروں سے ہو اس قدر آگے کہ سمجھے منزلِ مقصود کارواں مجھ کو اسی نظم میں اقبال نے اپنے استاد،جو کہ خانوادۂ سادات کے گل سر سبد تھے،کی شان بھی بیان کی؛ وہ شمعِ بارگہِ خاندانِ مرتضویؑ رہے گا مثلِ حرم جس کا آستاں مجھ کو نفس سے جس کے کھلی میری آرزو کی کلی بنایا جس کی مروت نے نکتہ داں مجھ کو دُعا یہ کرکہ خداوندِآسمان و زمیں کرے پھر اس کی زیارت سے شادماں مجھ کو یعنی مولانا سیّد میر حسن،خانوادۂ علی المرتضیٰ کی وہ فرزند،جس کی روشنی سے مستنیر ہوا،اور جس کے مکتبِ علم و محبت کی دہلیز میرے لیے حرم کا درجہ رکھتی ہے ، اور جس کی توجہ اور پھونک سے میر آرزو کی کلی کھلی اور فیضیاب ہوا،جس کی محبت اور محنت سے مجھے نکتہ سبخی اور نکتہ دانی عطا ہوئی،اس کی زیارت اور صحبت مجھے پھر نصیب ہو۔ علامہ اقبال نے اپنی اس طویل نظم کے تین اشعار میں اپنے بڑے بھائی شیخ عطا محمد کی بیمار اورکسی مصیبت میں گرفتاری کے سبب اپنی سخت پریشانی کا تذکرہ کیا ہے ؛ وہ میرا یوسفِ ثانی، وہ شمعِ محفلِ عشق ہوئی ہے جس کی اخوت قرارِ جاں مجھ کو جَلا کے جس کی محبت نے دفترِ من و تو ہوائے عیش میں پالا، کیا جواں مجھ کو ریاضِ دہر میں مانندِ گل رہے خَنداں کہ ہے عزیز تر از جاں وہ جانِ جاں مجھ کو اسی تناظر میں ازاں بعد،الگ سے،ایک طویل نظم بھی، آپؒ کی بارگاہ میں لکھ کے بھجوائی،جس کو باقیاتِ اقبال میں سیّد عبد الواحد معینی نے قلمبند کیا،سرِدست یہاں پر صرف دو اشعار ہی کی گنجائش ہے ؛ سخت ہے میری مصیبت سخت گھبرایا ہوں میں بن کے فریادی تری سرکار میں آیا ہوں میں تو ہے محبوب الہٰی کر دُعا میرے لیے یہ مصیبت ہے مثالِ فتنہ محشر مجھے