آئی ایس آئی کے ایک سینئر آفیسر بریگیڈئیر (ر) سید ارشاد ترمذی ستارہ امتیاز (ملٹری) نے ستر اور اسی کی دہائی کے بارے میں ایک کتاب ’’پروفائل آف انٹیلی جنس Profiles of Intelligence لکھی تھی ۔ برگیڈئیر ترمذی نے یہ کتاب پندرہ جولائی 1995 ء کو مجھے بھیجی ۔ اس وقت میں نوائے وقت اسلام آباد میں چیف رپورٹر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں نبھا رہا تھا۔ کتاب کے کچھ اقتاسبات راقم نے نوائے وقت میںرپورٹ کی شکل میں 1995 ء میں شائع کیے تھے۔ بریگیڈئیر ترمذی نے ستر کی دہائی میں پاکستان کو سلامتی کے حوالے سے درپیش چیلنجوں داخلی صورت حال اور پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازشوں کے بارے میں مستند معلومات قارئین تک پہنچائیں ۔پروفائلز آف انٹیلی جنس میں سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی امریکہ کے سابق وزیر خارجہ ہنری کسنجر سے ملاقات کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ کتاب میں ایک بابKill Zulfiqar Ali Bhutto کے عنوان سے شامل ہے۔ جس میں بریگیڈئیر ترمزی نے لکھا ہے کہ 1974ء میں لاہور میں ہونے والی کامیاب اسلامی سربراہی کانفرنس کے بعد بھارت نے ایٹمی دھماکہ کیا۔ بھارتی دھماکے کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے فیصلہ کیا کہ پاکستان کو ہر صورت ایٹمی طاقت بنانا ہے۔ بھٹو کے اس فیصلے سے مغربی ملکوں میں پریشانی کی لہر دوڑ گئی ۔ بریگیڈئیر ترمزی کے مطابق ایک طرف بھٹو خارجہ پالیسی کے میدان میں اہم فیصلے کر رہے تھے تو دوسری طرف ملک کی داخلی صورت حال بگڑ رہی تھی ۔ جس سے امریکہ اور مغربی ملکوں نے فائدہ اُٹھا کر بھٹو کے خلاف پاکستان میں احتجاجی فضا میںشدت پیدا کرادی ۔ پروفائلز آف انٹیلی جنس کے مطابق (9 ) نو اگست 1976ء کو امریکی وزیر خارجہ ڈاکٹر ہنری کسنجر نے لاہور میں ذوالفقار علی بھٹو سے ملاقات کی اور مسٹر بھٹو پر دبائو ڈالا کہ وہ فرانس سے ایٹمی ری پراسینگ پلانٹ حاصل کرنے کی کوشیش ترک کردیں۔ پاکستان اور فرانس کے درمیان سمجھوتہ ہو چکا تھا کہ فرانس پاکستان کو بین الاقامی خفاظتی قوانین اور انٹرنیشنل اٹامک انرجی اتھارٹی کے سیف گارڈ ز کے تحت ری پراسسنگ پلانٹ فراہم کرے گا۔ بھٹو نے ہنری کسنجر کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور فرانس سے سمجھوتے کے مطابق ایٹمی ری پراسسنگ پلانٹ لینے کے عزم کا اظہار کیا۔ بریگیڈئیر ترمذی نے اس بات کو اپنی کتاب میں تصدیق کی کہ ہنری کسنجر نے ذوالفقار علی بھٹو کو دھمکی دی تھی کہ اگر انہوںنے فرانس سے ری پراسسنگ پلانٹ حاصل کرنے کا ارادہ ترک نہ کیا تو انہیں ایک بھیانک مثال بنا دیا جائیگا ‘‘ کتاب کے مطابق ہنری کسنجر نے کہا تھا We will make a horrible example of you بھٹو کو بھیانک مثال بنانے کیلئے امریکہ نے 1976 اور 1977 میں پاکستان میںہونے والے واقعات سے فائدہ اُٹھایا۔ 1976ء کے آخر میں بھٹو نے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی آئینی مدت ختم ہونے سے ایک سال پہلے ملک میں انتخابات کرائیں گے۔ بھٹو نے جنوری 1977ء میں نئے انتخابات کرانے کا اعلان کر ایا اور اُن کے خلاف کھیل کا آغاز ہوگیا۔ پی پی پی کے کچھ سینئر لیڈروں کا دعویٰ ہے کہ ہنری کسنجر نے ہی ذوالفقار علی بھٹو کو اُن کے کچھ مشیروں کے ذریعہ مشورہ دیا کہ جا کر امریکہ میں نومبر1976ء میں صدارتی انتخابات ہوں گے ۔ امریکہ کا نیا صدر منتخب ہوگا۔ پی پی پی کو بھی نئے انتخابات کرا کر نیا مینڈیٹ لینا چاہیے ۔ بھٹو اس ٹریپ میں پھنس گئے اور انہوںنے سات اور دس مارچ کو قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کرانے کا اعلان کر ایا۔ انتخابات کا اعلان ہوتے ہی بھٹو کی ساری اپوزیشن پاکستا ن قومی اتحاد کے نا م سے اکھٹی ہوگئی اور انہوںنے ملک کی سیاسی فضابدل دی ۔ برگیڈئیر(ر) ترمذی کی کتاب کے مطابق بعض امریکی سفارت کاروں نے قومی اتحاد کے لیڈروں سے براہ راست رابطے قائم کرلیے تھے۔ 1977 ء کے انتخابات کا اعلان ہوتے ہی امریکی سی آئی اے کے لوگ صحافیوں اور فوٹو گرافروں کے روپ میں اسلام آباد پہنچے اور انہوںنے قومی اتحاد کے لیڈروں کے ساتھ رابطے کیے۔ امریکہ نے پی ایل 480 کے تحت بڑی مقدار میں فنڈز ریلیز کیے۔ اور اُن تمام صنعت کاروں اور کاروباری افراد کو جو بھٹو حکومت میں اُس کی نیشنلائیزیشن پالیسی سے متاثر ہوئے تھے ، سے کہا گیا کہ وہ پاکستان قومی اتحاد کو فنڈز فراہم کریں ۔ اپریل میں پاکستان قومی اتحاد کا پی پی مخالف جلوس جب لاہور گوئنیز روڈسے گزر رہا تھا تو امریکی سنٹر کے سامنے گزرتے ہوئے شرکا ء نے امریکہ کے حق میں نعرے لگانے شروع کر دئے جن کے جواب میں لاہور میں اس وقت متعین ایک امریکی سفارت کار نے ہاتھ ہلا ہلا کر قومی اتحاد کے جلوس کا خیر مقدم کیا۔ برگیڈئیر ترمزی کے مطابق بھٹو کو اقتدار سے الگ کرنے کے لئے امریکہ سر توڑ کوشیش کر رہا تھا۔ بھٹو کو اقتدار سے ہٹانے کے بعد انہیں نواب احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا۔ اور پھر انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پھانسی چڑھا دیا گیا۔ ڈاکٹر ہنری کسنجر سرد جنگ کے زمانے میں امریکی وزیر خارجہ اور صدر نکسن کے مشیر بھی رہے۔ امریکہ کی اس دور کی خارجہ پالیسی پر اُن کا گہرا ثر تھا۔ سویت یونین جو اس دور میں امریکہ کی ٹکر کی طاقت تھی کو محدود کرنے اوراس کے پھیلتے ہوئے اثرو رسوخ کو کم کرنے کیلئے ہنری کسنجر نے صدر نکس کو چین کے ساتھ سفارتی تعلقات استوار کرنے کا مشورہ دیا۔ پاکستان جس کے چین کے ساتھ اچھے تعلقات تھے، اس کے ذریعہ امریکہ نے چین کے ساتھ پہلا رابطہ کیا۔ ہنری کسنجر نے 1969 ء میں اسلام آباد سے خفیہ طورپر بیجنگ کا سفر کیا اور چین کے کمیونسٹ راہنما چیئرمین اڈز سے تنگ اور وزیراعظم چو این لائی سے ملاقاتیں کیں۔ چین اور امریکہ بھی سفارتی تعلقات قائم ہوگئے۔ جس کے بعد امریکی صدر نکسن نے 1872ء میں چین کا دورہ کیا اور ’’سرخ چین‘‘ سے تعلقات کا آغاز ہوا۔ ہنری کسنجر امریکہ چین تعلقات کے معمار تھے۔ امریکہ چین دوستی کرانے میں پاکستان کا کردار بہت اہم تھا۔ کسنجر چین کی تہذیب اور چینی لیڈروں کے ویژن سے بہت متاثر تھے۔ چین پر ڈاکٹرہنری کسنجر نے اپنی کتابKissinger on China میں چین کو اندرونی اور بیرونی اعتبار سے آزادی دلانے والے عظیم رہنما مائوزئے تنگ تحسین پیش کیا تھااور لکھا ہے کہ مائوزئے تنگ نے امریکہ اور سویت یونین جو دونوں ایٹمی طاقتیں تھیں کو ایک دوسری کے خلاف استعمال کیا اور انہیں چین کے خلاف کسی بھی جارحیت سے دور رکھا۔ جب چین خود ایٹمی طاقت بنا تو اس نے عالمی سطح پر موثر کردار ادا کرنا شروع کیا۔ ہنری کنسجر اندرا گاندھی سے نفرت کرتے تھے۔ 1971ء کے بحران میں ہنری کسنجر کے کہنے پر صدر نکسن نے اندرا گاندھی کو مغربی پاکستان پر حملے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی دی تھی جس پر اندراگاندھی مغربی پاکستان پر حملے سے باز رہیں۔