ڈاکٹر راغب حسین نعیمی ،نرم دم گفتگو اور گرم دم جستجو کے مصداق، اپنے تعلیمی اور تدریسی اہداف و مقاصد کے حصول میں، بڑی مستقل مزاجی کے ساتھ سرگرداں اور سرگرم عمل رہتے ہیں ۔ سادگی اور وفاشعاری ان کے خاندان کا طرۂ امتیاز ،دیرینہ مراسم کو نبھانے کے ہنر وحوصلہ سے بخوبی آگاہ ، پُرامن بقائے باہمی فلسفے کے قائل، ہر ایشو اور موضوع پر اپنی ایک ر ائے بنانے اور استوار کرنے اور اس کے بر ملا اظہار کا داعیہ اور قرینہ رکھتے ہیں، چند روز قبل،انہوں نے ایک نجی ٹی وی پروگرام میں ایسی باتیں فرمائیں، جو اگر کوئی سرکاری یا ریاستی کارندہ یا میری طرح کا دفتری آدمی کہہ دیتا تو اس کے تانے نجانے کہاں کہاں ملادیئے جاتے ، لیکن ایک عظیم درسگاہ کے مہتمم ہونے کے ناطے ، انہیں یہ استحقاق میسر ہے ، جس کا انہوں نے بر ملا اور بر وقت اظہار فرمایا ۔ اصحابِ مسندِ تدریس و تعلیم اور محراب و منبرکو اس پر غوراور ایک جامع حکمت عملی وضع کرے اور ان امور کی بجا آوری کا سو سائٹی اور سٹیٹ میں حوصلہ پیدا کرنا چاہیے ۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ : i۔امام اور خطیب کی کم از کم دینی و دنیاوی تعلیم مقرر کرنے کے لیے قانون بنایا جائے۔ ii۔مسجد کا ادارہ ریاست کے تابع ہو تا ہے، ا س پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ iii۔ہجوم اُس وقت تشدّد پر اُترتا ہے، جب قانون پر عملد رآمد میں ناکامی ہوتی ہے۔ iv۔ مذہبی طبقہ لوگوں کو انسانی حقوق کی پاسداری اور قانون کی عملداری کے بارے میں بتائے۔ v۔"توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم" کے حقیقی مجرم کو سزا دینا بندے کا نہیں، حکومت کا کام ہے ۔ vi۔ وفاقی شرعی عدالت میں "توہین ِرسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم " کے جائز اور بروقت فیصلے کے لیے قانونی،شرعی اور فقہی بصیرت رکھنے والے علماء کو ذمہ داریاں تفویض ہوں۔ vii۔"توہینِ رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم " کیس کا فیصلہ ایک ماہ میں ہونا چاہیے ۔ viii۔" توہین رسالت صلی اللہ علیہ والہ وسلم " کا الزام غلط ثابت ہونے پر ، جھوٹا الزام لگانے والے کو سزا موت دی جائے۔ ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کے یہ نکات متعلقہ اخبار میں شائع ہوئے، جس کا لنک انہوں نے اپنے فیس بُک پیج پر بھی شیئر کیا ، ڈاکٹر صاحب کی باتیں از حد فکر انگیز ، انقلاب آفریں اور وقت کی اہم ترین ضرورت ہیں ، ان کے مذکورہ سات نکات میں سے ہر نکتہ ایک مکمل پالیسی اور جامع حکمت عملی کا متقاضی ہے، ہمارے ہاں ایسی بہت سی باتیں محض روشن خیالی اور مغرب زدگی کا لیبل لگا کر رد اور پھر اس کی مختلف توجہیات پیش کرکے ، ان سے اِعراض اختیار کر لیا جاتا ہے ۔اب کہ ان نازک اور اہم قومی اور دینی امور کے داعی ہمارے ڈاکٹر صاحب بنے ہیں ، مقامات یقینا نازک اور احتیاط طلب ہیں، لیکن بہت جینوئن۔ محدود اور مخصوص سرکاری یا نیم سرکاری اداروں میں خطیب /امام و موذن/خادم کی تقرری کے لیے قواعد اور سروس رولز موجود ہوتے ہیں ، جس میں بالعموم دینی مدارس بورڈز کی ’’سند شہادۃ العالمیہ فی العلوم العربیہ والاسلامیہ‘‘ ہی مستند اور معتبر ہے ، یہ دینی بورڈز پہلے سرکاری سطح پر پانچ اور اب تقریباً دس ہیں، جن کو یہ اختیار میسر ہوچکا ہے ، ان میں سے کچھ تو تعلیمی اور تدریسی حوالے سے مضبوط نظامِ فکر و عمل پر یقین رکھتے ہیں ، اور ملک میں ان کا ایک وسیع دائرہ اور حوالہ ہے ، جبکہ بعض محض"مدرسہ پالیٹکس" اور دینی لیڈر شپ کے لیے اس میں مستعد ہوئے ہیں ، ایسے میں وہ نوزائیدہ بورڈز شاید ان تعلیمی و تدریسی نظام کی بہتری اور اس کے روایتی نظام میں استحکام کی علامت نہ بن سکیں۔ المیہ تو یہی ہے کہ ان مدارس سے ڈگریاں جاری ہو رہی ہیں ، لیکن ان کے تعلیمی معیار کے جائزے ، امتحانات کے انعقاد کے لیے کوئی " قومی ادارہ" معرضِ عمل میں نہیں آسکا، اور یہ کیوںعمل میں نہ آسکا...؟ اس کا سبب ہم سب کو معلوم ہے ، اس امر کو مدرسہ لیڈرشپ اپنی خودمختاری کے منافی خیال کر تی ہے ۔ بنیادی اور اہم بات یہ کہ ہماری دینی زندگی کے محور، " مسجد" کے عملہ کی تعلیم و تربیت سے متعلق ان امور کو ، ہماری مذہبی قیادت و سیادت زیر غور لانے، بلکہ ان پر بات کرنے کے لیے تیار ہی نہیں ۔اگرچہ یہ امور قومی اور ریاستی سطح پر بھی نظر انداز ہوتے ہیں ، لیکن چونکہ ان معاملات کی "Ownership" اور عملداری ہمیشہ مذہبی قیادت اور مدرسہ لیڈر شپ نے اپنے پاس رکھی ہے اور اس پورے نظام میں کسی سرکاری تعلیم و تدریس کا وجود نہیں، اس لیے اس شعبہ میں پیدا ہونے والے سقم کے زیادہ تر ذمہ دار بھی و ہی ہیں ، جو اس کے کسٹوڈیئن ہیں، اگرچہ اس میں کچھ امور پر حکومت اور ریاست کو بھی کردار ادا کرنا چاہیے ، جن میں بطور خاص "تدریب الائمہ" کے حوالے سے آئمہ/خطباء کے ریفریشر کورسزاور "Mainstreaming of Madrassa"یعنی مدارس کو قومی دھارے میں شامل کرنے کے سرکاری ایجنڈے کے عملی نفوذ کے لیے قومی سطح پر تربیتی ادارہ کا قیام ہے، جہاں مختلف مسالک و مکاتب کے علماء کے مشترکہ طور پر ریفریشر کورسز کا اہتمام ہوسکے ۔ ڈاکٹر صاحب نے یہ فرما تودیا ہے کہ مسجد کا ادارہ ریاست کے تابع ہوتا ہے ، لیکن عملی سطح پر توشاید اس کا اطلاق ان نہایت قلیل مساجد پر ہو ، جن کا ایڈ منسٹریٹوکنٹرول اوقاف کے پاس ہے ، بصورتِ دیگر اس پورے ریجن، جس میں سارا بر صغیر شامل ہے ، کا محراب و منبر سرکاری اور ریاستی عملداری سے آزاد ہے ۔ دینی طبقات میں سے وہ گروہ جو ریاست اور حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرنے کا زیادہ ملکہ اور استعداد رکھتا ہو ، اس کی عوامی سطح پر تحسین اور پذیرائی بھی زیادہ ہوتی ہے ۔ (جاری ہے)