سرمایہ کاری کی ایک اعلیٰ سطحی کانفرنس آج سے سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں شروع ہو رہی ہے۔ یہ ایک بڑی ہائی پروفائل کانفرنس ہے جس میں ترقی یافتہ مغربی ممالک کی ممتاز و معروف بزنس کمپنیوں اور دنیا کے صف اول کے چینلوں، میڈیا ہائوسز اور سربراہوں نے شرکت کرنا تھی مگر 2 اکتوبر کو استنبول کے سعودی قونصل خانے ممتاز و معروف صحافی جمال خاشقجی کے قتل پر عالمی کمیونٹی نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے اور بیشتر ممالک، کمپنیوں، چینلز اور اخبارات نے شرکت سے انکار کردیا ہے۔ جمال خاشقجی کون تھا؟ عرب دنیا ہی نہیں وہ مغرب میں بھی خوب جانا پہچانا جاتا تھا مگر پاکستان کے اہل دانش و اہل صحافت اس سے زیادہ آگاہ نہ تھے۔ جمال خاشقجی ایک ترکی النسل سعودی تھے۔ جمال کے دادا بانی سعودی عرب شاہ عبدالعزیزکے معالج خصوصی تھے۔ انہوں نے ایک سعودی خاتون سے شادی کرلی اور یوں وہ سعودی شہری بن گئے۔ جمال خاشقجی خاندان کی تیسری نسل سے تھے۔ وہ 1958ء میں مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی اورثانوی تعلیم سعودی عرب میں حاصل کی اور پھر انڈیانا سٹیٹ یونیورسٹی امریکہ سے بزنس ایڈمنسٹریشن میں بیچلر کی ڈگری حاصل کی۔ عربی تو جمال کی مادری زبان تھی مگر امریکہ میں تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسے روانی سے انگریزی بولنے اور لکھنے پر بھی ملکہ حاصل تھا۔ جمال خاشقجی شاہی خاندان کے قریب سمجھے جاتے تھے۔ وہ سعودی عرب میں ہی نہیں پوری عرب دنیا میں ایک نامور صحافی کے طورپر جانے اور پہچانے جاتے تھے۔ وہ العرب نیوز چینل کے مینجر اور ایڈیٹر انچیف تھے۔ وہ سعودی عرب کے الوطن اخبار کے بھی ایڈیٹر رہے۔ جمال کا کہنا تھا کہ کچھ ہی مدت پہلے اسے سعودی عرب میں ٹیوٹر پر بھی اظہار خیال کرنے سے روک دیا گیا۔ اس کا کہنا تھا کہ مجھ کو احساس کی شدت نے جلا رکھا ہے جب 2017ء میں کچھ ’’منحرفین‘‘ خواتین و حضرات اور علمائے کرام کوگرفتار کیا گیا تو جمال نے یہ سوچا کہ کہیں اس کی باری بھی نہ آ جائے کیونکہ سعودی عرب میں ہی رہتے ہو جمال دل کی بات کو برملا نہ سہی بین السطور لکھ دیتے تھے۔ جب انہوں نے دیکھا کہ اب یہاں سنسر شپ کی چھلنی بہت باریک ہو گئی ہے تو انہوں نے ایک اور الگ سے اپنے درد کی تصویر دنیا کے ساتھ شیئر کرنے کے لیے امریکہ کے انتہائی معروف روزنامے واشنگٹن پوسٹ میں لکھنا شروع کردیا۔ جمال خاشقجی کا یہ یقین تھا کہ سو رنگ سے بنتی ہیں اک درد کی تصویریں تقریباً ایک سال سے واشنگٹن پوسٹ میں چھپنے والے یہ کالم ساری دنیا میں پڑھے جاتے تھے۔ جمال خاشقجی پہلے طاقتور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے جدت پسند ایجنڈے کے حامی تھے۔ بعد میں وہ محمد بن سلمان کے نقاد کیسے بن گئے۔ دراصل جمال خاشقجی کا کہنا یہ تھا کہ جدید ایجنڈے کے ساتھ تھوڑی سی آزادی اظہار بھی ہونی چاہیے۔ خود اختیاری جلاوطنی کے دوران جمال خاشقجی ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے استنبول آئے تو یہاں ان کی ایک ترک خاتون کے ساتھ ملاقات ہوئی جن کی ذہانت و فطانت سے وہ بہت متاثر ہوئے اور یوں دونوں نے رشتہ ازدواج میں بندھ جانے کا فیصلہ کرلیا۔ جمال خاشقجی اسی شادی کے لیے 2 اکتوبر کو سعودی قونصل خانے گئے تاکہ وہ شادی کا اجازت نامہ حاصل کرسکیں۔ 2 اکتوبر سے لے کر اب تک جمال خاشقجی کی ہلاکت کے بارے میں کئی کہانیاں سامنے آتی رہیں اور کنفیوژن بڑھتا رہا۔ شروع میں تو سعودی عرب نے اس بات پر اصرار کیا کہ جمال خاشقجی 2 اکتوبر کو قونصل خانے آئے بھی تھے اور واپس بھی چلے گئے مگر ترکی کے ایک معروف اخبار نے حکومتی ذرائع کے حوالے سے ایک رپورٹ شائع کی جس میں جمال خاشقجی کو قونصل خانے کے اندر ہی ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے آغاز میں کہا کہ اگر جمال خاشقجی کے قتل کے ساتھ سعودی حکومت کا کوئی تعلق ثابت ہوا تو مملکت کو سنگین و شدید نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ دو روز قبل سعودی عرب نے اپنی تحقیق کی روشنی میں نیا موقف پیش کیا۔ اس بیان کے مختلف متن میڈیا اور سوشل میڈیا کی دنیا میں گردش کر رہے ہیں۔ لب لباب یہ ہے کہ جو ٹیم استنبول گئی اسے کہا گیا تھا کہ جمال خاشقجی کو واپس سعودی عرب آنے پر آمادہ کرے وہ واپس آنے سے انکار کردیں تو پھر انہیں کوئی نقصان پہنچائے بغیر واپس جانے دیا جائے۔ اس سعودی وضاحت میں بتایا گیا کہ وہاں قونصل خانے میں ان سعودیوں اور جمال خاشقجی کی آپس میں ہاتھا پائی ہوئی تھی جس کے نتیجے میں سانس رکنے سے جمال کی ہلاکت واقع ہوگئی۔ سعودی فرمانروا نے پانچ مشیروں اور اعلیٰ عہدے داروں کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا ہے اور استنبول نے بھی اس ہلاکت کے حوالے سے اٹھارہ سعودیوں کو گرفتار کرنے کا حکم بھی دے دیا ہے۔ سعودی وزیر عدل نے کہا کہ ان پر مقدمہ سعودی عرب کی عدالتوں میں چلایا جائے گا۔ سعودی عرب کے وزیر خارجہ عادل الجبیر جو اس منصب سے پہلے امریکہ میں مملکت کے سفیر بھی رہ چکے ہیں، نے امریکی ٹی وی فاکس چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے اس واقعے کو ایک سنگین غلطی قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ سعودی عرب اس طرح کی کارروائیوں پر یقین نہیں رکھتا۔ ولی عہد محمد بن سلمان اس واقعے سے بے خبر تھے بہرحال سعودی عرب نے اس سے پہلے بھی ایسی کارروائی کی اور نہ آئندہ کبھی کرے گا۔ اس واقعے کے جو ذمہ دار ہوں گے ان کو قرار واقعی سزا دی جائے گی۔ سعودی عرب کے اس اعتراف کو پہلے ڈونلڈ ٹرمپ نے سراہا اور اسے ایک اچھا بلکہ ایک بڑا قدم قرار دیا تاہم بعدازاں ری پبلکن اور ڈیموکریٹ سینیٹرز کے بڑھتے ہوئے دبائو کے پیش نظر ٹرمپ نے سعودی عرب کا مؤقف تسلیم کرنے سے انکار کیا ہے اور مزید وضاحت کا مطالبہ کیا ہے۔ جرمن چانسلر اینجلا مرکل نے بھی شدید ردعمل ظاہر کیا ہے۔ مغربی ممالک کا کہنا ہے کہ اگر اس قتل سے سعودی حکومت کا کوئی براہ راست تعلق ثابت ہوا تو وہ مملکت کے بارے میں ایک مجموعی موقف اختیار کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکی عوام کو بتایا ہے کہ سعودی عرب ہمارے اسلحے کا روایتی خریدار ہے۔ اس کے ساتھ کل تجارت کا حکم 450 بلین ڈالر ہے جبکہ 110 بلین ڈالر کا اسلحہ فروخت ہوتا ہے۔ تقریباً دس ملین امریکیوں کی نوکریاں سعودیہ کی سرمایہ کاری اور سعودی عرب کے لیے ہماری برآمدات سے وابستہ ہیں۔ ٹرمپ نے یہ بھی بتایا کہ سعودی عرب سے یہ ڈیل منسوخ کرنے کی صورت میں انہیں کم اور ہمیں نقصان زیادہ ہوگا۔ کیونکہ سعودی عرب ہم سے نہیں روس یا چین سے اسلحہ خریدے گا اور ہمارے لاکھوں لوگ بیروزگار ہو جائیں گے۔ بہرحال جمال خاشقجی کی ہلاکت کے باعث ریاض کی سرمایہ کاری کانفرنس کی چکاچوند بڑی حد تک ماند پڑتی ہوئی دکھائی دے رہی ہے کیونکہ فنانشنل ٹائمز، بلومبرگ، سی این این، سی این بی سی نے بھی کانفرنس میں نہ شامل ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نے بھی میڈیا سپانسرشپ سے ہاتھ اٹھا لیا ہے۔ آئی ایم ایف کی سربراہ کرسٹین لیگارڈ کی شمولیت بھی اب غیریقینی ہو گئی ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم عمران خان کے پیش نظر جو عالمی سطح کی شخصیات اور اداروں کے ذمہ داروں سے وسیع تر ملاقاتوں کا پروگرام ہوگا وہ بھی تشنہ تکمیل ہی رہ جائے گا۔ اس سارے منظر نامے میں اتنی ہولناک حقیقت تو اب ثابت ہوگئی ہے کہ جمال خاشقجی اب اس دنیا میں باقی نہیں۔ اب اس حقیقت کا منظر عام پر آنا باقی ہے کہ کن حالات میں یہ افسوسناک قتل ہوا اور اس کا اصل ذمہ دار کون ہے اور یہ کہ جمال خاشقجی کی لاش کہاں ہے۔ جمال خاشقجی اپنے کالموں میں آزادی اظہار پر بہت زور دیتے تھے جو ان کے بقول عالم عرب میں تقریباً ناپید ہے۔ وہ ولی عہد محمد بن سلمان کے بھی نقاد تھے۔ واشنگٹن پوسٹ کے لیے ان کا جو 2 اکتوبر سے پہلے لکھا ہوا آخری کالم اخبار کو 2 اکتوبر کے واقعے کے بعد موصول ہوا۔ وہ کالم اخبار میں ان کی گمشدگی یا ممکنہ ہلاکت سے پہلے نہ چھپ سکا تھا۔ اس کالم میں جمال خاشقجی نے بڑی حسرت سے 2011ء میں شروع ہونے والی ’’بہار عرب‘‘ کا تذکرہ کیا ہے۔ انہوں نے لکھا کہ عربوں نے اس بہار سے بڑی امیدیں وابستہ کرلی تھیں۔ 60 سالہ سعودی صحافی نے تحریر کیا ہے کہ یہ بہار اپنے جوبن پر آنے سے پہلے ہی خزاں رسیدہ ہو گئی اور ابتدائے بہار میں جن پھولوں کے کھلنے کی آس امید بندھی تھی وہ بن کھلے ہی مرجھا گئے۔ آزادی اظہار کی پاسداری کے کئی عالمی اداروں کی رپورٹوں کے مطابق عرب دنیا میں صرف ایک ملک تیونس ہے جہاں میڈیا آزاد ہے اس کے علاوہ اردن، مراکش اور کویت میں محدود سی آزادی ہے باقی رہے نام اللہ کا۔ مرحوم جمال خاشقجی کی ترک منگیتر ہٹیں گینگز نے عربی میں اپنا ٹیوٹر پیغام وائرل کیا ہے جس میں لکھا ہے: ’’ڈیئر جمال! دل آزردہ و افسردہ ہے، آنکھوں سے اشک رواں ہیں اور تمہاری جدائی سے ہماری زندگی بہت مضطرب و پریشان ہے، جمال! تمہاری میت کہاں ہے؟‘‘