ریکوڈک کے حوالے سے سب سے پہلے انیس سو ترانوے میں اسوقت کی ایک نگراں حکومت جس کا اخلاقی مینڈیٹ نہیں تھا کہ وہ کوئی اتنا بڑا معاہدہ کرتی چلیں کرلیا بلوچستان کے سابق سیکریٹری خزانہ اور معاشی امور کے ماہر محفوظ علی خان کے ایک مضمون کے مطابق حکومت بلوچستان نے یہاں کے معدنی وسائل سے استفادہ کرنے کے لیے ریکوڈک کے حوالے سے 1993 میں ایک امریکی کمپنی بروکن ہلز پراپرٹیز منرلز کے ساتھ معاہدہ کیا۔یہ معاہدہ بلوچستان ڈیویلپمنٹ اتھارٹی کے ذریعے امریکی کمپنی کے ساتھ جوائنٹ وینچر کے طور پر کیا گیا تھا۔چاغی ہلز ایکسپلوریشن کے نام سے اس معاہدے کے تحت 25 فیصد منافع حکومت بلوچستان کو ملنا تھا۔ اس معاہدے کی شقوں میں دستیاب رعایتوں کے تحت بی ایچ پی نے منکور کے نام سے اپنی ایک سسٹر کمپنی قائم کرکے اپنے شیئرز اس کے نام منتقل کیے تھے۔ منکور نے بعد میں اپنے شیئرز ایک آسٹریلوی کمپنی ٹھیتیان کوپر کمپنی (ٹی سی سی)کو فروخت کیے۔نئی کمپنی نے علاقے میں ایکسپلوریشن کا کام جاری رکھا جس کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ ریکوڈک کے ذخائر معاشی حوالے سے سود مند ہیں۔ بعد میں کینیڈا اورچِلی کی دو کمپنیوں کے کنسورشیم نے ٹی سی سی کے تمام شیئرز کو خرید لیا۔ٹی سی سی نے 2006ء تک کھدائی اور فنی معلومات کے ضمن میں 400 ملین ڈالر صرف کئے اور رپورٹ کے مطابق اسی سال بیرک نے 130 ملین ڈالر کے حصص خریدے تھے۔ ٹی سی سی نے جو 3.3 بلین ڈالرزکی سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار تھی۔ بلوچستان حکومت کواس بات کی پیشکش کی کہ وہ کمپنی میں 25 فیصد ایکویٹی حصص خریدلے اور یہ کہ حکومت کو مزید آمدنی پر رایلٹی دیجائیگی راقم کی معلومات کے مطابق فزیبلٹی رپورٹ کے حوالے سے اس پروجیکٹ پر کام کرنے والے ایک ذمے دار آفیسر نے بلوچستان حکومت کے حکام کو جو معلومات فراہم کیں تھیں وہ حکومت بلوچستان اور قومی اداروں کیلئے حیران کن تھیں تاہم فزیبلٹی میں انکا ذکر کہیں نہیں تھا جس پر بلوچستان حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں نے چھان بین کی تو وہ اطلاعات درست ثابت ہوئیں جس کے بعد حکومت بلوچستان نے ٹی سی سی کو واضح لفظوں میں دو پیغامات دیئے جن میں پرانے معاہدوں میں کمپنی کو دیئے گئے فوائد کو آئوٹ آف باکس ریلیکسیشن کہا گیا اور کمپنی سے حکومت بلوچستان کا حصہ بڑھانے کا مطالبہ کیا گیا اور ساتھ ساتھ یہ بھی بتایا گیا کہ کمپنی کے پلان کے مطابق یہاں سے نکالی گئی معدنیات کو پائپ لائن کے ذریعے گوادر تک پمپ کرکے لیجانے اور پھر کسی بیرون ملک لیجاکر ریفائن کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ہے اسلئے کمپنی کو پاکستان میں ہی ریفائنری قائم کرنی ہوگی جس کے بعد حکومت بلوچستان اور کمپنی کے مابین معاملات خراب ہوئے جس کے بعد بلوچستان کی اس وقت کی صوبائی حکومت کے سربراہ نواب اسلم خان رئیسانی نے سپریم کورٹ کے دو ہزار گیارہ کے فیصلے کو جواز بنا کر معاملہ بلوچستان کابینہ میں رکھا ۔ بلوچستان کی صوبائی کابینہ نے اس معاہدے کو کالعدم قرار دیدیادو ہزار گیارہ میں بلوچستان حکومت نے ٹی سی سی کی مائننگ لیز دینے کی درخوا ست مسترد کردی۔ وجہ یہ بتائی گئی کہ درخواست نامکمل ہے اور کمپنی نے معاہدے کی قانون شکنی کی ہے۔سپریم کورٹ نے سات جنوری دو ہزار تیرہ حکومت بلوچستان کے فیصلے کی توثیق کی بلوچستان کابینہ کا اس فیصلے کے فوری بعد اس وقت پاکستان میں تعینات امریکی سفیر کا ردعمل انتہائی اہمیت کا حامل تھا جس میں انہوں نے بلوچستان حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس ملک میں کیسے سرمایہ کاری آسکتی ہے جہاں ایک حکومت بیک جنبش قلم عالمی معاہدوں کو کالعدم قرار دے دیتی ہے اس کے بعد ٹی سی سی نے دو مختلف عالمی فورمز پر کیس کئے جن میں ایک کے فیصلے کے تحت پاکستان کو چھ ارب ڈالر کے جرمانے کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ دوسرے فورم پر فیصلہ آنا رہتا ہے۔ حال ہی میں ہونے والی پیش رفت پر وفاقی اور صوبائی حکومت نے معاملے کو جس انداز میں ہینڈل کیا اس سے ایک ایسی صورت حال پیدا ہوگئی ہے جس کے باعث خدشہ ہے کہ ایک بہتر آپشن پر کام کرنے کے بجا ئے معاملہ متنازعہ نہ ہوجائے حکومت بلوچستان کی اسمبلی میں موجود اپوزیشن اندرون خانہ حکومت کے ساتھ مجوزہ پروگرام پر عمل در آمد کو تیار ہے لیکن سیاسی زمہ داری یا اس کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ۔ بلوچستان اسمبلی میں موجود اپوزیشن جماعتوں میں قوم پرست ہوں یا مذہب پرست ہوں حکومتی ایوانوں میں واضح اشارے دیتے دیکھے جاتے ہیں کہ ریکوڈک کے قانونی مسائل کا حل اس کے بغیر ممکن نہیں۔ لیکن عوام کے سامنے اس بات کا بوجھ اٹھانے کو تیار نہیں ہیں۔ایسی اندرون خانہ حمایت سے بلوچستان اسمبلی کی اپوزیشن اس ڈیل کے بدلے کچھ لو اور کچھ دو کی بنیاد پر اپنے چند دیگر مطالبات تو منوا لے گی اور اس اہم فیصلے پر خاموش رہ کر حکومت کو واک اوور تو دے دے گی لیکن اس پر کسی بھی حال میں اس فیصلے کے درست یا غلط ہونے کی ذمے دار نہیں بنے گی۔ حکومت بلوچستان کو چاہئے کہ ایسی صورتحال میں جب ملک معاشی بحران سے دوچار ہے جرمانے کی ادائیگی ممکن نہیں تو صرف ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ اس پر دوسرے فریق سے معاملے کو آئوٹ آف کورٹ حل کیا جائے اس سے ایک بہتر ڈیل کیا ہوسکتی ہے اور کیسے ہوسکتی ہے اس پر عوام کو حقائق سے آگاہ کرے۔ رائے عامہ ہموار کرکے فیصلہ سازی کی طرف بڑھے اور ماضی کی غلطیوں کو بھلا کر آگے بڑھنے کی کوشش کرے اگر کسی بہتر فیصلے کی صورت میں کوئی پیش رفت ہوتی ہے تو ملک میں معاشی استحکام آئے گا ۔ بلوچستان کے چرواہے کی پریشانیاں کچھ کم ہو سکیں گی اگر موجودہ وفاقی یا صوبائی حکومت نے ایک بہتر ڈیل کو بھی مس ہینڈل کیا تو پاکستان کی معیشت کے بیل آئوٹ پیکج ریکوڈک سے ایک اور مس ہینڈلنگ ایک نئی تباہی کا پیغام ہوگی اور دنیا میں سونے کی پانچویں بڑی کان اپنے نام کے لفغی معنوں کی طرح ریت کا ٹیلا ہی رہے گی ۔